تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-01-2018

اپنی ذات کا مایا جال

کارل گستاو ینگ کا شمار بیسویں صدی کے بڑے ماہرینِ نفسیات میں ہوتا ہے۔ ایک انٹرویو میں ینگ نے کہا تھا کہ ہمیں نفسیات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہم انسان کے بارے میں بہت ہی کم، بلکہ خطرناک حد تک بہت کم جانتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھاکہ ٹیکنالوجیز کے دور میں انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود انسان ہے۔ 
تب ینگ کی کی بات کو محض بڑھک قرار دے کر ایک طرف ہٹادیا گیا تھا۔ آج اندازہ ہوتا ہے کہ کارل ینگ اور اِسی قبیل کے دیگر ماہرینِ نفسیات نے جو کچھ کہا تھا اُس میں صداقت اور حقیقت پسندی کا عنصر غیر معمولی تھا۔ بات کچھ یوں ہے کہ انسان نصف صدی میں خطرناک حد تک الجھ گیا ہے۔ معاشرے شدید الجھن کا شکار ہیں۔ دنیا کو جو مادّی اعتبار سے جو کچھ درکار تھا وہ سبھی کچھ ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ عام بھی کردیا گیا ہے۔ کل تک جو صرف خواص کے لیے تھا وہ اب عوام کے لیے بھی موجود ہے اور اُس سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔ دو تین صدیوں پہلے تک اشرافیہ اور باقی معاشرے میں غیر معمولی حدِ فاصل تھی۔ جو کچھ امراء کو میسر تھا وہ عام آدمی کے تصور کی دسترس میں بھی نہ تھا اور سچ تو یہ ہے کہ عام آدمی کو معلوم بھی نہ ہو پاتا تھا کہ شاہی محلّات میں کیا کیا پایا جاتا ہے۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھوما تو ٹیکنالوجیز کا ریلا امڈ آیا۔ اِس کے بعد خواص اور عوام کا فرق کم از کم اشیاء و خدمات کی حد تک تو مٹ گیا۔ آج کسی بڑے طیارے کی بزنس کلاس میں کوئی ارب پتی ہی نہیں، عام آدمی بھی سفر کرسکتا ہے۔ کسی شاندار ہوٹل میں قیام محض صاحبانِ ثروت کا حق نہیں۔ اشیاء و خدمات سے مستفید ہونے کی قیمت ادا کرکے کوئی بھی شخص کسی بھی شاندار ہوٹل کا کسٹمر بن سکتا ہے۔ معاشرے میں مجموعی طور پر ناہمواریاں اپنی جگہ، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سب کو سبھی کچھ میسّر ہے۔ سوال صرف قیمت ادا کرنے کا ہے، کوئی بھی چیز زیادہ دور نہیں۔ 
یہ تو ہوا مادّی امور کا معاملہ۔ خرابیاں مادّی معاملات ہی نے پیدا کی ہیں۔ اور اِن خرابیوں کو غیر معمولی حجم اختیار کرنے کی منزل تک اخلاقی انحطاط نے پہنچایا ہے۔ کسی نہ کسی طور بہت کچھ حاصل کرنے کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ سوچ لیا گیا ہے کہ جب تک دم میں دم ہے، اِس دنیا میں پائی جانے والی ہر چیز سے بھرپور مستفید، بلکہ متمتّع ہوتے رہنا ہے۔ اب چاہے اِس کے لیے باقی سبھی کچھ داؤ پر لگانا پڑے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ آخرت کا تصور ذہنوں سے کھرچ کر پھینک دیا گیا ہے۔ جہاں آخرت کا تصوّر نہیں پایا جاتا وہاں صرف دنیا پائی جاتی ہے۔ اور جہاں صرف دنیا پائی جاتی ہے وہاں ذہن میں پنپنے والی ہر بے ڈھنگی بات عجیب ہی ڈھنگ سے اپنے ''جلوے‘‘ بکھیر رہی ہوتی ہے۔ 
کارل ینگ نے جو کچھ کہا تھا اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن کو آزاد چھوڑنے کے بعد اب اس کا غلام ہوچکا ہے۔ ذہن میں پنپنے والی ہر بے ڈھنگی بات پر آمنّا و صدقنا کہتے ہوئے وہ شدید بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے۔ ایک زمانے سے علمائے نفسیات اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ انسان کے لیے عزتِ نفس سے بڑھ کر کچھ نہیں اور اس کے تحفظ کے لیے سبھی کچھ داؤ پر لگایا جاسکتا ہے۔ انسان نے عزتِ نفس کے بارے میں غلط تصوّرات قائم کرلیے اور پھر ان تمام تصوّرات کو حرزِ جاں بنانے کے لیے میدان میں نکل آیا۔ 
آزادی کا یہ مفہوم اخذ کرلیا گیا ہے کہ جو کچھ بھی جی میں آئے کر گزریے۔ حقوق کے حصول کی خاطر سرپٹ دوڑتے ہوئے آج کا انسان اپنے فرائض کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ ہر فرد دوسروں کو اُن کی حدود یاد دلاتا رہتا ہے مگر اپنی حدود کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہے اِس دور کا سب سے بڑا المیہ۔ جہاں بھر کو درست کرنے کی فکر لاحق ہے، اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کا ذرا سا بھی خیال نہیں۔ 
جب آخرت کا تصوّر ذہن کے راڈار سے غائب ہو جائے تو وجود کا جہاز سمت کھو بیٹھتا ہے۔ آج کا انسان ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے۔ جب کسی قادرِ مطلق ہستی پر یقین باقی نہ رہے اور مرنے کے بعد پھر زندہ کرکے حساب کتاب کے لیے طلب کیے جانے کا تصوّر ذہنوں میں جاگزیں نہ ہو تو انسان اِس خاک دانِ جہاں کو سبھی کچھ سمجھ کر جیتا ہے۔ اور ایسی زندگی یقینِ کامل کو شکست و ریخت سے دوچار کرتی ہے۔ ایسے میں انسان یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ ہے تو جہاں ہے۔ اپنے ہونے ہی کو سب کچھ سمجھ لینا ذہن کی شاید سب سے بڑی ٹیڑھ ہے۔ جب انسان آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں اور اپنی ذات کو کائنات کا مرکز سمجھ بیٹھتا ہے تب حماقت کے تمام مراحل پار کرتا ہوا کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔ 
ہمارے اپنے معاشرے میں ایسے احمقوں کی کمی نہیں جو زندگی کا بڑا حصہ ضائع کرچکنے کے بعد جب خوابِ غفلت سے بیدار ہوتے ہیں تو راتوں رات سب کچھ درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اِس کوشش میں ناکامی کے آثار نمایاں ہوتے ہی حواس کھو بیٹھتے ہیں اور اپنی دنیا کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ 
عزتِ نفس کا تصور اتنا وقیع ہے کہ اُسے سمجھنے کے لیے عمر چاہیے۔ لوگ جھوٹی انا کو بھی عزتِ نفس کے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں۔ ہر انسان کے لیے اُس کی اپنی ذات ہی سب سے بڑی ہوتی ہے۔ اُس کی تمام سرگرمیاں اپنی ذات کے محور کے گرد گھومتی ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف اپنا بھلا سوچا جائے اور باقی دنیا کو خیرباد کہتے ہوئے آنکھیں بند کرلی جائیں۔ یہ دنیا ہمارے لیے اُتنی ہی مفید ثابت ہوگی جتنے ہم اِس کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ جو کچھ ہم دوسروں سے چاہتے ہیں وہی کچھ دوسروں کو بھی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ 
جھوٹی انا کو عزتِ نفس کا درجہ دے کر اِس چاک پر اپنی ہر خواہش کا برتن تیار کرنے کی صورت میں اپنی ذات کا مایا جال خطرناک حد تک پھیل جاتا ہے اور پھر انسان اس مایا جال سے نکل نہیں پاتا۔ جب اپنی ذات کو سب کچھ سمجھ لیا جائے تو معمولی سی ناکامی بھی موت کے دہانے تک لے جاتی ہے۔ راتوں رات بہت کچھ درست کرنے میں ناکامی پر انسان صرف اپنے وجود کو ختم کرنے پر تک محدود نہیں رہتا، تمام متعلقین کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ بیوی، بچوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنی زندگی بھی ختم کرنے کے واقعات بھی اپنی ذات کے مایا جال میں پھنسنے ہی کا شاخسانہ ہوا کرتے ہیں۔ کسی قادرِ مطلق ہستی اور اُس کی شانِ ربوبیت پر یقین سے محرومی کی حالت انسان کو شدید ترین مایوسی سے دوچار کرتی ہے۔ شانِ کریمی کے ساتھ پالنے والے رب پر کامل یقین نہ ہونے پر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اپنے متعلقین کو وہ خود پال رہا ہے اور جب وہ نہیں ہوگا تو کوئی پالنے والا نہ ہوگا۔ ایسے میں اُسے بہترین آپشن یہی لگتا ہے کہ دنیا سے اپنا رختِ سفر باندھنے سے قبل متعلقین کا رختِ سفر بھی باندھ دے! 
یقین، بلکہ ایقان اپنے وجود پر نہیں ربّ کریم کی ذات پر رکھنا ہے۔ دانائی کا یہی تقاضا ہے۔ اپنی ذات کے مایا جال سے نکل کر کائنات کے خالق و مالک کو حقیقی حتمی وجود تسلیم کرنے سے حقیقی عقلِ سلیم نصیب ہوگی جو فی زمانہ مستحکم انداز سے زندگی بسر کرنے کے لیے انتہائی لازم ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved