تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     27-01-2018

اَن پڑھی کی باتیں!

ہماری کچھ حرکتیں ایسی ہیں کہ اُن پہ شرم محسوس ہوتی ہے۔ دنیا میں اور کتنے معاشرے ہوں گے جہاں ایک قاتل اور ریپسٹ کے پکڑے جانے پہ اعلیٰ حکام تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ اگر چند ایک صحافیوں نے یہ تماشا شروع کیا تھا تو چیف منسٹر کا کام تھا کہ انہیں روکتے اور موقع کی سنجیدگی کا احساس دلاتے۔ یہ کرنے کی بجائے وہ بھی تالیاں بجانے میں شریک ہو گئے۔ 
ہماری پولیس کوئی مجرا پارٹی ہے کہ کیس حل ہونے اور مجرم پکڑے جانے کے بعد اُسے ایک کروڑ کا انعام ملے۔ ہم نے ایک ایسا معاشرہ بنا لیا ہے کہ حادثے میں کوئی مرتا ہے تو لاشوں کی قیمت مقرر کی جاتی ہے اور پولیس حکام اپنے جائز فرائض نبھائیں تو کسی انعام کی طرف تکنے لگتے ہیں۔ اگر زینب کے اغوا اور قتل کے کیس میں پولیس حکام انعام کے حق دار ٹھہرے ہیں تو جو پہلے سات کیسز بچیوں کے ساتھ زیادتی کے ہوئے تھے‘ اور جس میں پولیس کچھ نہ کر سکی‘ اُس کا انعام اُنہیں کیا ملنا چاہیے؟
سچ تو یہ ہے کہ اگر اب کی بار قصور کے عوام اُٹھ کھڑے نہ ہوتے تو اس کیس کا بھی حشر وہی ہوتا جو پہلے سات کا ہوا۔ پولیس نے کسی کو اُٹھا کے پھڑکا دینا تھا اور کہنا تھا کہ قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں کسی واقعے یا جرم کے بعد احتجاج نہ ہو تو پولیس اور دیگر حکام ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ قصور میں جو پہلے واقعات تھے وہ خادمِ اعلیٰ کے دور میں ہی ہوئے۔ اُن کا نوٹس کیا لیا گیا اور خادمِ اعلیٰ نے اُن میں کون سی پھرتی دکھائی۔ یہ مسئلہ سنگین ہو گیا تھا اور قصور کے عوام بپھر گئے تھے‘ اس لئے پنجاب حکومت کے پاس کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ حرکت میں آتی۔ بپھرے ہوئے عوام پہ گولی بھی چلائی گئی جس سے دو ہلاکتیں ہوئیں۔ اُس کی بھی انکوائری رکھی گئی لیکن اُس کا کیا بنا کسی کو کچھ پتا نہیں۔ 
چند سال پہلے پولیس ٹریننگ سکول مناواں پہ دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا‘ اور جب گھنٹوں پہ محیط مقابلہ ختم ہوا تو پولیس خوشی میں آپے سے باہر ہو گئی اور ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ ایسی حرکات اور کہاں دیکھنے کو ملتی ہیں؟
راؤ انوار جیسے پولیس آفیسر کو کراچی میں سالوں برداشت کیا جاتا ہے۔ مقابلے کے سپیشلسٹ مانے جاتے ہیں‘ کیونکہ ایک طویل فہرست ہے اُن لوگوں کی جن کو اُنہوں نے فرضی مقابلوں میں پھڑکایا۔ فوجی حکام کے بھی وہ کام آتے رہے‘ جس کی وجہ سے اُنہیں ہائی لیول پذیرائی ملتی رہی۔ 1995ء میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں اُن کی ڈائریکٹ ڈائلنگ تب کے وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ بابر سے تھی‘ جس کی وجہ سے وہ کسی اور کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ تب کراچی کے ڈی آئی جی شعیب سڈل تھے‘ جو خود بڑے دبنگ افسر مانے جاتے تھے‘ لیکن راؤ انوار ان کی بھی نہ سُنتے تھے۔ سڈل نے اُنہیں معطل کر دیا تھا لیکن پھر بھی راؤ انوار تھانہ ائیر پورٹ کے ایس ایچ او کے فرائض نبھاتے رہے۔ آمد و رفت ایک پولیس آرمڈ وین میں کیا کرتے اور دہشت کی نشانی سمجھتے جاتے۔
ہوتا یوں ہے کہ کوئی پولیس والا آپ کے دس ناجائز کام کرے تو اسے چھوٹ مل جاتی ہے اور وہ پچاس مشکوک کام اپنے کر لیتا ہے۔ اس لئے کوئی حیرانی نہیں کہ اِن کاؤنٹر سپیشلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ راؤ انوار کی یہ مشہوری بھی ہو گئی کہ ملیر ایریا میں وسیع پیمانے پہ قبضہ گروپوںکے مدد گار ہو گئے ہیں۔ لاہور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ شہباز شریف کی 1997ء کی پہلی چیف منسٹری میں چند پولیس افسروں نے فرضی مقابلہ سپیشلسٹ کے طور پہ شہرت پائی۔ اوپر والوںکے کہنے پہ مقابلے کرتے اور پھر زمینوں پہ قبضے کا سائیڈ بزنس کرتے۔ چونکہ اشیر باد اوپر سے ہوتی‘ اس لئے پوچھنے والا کوئی نہ ہوتا اور وہ دندناتے پھرتے۔ جب یہ چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں تو ایسے پولیس افسران کے بارے میں یہ بھی مشہور ہو جاتا کہ فلاں ایکٹریس یا تھیٹر ڈرامے کی آرٹسٹ سے قریبی مراسم ہیں۔ پیسے تب ہی کسی پر نچھاور کیے جاتے ہیں جب یا تو مالدار باپ نیا نیا مرا ہو یا دولت کے ذرائع ناجائز ہوں۔ جائز پیسے پھینکنا مشکل ہوتا ہے۔ 
