مشرف دور میں ملک کی تباہی پھیری گئی‘ رہی
سہی کسر زرداری نے پوری کر دی : سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''مشرف دور میں ملک کی تباہی پھیری گئی‘ رہی سہی کسر زرداری نے پوری کر دی‘‘ اور ہمارے لیے کچھ نہ چھوڑا‘ تاہم اپنی بساط کے مطابق ہم نے اس کی خدمت اس طرح سے کی کہ ناجائز سرمائے کو ملک سے باہر بھیج کر اس لعنت سے پاک کیا اور اس قدر قرضے لیے کہ جب اُن کو ادا کرنے کا وقت آیا تو اگلی حکومت کو نانی یاد آ جائے گی‘ اسی لیے ہم نے اگلی حکومت میں آنے کا خیال ترک کر دیا ہے کہ جٹ جانے اور بجو جانے‘ چنانچہ بجو اگلی بار آرام کرے گا اور خوب تگڑا ہو کر ملک کی باقی ماندہ خدمت بھی سرانجام دے دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران اور شیخ رشید جیسی حماقت ہم نے نہیں کرنی‘‘ بلکہ صرف اپنے جیسی حماقتیں ہی کریں گے اور پھر پکڑے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''مارشل لاء لگانے والے جرنیلوں اور قلم فروش صحافیوں نے مُلک کو آگے نہیں بڑھنے دیا‘‘ جبکہ ہمارے میڈیا سیل والے شرفاء بھی اس میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے جھوٹی ترقیوں کے دعوے باندھ باندھ کر لوگوں کو بیوقوف بنایا۔ آپ اگلے روز کوہاٹ کے مقام پر کوہاٹ ایکسپریس کا افتتاح کر رہے تھے۔
جو شوگر مل کم قیمت پر گنا خریدے اُس
کے مالک کو گرفتار کیا جائے : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''جو شوگر مل کم قیمت پر گنا خریدے اس کے مالک کو گرفتار کیا جائے‘‘ اگرچہ زیادہ تر شوگر ملز ہمارے خاندان ہی کی ہیں اس لیے پولیس میں اگر ہمت ہے تو ہمیں گرفتار کر کے دکھائے‘ بیشک آج کل ہماری حالت گرفتار شدگان سے بھی بدتر ہے کیونکہ کرپشن میں گرفتار ہونے کا خوف گرفتاری سے بھی بڑھ کر ہے‘ خدا کرے نیب کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں‘ آمین ثم آمین۔ انہوں نے کہا کہ ''کاشتکاروں کی محنت کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘ جس طرح اللہ میاں نے ہماری محنت کو ضائع نہیں ہونے دیا جو اس کم بخت نیب کی آنکھوں میں بُِری طرح کھٹک رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''گنے کے کاشتکاروں کو ان کا حق دینا ہو گا‘‘ اور اس پر تالیاں بجانے سے گریز کریں کیونکہ ابھی میں نے زینب قتل کیس میں پریس کانفرنس کرنی ہے جہاں تالیاں بجانے کا وافر موقعہ فراہم ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''شوگر مل مالکان اگر ہمارے عزیز رشتے دار بھی ہوں تو اُن کے ساتھ بھی رعایت نہ کی جائے‘‘ کیونکہ اگر عدالتیں ہمارے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کر رہیں تو پولیس کسی کے ساتھ کیوں کرے۔ آپ اگلے روز لاہور میں یو اے ای کے سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ نے تالیاں بجانے کا نہیں کہا‘ لوگوں نے خود بجائیں : رانا ثناء
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ نے تالیاں بجانے کا نہیں کہا‘ لوگوں نے خود بجائیں‘‘ کیونکہ کوئی اچھا کام کرے تو اس پر تالی بجانے کیلئے وزیراعلیٰ خود نہیں کہتے جبکہ ماڈل ٹائون پولیس کے کارنامے پر بھی اگر کچھ لوگوں نے تالیاں بجائیں تو انہیں بھی وزیراعلیٰ یا میں نے نہیں کہا تھا کیونکہ لوگوں کو ہماری دلی خواہشات کا پہلے سے ہی علم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پولیس کی حوصلہ افزائی کے لیے تالیاں بجانا کچھ غلط نہیں‘‘ کیونکہ اگر صحیح یا غلط کو دیکھا جائے تو ہمارے ہر کام پر تالی کی بجائے کف افسوس ملنا بنتا ہے اور اگر اسی جذبے کے تحت تالیاں بجاتے ہیں جنہیں خوشی کی تالیاں سمجھ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فرانزک لیب نہ ہوتی تو ملزم نہ پکڑے جاتے‘‘ اس لیے چاہیے تو یہ تھا کہ ملزم کی جرسی کے اُن دو بٹنوں کے لیے بھی تالیاں بجائی جاتیں جن کی مدد سے ملزم پکڑا گیا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
جھوٹی خبروں اور جنگی آلات کے غلط
نتائج نکل سکتے ہیں : بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جھوٹی خبروں اور جنگی آلات کے غلط نتائج نکل سکتے ہیں‘‘ جس طرح یہ جھوٹی خبر چلائی جا رہی ہے کہ رائو انوار بلاول ہائوس میں چھپا بیٹھا ہے حالانکہ بلاول ہائوس میں تو اتنی جگہ ہی نہیں ہے کہ ایک ایک بیڈ پر تین تین چار چار لوگ پڑے ہوتے ہیں اور کسی سرکاری ہسپتال کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں‘ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ وہاں چائے وغیرہ پینے کے لیے آئے ہوں اور اس کے بعد واپس چلے گئے ہوں‘ یا زیادہ سے زیادہ اُنہیں کھانے کے لیے روک لیا گیا ہو جبکہ کھانے کے بعد پھر چائے وغیرہ ہوتی ہے اور اس کے بعد اگلے کھانے کا وقت آ جاتا ہے جبکہ گھر آیا مہمان آتا اپنی مرضی سے ہے اور جاتا گھر والوں کی مرضی سے‘ چنانچہ اُمید ہے کہ وہ آخری کھانا کھا کر اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیں گے بشرطیکہ اس دوران اُن کی طبیعت علیل نہ ہو گئی ہو۔ آپ اگلے روز ڈیوس میں کچھ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب کینیڈا میں مقیم شاعر طاہر اسلم گورا کے مجموعے ''منظر آنکھوں میں ٹھہرے رہتے ہیں‘‘ میں سے کچھ نظمیں :
جمہوریت کا مکالمہ
ترقی یافتہ ملکوں کی
جمہوریت ایک میلے کی طرح ہوتی ہے
جس میں
پسماندہ مُلکوں کے بچے گم ہو جاتے ہیں
...............
ساخت کا سوال
دو ٹانگیں ایک دھڑ
دو بازو ایک سر
مجھے اپنے آپ میں
اس سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دیتا
مجھے یقین ہے
اس سے زیادہ کسی کے پاس کچھ نہیں
............
اُس کا حُسن تو اتفاقی تھا
اُس کا حُسن تو اتفاقی تھا
تم ایسے ہی ڈر گئے
اب اُس کے نہ ملنے پر افسردہ ہو
وہ تو تمہیں اتفاقاً نظر آیا تھا
اس طرح کے کتنے حسیں تمہاری نظروں سے اوجھل ہو گئے
تم ایسے ہی ہاتھ ملتے رہتے ہو
آج کا مقطع
مُسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو‘ ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہُوا میں