پاکستان میں جب مار دھاڑ کرتے، دبئی سے لندن تک جائیدادیں بناتے، سوئس بینکوں کو ڈالروں سے بھرتے اور ہر کنٹریکٹ میں تگڑا مال بناتے بناتے آخرکار سول ملٹری حکمران اور ان کے ساتھی بیورو کریٹس بند گلی میں پہنچتے ہیں اور ان کے پکڑے جانے کا وقت آن پہنچتا ہے تو ان کے پاس آخری حربہ یہ ہوتا ہے چند مخصوص صحافیوں کو بلا کر انہیں عزت و احترام سے نوازا جائے، انہیں کھانا کھلایا جائے اور ان کی مدد لی جائے تاکہ انہیں ملزم سے معصوم ثابت کیا جائے۔میرے جیسے لوئر مڈل بیک گرائونڈ سے آئے صحافیوں کی انا کا مساج کیا جائے کہ ان سے زیادہ عقل مند لوگ پیدا نہیں ہوئے لہٰذا انہیں مشورے دیئے جائیں کہ وہ سازشوں میں گھر گئے ہیں، بتائیں کیسے نکلا جائے۔ ویسے کسی صحافی نے آج تک ان بڑے لوگوں سے نہیں پوچھا کہ جب بند دروازوں میں آپ مشکوک فیصلے کرکے‘ مال بنا رہے ہوتے ہیں اس وقت بلا کر کیوں مشورے نہیں کرتے کہ یہ چھکا مار لوں‘ کیسا رہے گا؟
جب ان حکمرانوں کو مشورے نہیں چاہیے ہوتے تو پھر وہ آف دی ریکارڈ بریفنگ کے نام پر اپنا رونا دھونا سناتے ہیں کہ کیسے ان کے خلاف کچھ خفیہ قوتیں ہیں اور عالمی سازشیں ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے ایسے ایسے کارنامے صحافیوں کو سناتے ہیں جن کا علم انہیں بھی اس وقت ہوتا ہے جب ان کی میڈیا ٹیم انہیں ٹاکنگ پوائنٹس بنا کر دیتی ہے۔ صحافیوں سے ملاقات کا یہ سلسلہ اسلام آباد سے شروع ہو کر لاہور پر ختم ہو جاتا ہے؛ تاہم سب سے اہم مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ کون سے صحافی حکومت دوست ہیں اور کون سے مخالف۔ لہٰذا اس فہرست پر بڑی باریکی سے کام ہوتا ہے تاکہ کہیں کوئی گستاخ صحافی نہ گھس جائے۔
میرا اسلام آباد میں بیس سالہ رپورٹنگ کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ صحافیوں سے ایسی ملاقات کا مقصد محض انہیں اپنے حق میں لکھنے کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے اور یقین کریں ایک آدھ کو چھوڑکر میرے جیسے سب صحافی حکومت اور بڑے لوگوں کی توقعات پر پورا اترتے ہیں۔
ماضی کی ایسی ملاقاتیں چھوڑیں، ابھی کا حال دیکھ لیں۔ نواز شریف چار سال تک وزیراعظم رہے لیکن مجال ہے اس دوران انہوں نے صحافیوں کے گروپ کو علیحدہ بلا کر کوئی بات کی ہو۔ ان چار سالوں میں انہوں نے کوئی ٹی وی انٹرویو نہیں دیا اور نہ ہی کسی کو قریب آنے دیا۔ اگرچہ انفرادی طور پر چند صحافی ہمیشہ فہرست میں رہتے ہیں جن سے مشورے ہو رہے ہوتے ہیں۔ اب اچانک چار سال بعد‘ جونہی سپریم کورٹ سے برطرف ہوئے ہیں کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ سر جی! بھول گئے ہیں اس ملک میں صحافی بھی ہیں، جن سے آپ کی ملاقات بہت ضروری ہے اور یوں چار سال بعد ایک ملاقات کرائی گئی۔
ابھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی یہی مشورہ دیا گیا کہ جناب فوراً صحافیوں کو بلائیں اور بتائیں کہ آپ کتنی بڑی جنگ لڑ رہے ہیں اور کیسے نیب کا ادارہ اچانک آپ کے خلاف متحرک ہوگیا ہے۔ اپنے تین سال پرانے سکینڈل کو انہوں نے اس بات سے جوڑ دیا کہ نیب ان کے خلاف کارروائی شروع کر رہا ہے کیونکہ وہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے بہت سارے صحافی محض سنی سنائی پر چلتے ہیں۔ رپورٹنگ کا کلچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں رہی اب۔ 'مستند ہے ہمارا فرمایا ہوا‘ والا حساب ہو چکا ہے۔ اور یوں جو شاہد خاقان عباسی چاہتے تھے، ان کے پیاروں نے وہی کچھ لکھ مارا کہ ان کے خلاف نیب اچانک حرکت میں آ گیا ہے کیونکہ وہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ویسے میرے جو دوست شاہد خاقان عباسی کے اس تین سالہ پرانے سکینڈل کو نواز شریف کا ساتھ دینے سے جوڑنے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں ان سے عرض ہے کہ یہ سکینڈل موجودہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے دور میں نہیں سامنے آیا اور نہ ہی ان کے دور میں بنایا گیا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ تین سال قبل شاہد خاقان عباسی جب وزیر پٹرولیم تھے تو انہوں نے ایک بڑے کارپوریٹ ادارے کے ساتھ ایک ڈیل کی تھی جس کے تحت انہوں نے فلوٹنگ ٹرمینل بنانا تھا۔ شروع میں اس کی بولی تین ارب روپے رکھی گئی تھی؛ تاہم بعد میں نیا اشتہار دے کر راتوں رات اس کی قیمت تیرہ ارب روپے تک کر دی گئی۔ کوئی وجہ نہ بتائی گئی کہ اچانک دس ارب روپے کیوں بڑھا دیئے گئے۔ اس کے بعد تین ارب روپے کا کنٹریکٹ تیرہ ارب روپے پر اس ادارے کو دے دیا گیا۔ دس ارب روپے کس کی جیب میں گئے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک شق یہ پیدا کی گئی کہ اس ادارے کو روزانہ کے حساب سے دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز کی ادائیگی کی جائی گی، پندرہ برس تک‘ چاہے فلوٹنگ ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو۔ یوں ہر ماہ اس ادارے کو تقریباً ایک ارب روپے نقد مل رہے ہیں۔ ہر سال بارہ ارب روپے۔ یوں تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری وہ ایک سال میں پوری کر کے اگلے چودہ برس تک ڈیڑھ سو ارب کا منافع کمائیں گے۔ اب تک یہ ادارہ اربوں روپے اس مد میں وصول کر چکا ہے لیکن اس کا ٹرمینل استعمال نہیں ہوا۔ پھر بھی روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز ادا ہو رہے ہیں۔ اس دوران اس ادارے کے ہی ایک ملازم جس نے اس ادارے کی سائیڈ سے یہ ڈیل کی تھی، کو پی ایس او کا سربراہ لگا دیا گیا۔ رہے نام اللہ کا!
اس پر کراچی نیب نے تین سال پہلے تحقیقات شروع کیں اورایک رپورٹ بنا کر چیئرمین قمر زمان کو بھیجی کہ کیسے شاہد خاقان عباسی اور دیگر افسران نے مل کر اس ادارے کو فائدے دیئے اور ملک کا نقصان کیا، لہٰذا شاہد خاقان کے خلاف انکوائری کی اجازت دی جائے۔ قمر زمان نے وہ فائل دبا لی۔ اب وہ فائل دوبارہ نیب کراچی آفس نے نئے چیئرمین کو بھیجی جس میں ان سے دوبارہ اجازت مانگی گئی ہے۔
اس لیے یہ جو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملاقات کی ہے اور صحافیوں کے ذریعے کلین چٹ لینے کی کوشش کی ہے وہ سمجھ میں آتی ہے۔ مان لیتے ہیں کہ موجودہ چیئرمین جاوید اقبال‘ جنہیں خود عباسی صاحب نے لگایا تھا‘کچھ قوتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں، لیکن تین سال پہلے تو جاوید اقبال نہیں تھے‘ پھر اس وقت پٹرولیم منسٹر کے خلاف کون سازش کر رہا تھا؟
میرا سوال اپنے صحافی دوستوں سے ہے کہ کیا ہمیں ہیرو بننے کی کوشش کرکے‘ اربوں روپے کے سکینڈل چھپانے میں ان سیاستدانوں کی مدد کرنی چاہیے؟ جو ہمیں اہمیت دے، اٹھ کر ملے، بلا کر ایک گھنٹہ وقت دے اس کے بعد اس کے سب جرائم معاف ہو جانے چاہئیں؟ چاہے وہ پورا ملک لوٹ چکا ہو؟ سوال یہ ہے اگر وزیراعظم عباسی نے کچھ غلط نہیں کیا اور وہ بہت بہادر ہیں تو پھر انہیں یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ یہ سب گفتگو آف دی ریکارڈ ہے؟ آف دی ریکارڈ گفتگو وزیراعظم اس وقت کرتا ہے جب اس نے اپنے حق میں صحافیوں سے لکھوانا ہوتا ہے۔ وہ ان صحافیوں کا اعتماد لے کر ان سے وہ کچھ لکھوا لیتے ہیں جو خود کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ وہ اداروں کو ایسے صحافیوں کے ذریعے بدنام کراتے ہیں۔
جونہی کسی کرپٹ کے خلاف پھندہ ٹائٹ ہونے لگتا ہے تو وہ دو کام کرتا ہے۔ ایک فوراً صدقہ خیرات شروع کر دیتا ہے اور دوسرا فوراً چند صحافیوں کو بلا کر بتاتا ہے کہ اس کے خلاف کرپشن سکینڈلز اس لیے کھل رہے ہیں کیونکہ وہ سازشوں کا حصہ نہیں بن رہا۔ شاہد خاقان عباسی کے لیے بھی وقت شروع ہوگیا ہے کہ وہ بھی خیرات باٹنا شروع کر دیں۔ ہمارے چند دوست واقعی ان کی سنی سنائی کہانی پر دل سے یقین کر آئے ہیں اور مارکیٹ میں بڑی کامیابی سے یہ کہانی بیچ بھی رہے ہیں۔ مجھے اکثر لگتا ہے کہ پاکستان میں احتساب کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے میں جہاں کچھ اور وجوہات ہیں‘ وہیں ہم صحافی بھی ہیں جنہیں آف دی ریکارڈ بریفنگ دے کر مارکیٹ میں بھیجا جاتا ہے کہ شروع ہو جائو منا بھائی۔ اور منا بھائی پھر جوش سے منجن بیچنا شروع کر دیتے ہیں اور ملزم کو معصوم بنا کر ہی دم لیتے ہیں!ڈاکٹر عاصم حسین کو بھی معصوم میڈیا نے بنایا اور اب شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی اور مذکورہ بڑے ادارے کے سکینڈل سے بھی کلین چٹ اُنہی صحافیوں نے لے کر دینی ہے جو آف دی ریکارڈ بریفنگ لے کر آئے ہیں۔
ہم گھاگ صحافیوں سے بہتر یہ کرتب اور گرکون جانتا ہے کہ بڑے سے بڑے ملزم سے ''آف دی ریکارڈ‘‘ بریفنگ لینے کے بعد بڑی محنت سے اسے معصوم کیسے ثابت کرنا ہے۔