پھر ہم بات بات پہ کہتے نہیں تھکتے کہ تصورِ اقبال یہ تھا اور قائد اعظم کا تصورِ پاکستان فلاں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ معاشرہ سولائزڈ یا ایک اچھی تہذیب پہ مبنی ہو۔ جس میں سولائزڈ اقدار نمایاں ہوں۔ یہ معاشرے میں طاقتور طبقات پہ منحصر ہوتا ہے کہ اُن کے رویے ایسے ہوں جن سے اچھی روایات جڑ پکڑیں۔ لیکن جہاں اشرافیہ میں جھوٹ اور فریب عام ہو جائیں اور معاشرے کی سب سے بڑی قدر دولت بن جائے‘ چاہے وہ جائز طریقوں سے اکٹھی کی گئی ہو یا ناجائز ذرائع سے، تو پھر ایسا ہی گا جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ زینب کا قاتل پکڑا جائے تو اُس پہ بھی حکام کی طرف سے فنکاری دیکھنے میں آئے گی۔ اس میں اُن کا قصور بھی نہیں۔ وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہم ٹھیک کر رہے ہیں۔ پولیس بھی جب ہوائی فائرنگ کرتی ہے تو وہ سمجھتی ہے کہ ٹھیک کام ہو رہا ہے۔ 
ساتھ ہی فاٹا کی ایک ایجنسی میں امریکہ ڈرون حملہ کر دیتا ہے اور ہم پکار اُٹھتے ہیں کہ ہماری خود مختاری پہ حملہ ہوا ہے۔ امریکی ذرائع کی طرف سے دعویٰ ہوتا ہے کہ مرنے والوں میں حقانی نیٹ ورک کے دو کمانڈر شامل ہیں۔ پہلے ہم پہ واجب ہے کہ بتائیں کہ مرنے والوں کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا یا نہیں۔ اگر وہ حقانی نیٹ ورک کے نکلتے ہیں تو ہماری خود مختاری کے واویلے میں کچھ نہیں رہتا۔ یہ چیزیں ہمیں واضح کرنی چاہئیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد گھر امریکی حملہ ہوا اور ہم نے منہ لٹکا لیے کہ ہماری خود مختاری پہ حملہ ہوا ہے۔ لیکن بن لادن وہاں کیسے چھپا رہا‘ ہم بتا نہ سکے۔
قصور کہاں اور ڈرون حملے کہاں‘ لیکن بنیادی مسئلہ پھر وہی ہے کہ اس قوم کو ڈھنگ کی قیادت کہاں سے اور کیسے نصیب ہو۔ جمہوریت کا واویلا کافی نہیں۔ اِس میں سے کچھ نکلے تو سہی۔ بہت ساری چیزیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ پھر وہی، کون کرے گا؟ ایک زمانے میں جب تک انگریزوں کا اثر رہا تمام ادارے ٹھیک کام کرتے رہے۔ قانون اور ضابطے کے مطابق کام ہوتے۔ کرپشن اور بدعنوانی تب بھی تھی لیکن اس پیمانے پہ نہیں جو آج دیکھنے کو ملتی ہے۔ افسران رشوت لیتے تھے تو قدرے چھپ چھپا کے۔ یہ جو آج کل چیزیں کھلے عام ہو گئی ہیں تب ایسا نہیں تھا۔ ہم یہ کہتے شرماتے نہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بگاڑ یکدم پیدا نہیں ہوا۔ اچھی روایات پہلے برباد ہوئیں اور پھر خرابی نے زور پکڑا۔ پہیہ الٹا چلنے کی ضرورت ہے اور یہ سیاسی عمل سے ہی ممکن ہے۔ 
ایک اور بات سمجھ میں نہیں آتی۔ ہمارے لیڈران ڈیووس (Davos) کیا لینے جاتے ہیں۔ وہاں اِنہیں کوئی اہمیت دیتا ہے، اِن کے پاس کہنے کو کچھ ہوتا ہے اور اِن کی بات کوئی سُنتا ہے؟ اپنے پیسوں پہ جائیں تو اور بات ہے لیکن قوم کے پیسے برباد کرکے ایک بے تُکے سفر پہ روانہ ہونا‘ یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ ڈیووس فورم کے حوالے سے ایک دلچسپ تصویر چھپی ہے۔ شاہد خاقان عباسی ہمراہ سائرہ افضل تارڑ اور چند دیگر حکام بل گیٹس (Bill Gates) سے ملاقات کر رہے ہیں۔ سائرہ افضل تارڑ بول رہی ہیں۔ یقینا بل گیٹس کو کمپیوٹرز اور اُن کے سافٹ ویئرز کی باریکیوں کے بارے میں کچھ سمجھا رہی ہوں گی۔ بالکل ویسے‘ جیسے احسن اقبال کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے چینیوں کو سی پیک کی باریکیاں سمجھانے کا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved