پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ تحقیق کے نام پر دل و دماغ کی واٹ لگانے کا سلسلہ کہاں رکے گا۔ دنیا بھر میں تحقیق کی آڑ لے کر خدا جانے کیسے کیسے موضوعات پر طبع آزمائی کی جارہی ہے۔ عجیب و غریب موضوعات پر نرالے انداز کی تحقیق کے نتائج پڑھ کر دل و دماغ پر جو کچھ گزرتی ہے اُسے بیان کرنے کے لیے حضرتِ داغؔ کا سہارا لینا پڑے گا ؎
جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں!
کچھ دن سکون سے گزرتے ہیں کہ تحقیق کی دنیا سے کوئی نہ کوئی انٹ شنٹ قسم کی خبر آکر سارا سکون تہ و بالا کردیتی ہے۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا کے اچھے خاصے چلتے پھرتے نظام کو کھڈے لائن لگانے کے لیے تحقیق کو طریقِ واردات کی حیثیت سے گلے لگالیا گیا ہے۔
تحقیق کرنے والوں کو آج کل انسانوں سے زیادہ جانوروں سے پیار ہے۔ بہت سوں نے تو بوریا بستر لپیٹ کر جنگل کی راہ لی ہے۔ جنگل میں جانوروں کے معمولات کو فلم بند کرنے کے لیے یہ ہفتوں، بلکہ مہینوں جنگلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ اِنہیں تحقیق سے کیا حاصل ہوتا ہے اور کیا نہیں یہ تو ایک الگ اور لمبی بحث ہے، سوال جانوروں کے مفادات و استحقاق کا ہے۔ ایک طرف تو انہیں چڑیا گھروں میں بند کرکے تماشا بنادیا گیا ہے۔ اس پر بھی انسان کا جی نہیں بھرا تو اب تحقیق کے نام پر جنگل کے ماحول میں بھی ان کے لیے ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
والی کیفیت پیدا کردی گئی ہے! بے چارے رات کی پرسکون نیند کے بعد فطرت کی پکار پر اپنے ٹھکانوں سے باہر آتے ہیں تو اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں کسی کیمرے کی آنکھ دیکھ تو نہیں رہی!
شہروں میں بھی چھوٹے بڑے جانوروں کو بخشنے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ کتوں اور بلیوں کے بارے میں طرح طرح کے زاویوں سے تحقیق کا بازار گرم ہے۔ کئی ماہ کی تحقیق کے بعد محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ کتے وفاداری کے معاملے میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتے، ایک طرف جھک جاتے ہیں۔ معروف جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کتے مردوں کے مقابلے میں خواتین کے زیادہ وفادار ہوتے ہیں!
معاملہ صرف ایک حقیقت کو بیان کرنے تک محدود نہیں رکھا گیا۔ محققین نے کتوں میں پائے جانے والے ''خاتون نواز‘‘ رویّے کا سبب بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ کتوں کے بھونکنے اور مختلف دبی دبی آوازیں نکالنے کو خواتین زیادہ اور آسانی سے سمجھتی ہیں۔ یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ خواتین میں بھونکنے اور دبی دبی آوازوں کو سمجھنے کی صلاحیت کیوں پائی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں محققین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خواتین مردم شناس ہوں نہ ہوں، ''سگ شناس‘‘ ضرور ہوتی ہیں!
یہ بھی واضح نہیں ہوسکا کہ خواتین میں یہ سگ شناسی کب پیدا ہوتی ہے، شادی سے پہلے یا شادی کے بعد؟ اگر معاملہ شادی کے بعد کا ہے تو ماہرین کی رائے کو ایک خاص تک تسلیم کیا جاسکتا ہے! وہ یُوں کہ شادی کے بعد بے چارے مردوں کی جو درگت بنتی ہے اُسے قدرے محتاط الفاظ میں ''سگ سازی‘‘ کے عمل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے!
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ماہرین بات بات پر کتے بلیوں کی طرف لپکتے ہیں اور ان پر تحقیق کا بازار گرم کرکے انسانوں کی دنیا میں تنازعات بڑھانے کا باعث بنتے ہیں! اب یہی دیکھ لیجیے کہ کتوں کی وفاداری اور طبیعت کے جھکاؤ کا معاملہ اٹھاکر محققین نے مرد و زن میں پھڈا کرانے کی سازش کی ہے۔
محققین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کتوں کے دماغ کا ایک حصہ انسانوں کے دماغ کی طرح کام کرتا ہے جس کی مدد سے وہ (انسانوں کے) مختلف جذبات بہتر انداز سے سمجھنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ یہ دعویٰ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ کتوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کے دماغ کا ایک حصہ انسانوں کے دماغ کی طرح کام کرتا ہے، بہت عجیب ہے کیونکہ ہم نے کتوں کو کبھی انسانوں کی طرح بے ڈھنگی حرکتیں کرتے نہیں دیکھا! کتے آج بھی ''خطرناک حد تک‘‘ اپنے مینٹل فریم ورک کی حدود میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اگر کتوں کے دماغ کا کوئی حصہ انسانی دماغ کی طرح کام کر رہا ہوتا تو آج وہ اپنے حقیقی فطری انداز کے ساتھ اچھی خاصی متوازن زندگی بسر نہ کر رہے ہوتے!
کتوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ انسانوں کے جذبات کو سمجھنے میں بہت حد تک کامیاب رہتے ہیں ہمارے خیال میں یا تو جھوٹ ہے یا پھر حماقت۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر کتے ہمارے چند ایک جذبات کو بھی ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے قابل ہوتے تو آج ہمارے درمیان رہنا اور جینا کسی طور گوارا نہ کرتے! بالخصوص اکیسویں صدی کا انسان ساری تہذیب اور تمام اقدار بھول بھال کر غفلت اور جہالت کے قعرِ مذلّت میں ایسا گرا ہے کہ جانور بھی دیکھ کر عبرت پکڑتے ہیں اور اپنے جانور ہونے پر سکون کا سانس لیتے ہیں!
انسان اور کتوں کے تعلق کی مناسبت سے نئی تحقیق کے ذریعے محققین نے ایک تیر میں کئی نشانے لیے ہیں۔ ایک طرف تو انہوں نے کتوں کا خواتین کی طرف جھکاؤ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش مردوں اور کتوں کو باہم لڑانے کی سازش معلوم ہوتی ہے کیونکہ خواتین اب مردوں سے کہہ سکتی ہیں تم سے اچھے تو کتے ہیں جو ہمارے زیادہ وفادار ہیں! دوسری طرف ماہرین نے بیان کیا ہے کہ کتوں کا بھونکنا اور دبی دبی آوازیں نکالنا خواتین کی سمجھ میں خوب آتا ہے۔ محققین آخر چاہتے کیا ہیں؟ کیا اُن کی یہ خواہش ہے کہ مرد بھی اپنی بات بہتر طور پر سمجھانے کے لیے سراپا وفا سمجھے جانے والے حیوان کا سا انداز اختیار کریں؟ تیسرے نمبر پر محققین بیان کرتے ہیں کہ خواتین چونکہ فطری طور پر رحم دل ہوتی ہیں اور ان کا عمومی رویّہ ہمدردانہ و مشفقانہ ہوتا ہے اس لیے بلیوں کے علاوہ کتے بھی اُن کی معیت میں زیادہ تحفظ اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ یہ نکتہ کتوں کو مردوں سے مزید بدگمان کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ محققین خود ہی بتائیں دن بھر کی شدید مشقّت کے بعد رات گئے تھکے ہارے واپس آنے والے مردوں کو ویران سڑک پر آوارہ کتے گھیر کر پیٹ بھر کے بھونکنے کے بعد کاٹ کھانے کو دوڑیں گے تو بے چارے مرد پتھروں سے اُن کی تواضع نہیں کریں گے تو کیا گلے میں ہار ڈالیں گے!
محققین اپنا شوق بہت شوق سے پورا کرتے رہیں مگر ''باریک کام‘‘ سے باز رہیں۔ ایک بات کا ضرور خیال رہے۔ کتوں، بلیوں پر تحقیق کے ایسے نتائج منظر عام پر نہ لائے جائیں جن سے مرد و زن میں اختلاف بڑھے اور گھروں میں بگاڑ پیدا ہو! کتوں اور انسانوں کے تعلق پر تحقیق کی آڑ میں ''بین الانسان‘‘ تعلق کو داؤ پر لگانے سے گریز کیا جائے۔