تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-01-2018

کوئی اور کام

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم لکھنے اور بولنے والوں کے کندھوں پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ رائے عامہ تشکیل دینا ، تعلیم دینا ،عام لوگوں کو عقل کی بات بتانا، مایوسی میں مبتلا لوگوں کو راستہ دکھانا ، یہ روشنی بانٹنے کا کاروبار ہے۔ہر لکھنے والا ایک استاد ، ایک ٹیچر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ لوگ اس سے سیکھتے ہیں ، رہنمائی لیتے ہیں ۔ کبھی ہم لکھنے والوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں۔ ہمیشہ ہر معاشرے میں خرابیاں موجود ہوتی ہیں ۔ خاص طور پر وہاں ، جہاں ادارے نہ ہو ں ، وہ ممالک جنہیں آزادہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ، جہاں ایک بدمعاش اشرافیہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے اقتدار پہ قابض ہو ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مستقل طور پر ہم مایوسی تقسیم کرنے لگیں ۔ بے شمار معاشرے ایسے ہیں ، جو بدترین حالات سے نکل کر عالمی قوت بنے۔ بہت سی عالمی قوتیں اپنی حماقتوںکی وجہ سے آج ماضی کا حصہ ہیں ۔ایک انتہا پسند صدر کی قیادت میںعالمی طاقت امریکہ تباہی کے راستے پر بگٹٹ ہے ۔ عربوں کا ماضی اور حال ہمارے سامنے ہے ۔ بدترین حالات سے نکل کر وہ عالمی قوت بنے اور پھر زوال پذیر ہوئے ۔ لکھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ خرابی کی نشاندہی کریں لیکن ساتھ ہی ساتھ بہتری کے لیے ایک لائحۂ عمل بھی واضح کریں ۔ اگر اپنی ذاتی زندگی میں، میں ایک ناکام شخص بھی ہوں تو بھی لکھنے والے کے طور پر مجھے امید کی بات کرنی چاہیے ۔ ان لوگوں کی میں بات ہی نہیں کر رہا ،جو برسرِ اقتدار قوتوں کے گن گاتے اور سرکار سے مراعات پاتے ہیں۔ اگر آپ ایک سیاسی جماعت کو پسند کرتے بھی ہیں ، تب بھی اس کے اقتدار میں آپ کوخاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ لوگ آپ کو بادشاہ کی تعریف کرنے کا طعنہ نہ دیں ۔ آپ کوئی سرکاری عہدہ ، کوئی ٹھیکہ اور کوئی کوٹہ حاصل نہ کریں ۔ اگر آپ یہ کرتے ہیں تو اس کے بعد لکھنے اور بولنے والے کے طور پر آپ کی اپنی برادری میں آپ کی کوئی حیثیت باقی نہ رہ جائے گی ۔
گزشتہ موسمِ گرما میں ایک بڑے اخبار میں لکھنے والے ایک صاحب نے یہ خبر دی کہ وزیرِ اعظم تقریر کے لیے فلاں علاقے میں پہنچے۔ اس کے ساتھ ہی وہاں بادل اُمڈ آئے اور بارش ہونے لگی۔ مراد یہ تھی کہ وزیرِاعظم کی ذات بابرکت ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سرکار کی عظمت کا گن گانے والے الٹا آزاد لوگوں پہ طنز کرنے لگے۔ ضرور کریں لیکن ساتھ ہی گلی میں نکل کر دس بیس لوگوں سے ان کی رائے پوچھیں ۔ آپ کو اپنی اورد وسروں کی وقعت کا اندازہ ہو جائے گا۔ آپ چاہیں جتنا طنز فرمالیں ، رائے عامہ کی نظر میں آپ کو کبھی عزت نہیں ملے گی ۔ جب ایک حکومت چلی جاتی ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھراس کی کارکردگی اظہر من الشمس ہوجاتی ہے ۔ آج سب جانتے ہیں کہ جنرل مشرف کی کارکردگی جمہوریت کے گن گانے والی زرداری اور لیگی حکومتوں سے بہت بہتر تھی ۔ آج اس سے اندازہ لگائیں کہ اس دور میں پاکستان کے قرضوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔2008ء میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو اس وقت ساٹھ سالہ تاریخ کا سارا قرض کل چھ ہزار ارب روپے تھا۔ زرداری صاحب نے پانچ برسوں میں اسے چودہ ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا ۔ یعنی دو گنا سے بھی زیادہ ۔ آپ لاکھ تاویلیں پیش کر لیں ۔ جمہوریت کو دنیاکا بہترین نظام کہیے اور خوشی سے کہیے لیکن معیشت کے ان اعداد و شمار میں تبدیلی نہیں کر سکتے ۔آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ زرداری دور مشرف دور سے بہتر تھا۔ اگر کہیں گے بھی تو مانے گا کون ؟ 
مجھے کئی لوگوں نے کہا کہ کالم نگاری سائنس کی کتاب نہیں یا یہ کہ یہ آپ کا شعبہ نہیں ۔ میرا جواب یہ ہے کہ اگر تو میری تحریریں آپ کو کچھ سوچنے کی دعوت دیتی ہیں ۔اگر ایک دماغ بھی سوچنے کا آغاز کر دیتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ اپنے زمانے کے بہت بڑے استاد وں کی سوچ آج مکمل طور پر غلط ثابت ہوچکی ہے ۔ اس کے باوجود آج بھی ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتاہے ۔ اس لیے کہ معاشرے کو انہوں نے غور و فکر کی دعوت دی۔ وہ راستہ بتایا ، جس پر چلتے ہوئے مغرب نے ترقی کے زینے طے کیے ۔آپ باقیوں کو چھوڑ دیجیے ۔ ارسطو کے سائنسی نظریات غلط تھے ۔ کرّ ہء ارض ہرگز کائنات کا محور و مرکز نہیں تھی ۔ میں ارسطو نہیں اور نہ کوئی سائنسدان لیکن اگر مجھے لکھنے کا منصب مل ہی گیا ہے تو میں معاشرے کو غور و فکر کی دعوت اور امید کا راستہ کیوں نہ دکھائوں۔غور و فکر، بالخصوص سائنسی تحقیق کے علاوہ اور کوئی راستے ایسا نہیں ، جس پہ چل کر آپ ترقی کی منازل طے کر سکیں ۔ اس کے بغیر تو آپ اپنا دفاع نہیں کر سکتے ۔ آج کے دور میں بھلا جن ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور جن کے پاس نہیں ، کیا وہ ایک برابر ہیں ؟ 
انسانی ذہن انتہائی وسیع ہے ۔ یہ اپنے اندر ایک پوری کائنات ہے ۔ ایک کائنات آپ کے باہر ہے ۔ آپ اس کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ پڑھنے والے سوچتے ہیں ۔جب کوئی شخص شعور کی ایک نظر اس کائنات پہ دوڑاتا ہے تو پھر وہ ایک عام انسان سے آدمی بن جاتا ہے۔ شعورکی اس نگاہ سے دنیا کو دیکھنا ہی وہ اعلیٰ ترین منصب تھا، انسان کو جس کے لیے پیدا کیا گیا ۔ اس کے علاوہ انسانی فضیلت کابھلا اور کیا راز ہے ؟ 
اور سیاست ؟ بنیادی طور پر کالم نگاری کا موضوع سیاست ہی ہے ۔ آپ رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں ۔ اسے تعلیم دیتے ہیں ۔ معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے ایک لائحہ عمل دیتے ہیں ۔ حکمرانوں کی غلطیوں پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ انہیں اچھائی کی ترغیب دیتے ہیں ۔جہاں سرکار ٹھیک ہو اور جہاں اس پر ناجائز تنقید ہو رہی ہو، وہاں اس کا ساتھ بھی دیتے ہیں ۔ یہ تو ایک جہاد ہے ۔ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو ایک لکھنے والے کے طور پر اپنا فرض ادا کرتے ہیں ۔ 
میں پھر کہتاہوں کہ ہم لکھنے والوں کو سوچنا چاہیے ۔ ہمیںیاوہ گوئی کی تنخواہ نہیں دی جاتی ۔ ایک صاحب لکھتے ہیں: میں دہی لینے گیا تو وہاں رش لگا ہوا تھا ۔ دہی والے نے میری طرف دیکھا بھی نہیں۔ دہی لینے کی کوشش میں میرے اپنے دماغ کی دہی بن گئی ۔وغیرہ وغیرہ۔آپ خوامخواہ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ آپ کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں ۔ عوام کو آپ غور و فکر کی دعوت نہیں دے رہے ۔ آپ بہتری کا کوئی راستہ نہیں دکھا رہے ۔ آپ کے پاس کوئی موضوع نہیں ہے ۔ آپ انسانی جذبات و احساسات پہ لکھنے کے قابل نہیں ۔ لمبی لمبی خشک تقریروں یا ادھر ادھر کی ہانک کے آپ کاغذ کا منہ کالا فرمارہے ہیں ۔ اس سے آپ کو اور اس معاشرے کو کیا حاصل؟اگر آپ فضولیات کو کسی نہ کسی طرح چھپوا بھی لیتے ہیں اور ساتھ اپنی تصویر بھی شائع کرا لیتے ہیں ، پھر بھی یہ کوئی کامیابی نہیں بلکہ یہ آپ کی بدنامی کا اشتہار ہے ۔ اس سے بہتر ہے کہ انسان کسی اورشعبے کا رخ کرے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved