تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     29-01-2018

اربابِ میڈیا کی خدمت میں!

''میڈیا سرتا پا ایک تجارتی سرگرمی ہے یا یہ اس کے منصب داران پر کوئی سماجی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے؟‘‘اربابِ میڈیا کے لیے اب اس سوال سے گریز ممکن نہیں رہا۔
یہ سماجی ادارے تھے جو فرد کی تربیت کرتے تھے۔ وہ فرد جو سماج کی اکائی ہے۔ والدین اخلاق کی بنیادی تعلیم دیتے تھے۔ مسجد میں بیٹھا ایک بے لوث آدمی جو نماز کی امامت ہی نہیں کرتا، محلے کے بچوں کو قرآن بھی پڑھاتا تھا۔ پھر سکول یا مکتب، جہاں استاد اپنے وجود میں ایک ادارہ تھا۔ سب بچے اس کے لیے اپنی اولاد کی طرح تھے۔ رہے محلہ دار تو وہ محلہ دار نہیں تھے، رشتہ دار تھے۔ کوئی چچا تھا تو کوئی ماموں۔ کوئی خالہ تھی تو کوئی پھپھو۔ بڑوں کو نام سے نہیں رشتے سے پکارا جاتا تھا۔ یہ سب مل کر فرد کی تربیت کرتے تھے۔ فرد اگر فطرتِ سلیم رکھتا تو اپنی تہذیب کا نمونہ بن جا تا تھا۔
اب ایسا نہیں ہے۔ سماجی ادارے بڑی حد تک ختم ہو چکے۔ اسباب بہت سے ہیں۔ تاریخ کا جبر سب سے اہم ہے جس نے لوگوں کو دیہات سے نکالا اور انہیں شہروںکا باسی بنایا۔ شہروں میں رہنے کے اپنے آداب ہیں۔ پھر شہروں میں بھی تیزی سے کلچرل تبدیلی آئی۔ معاشی مسائل اس سے سوا ہیں کہ مرد و زن، سب کمائیں نہ تو آسودگی کیسے آئے۔ مسجد و محراب نے بھی اپنے کردار پر نظر ثانی کی۔ اس کی دلچسپی امتِ مسلمہ سے ہے یا مطالبۂ نفاذِ شریعت سے، اپنے معاشرے سے نہیں۔ یہی معاملہ خانقاہ کا بھی ہے۔ اس سب کا نتیجہ ایک ہی نکلا۔ سماجی ادارے ختم ہو گئے یا غیر مؤثر۔
میڈیا ایک جدید سماجی ادارہ ہے۔ اس نے بڑی حد تک روایتی اداروں کی جگہ لے لی۔ اب یہی تفریح کا ذریعہ ہے اور یہی معلومات کا ماخذ بھی۔ یہی ذہن سازی کرتا ہے اور یہی تہذیب کو بھی فروغ دیتا ہے۔ میڈیا کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومت سازی بھی کرتا ہے۔ وہ کسی کے خلاف مہم شروع کرتا اور اسے پل بھر میںمحرم سے مجرم بنا دیتا ہے۔ وہ جذبات کو بھڑکاتا بھی ہے۔ سماج کی تشکیل میں اس کا کردار بنیادی ہو چکا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ اس کی سماجی ذمہ داری بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ اب وہ محض تجارتی ادارہ نہیں رہا۔
ایک دور میں یہ بحث ادب کے بارے میں بھی اٹھی تھی۔ ادب کیا اپنی سماجی ذمہ داری سے غافل رہ سکتا ہے؟ منٹو کا مقدمہ اس ضمن میں معروف ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ وہ معاشرے کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ سوسائٹی اگر ننگی ہے تو انہوں نے اسے ننگا ہی دکھانا ہے۔ اسے کپڑے پہنانا، ان کا نہیں، درزی کا کام ہے۔ ادیب اگر معاشرے کو اس کے ننگے پن کی طرف متوجہ کرتا ہے تو دراصل وہ اہم سماجی خدمت سرانجام دیتا ہے۔ وہ بین السطور اسے کپڑے پہنانے کی تاکید کر رہا ہے۔ میڈیا کا معاملہ مگر اس سے مختلف ہے۔ اس پر تو الزام یہ ہے کہ وہ اس سوسائٹی کو ننگا کرنے میں ملوث ہے جس نے کپڑے پہن رکھے ہیں۔
معاشرے میں ہیجان پھیلانا دراصل معاشرے کو فساد میں مبتلا کرنا ہے۔ یہ معاشرے کے کپڑے اتارنا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا نے گفتگو کے اُن اسالیب کی حوصلہ افزائی کی ہے جس سے ہیجان پھیلتا ہے۔ اُن اینکرز کو ہیرو بنایا گیا جن کی شہرت ہی سنسنی پھیلانا ہے۔ اس کا منتہائے کمال ڈاکٹر شاید مسعود کا انکشاف ہے جس کاکوئی ثبوت وہ عدالت میں بھی پیش نہ کر سکے۔
بہت سے لوگ یہ کام پرنٹ میڈیا میں بھی کرتے ہیں۔ مقبول راہنمائوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے‘ ان کی حب الوطنی کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کو یہود کا ایجنٹ ثابت کر نے پر تلے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے خطرناک تو مذہبی معاملات میں اشتعال پھیلانا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ کیسے ایک اینکر کی وجہ سے ایک اقلیتی گروہ خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہوا۔
ہم جانتے ہیںکہ یہ سنسنی اس لیے پھیلائی جاتی ہے کہ سنسنی کے خریدار زیادہ ہیں۔ جو اینکر اس فن کا ماہر ہے، اس کی مانگ زیادہ ہے۔ زیادہ داموں اس کی خدمات خریدی جاتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب میڈیا سر تا پا ایک کاروباری اور تجارتی سرگرمی ہو۔ اپنی سماجی ذمہ داری کا کسی کو احساس نہ ہو۔
گستاخی کی پیشگی معذرت چاہتے ہوئے میں یہ بھی عرض کروں گا کہ مقبولیت کی بھیڑ چال میں کبھی کبھی خیال ہوتا ہے کہ سکرین کے پیچھے کوئی دماغ کارفرما نہیں، کوئی روبوٹ بیٹھا ہے جس نے محض نقالی کرنی ہے۔ ایک چینل نے خبروں کا حلیہ بگاڑتے ہوئے، اس کو سنسنی خیز بنا دیا۔ خبر میں ڈرامے کا عنصر اس طرح شامل کر دیا گیا ہے کہ خبر پس منظر میں چلی گئی اور ڈرامہ سامنے رہ گیا ہے۔ ایک خبر غیر اہم ہو تی ہے مگر ڈرامے کے عنصر سے اس میں سنسنی شامل کر دی جاتی ہے۔ ایک جگہ اس بدعت کا آغاز ہوا ‘اب کم وبیش سب اس کی نقالی کر نے لگے ہیں، یہ جانے بغیر کہ اس سے خبر کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔
یہی معاملہ ٹاک شوز کا ہے۔ نہ کسی کو زبان کی صحت کا خیال ہے اور نہ مو ضوع کے انتخاب کا۔ اس وقت کسی چینل پر فکری تازگی کا کوئی اہتمام نہیں۔ کوئی ادبی پروگرام ہوتا ہے نہ علمی۔ میری معلومات کی حد تک، ''دنیا‘‘ ٹی وی کے پروگرام 'علم و حکمت‘ کے علاوہ کسی چینل پر کوئی ایسا پروگرام نہیں جو اہم مسائل پر سنجیدہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہو۔ یہ اس بات کا افسوس ناک اظہار ہے کہ میڈیا تہذیبی اور معاشرتی تعمیر میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔
حادثہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے طرزِعمل پر نظر ثانی کریں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام بھی ایسا ہی ایک حادثہ ہے۔ اسے مہلت سمجھتے ہوئے، اربابِ میڈیا کو ایک اخلاقی ضابطے کی طرف متوجہ ہونا ہو گا۔ یہاں اس وقت کوئی اخلاقیات نہیں ہیں۔ایک جگہ کوئی اینکر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے تو اگلے دن اسے کسی اور جگہ قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہ رویہ بتاتا ہے کہ میڈیا اپنی سماجی ذمہ داری کے بارے میں حساس نہیں۔ وہ منٹو کی طرح مسائل کی نشان دہی کر رہا ہے اور نہ درزی کی طرح اسے کپڑے پہنا رہا ہے۔ وہ صرف ہیجان پیدا کر رہا ہے۔
اس تنقید سے میڈیا کے مثبت پہلو سے صرفِ نظر مقصود نہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ عدالت نے اگر اس کا نوٹس لیا ہے تو ضروری ہے کہ یہ منطقی انجام تک پہنچے۔ ایک صحافی نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو معاف کر دیا جائے۔ میں بھی معافی کے حق میں ہوں لیکن اس کا کوئی اصول طے ہونا چاہیے۔ اگر کوئی آدمی سنسنی پھیلانے کا عادی ہو، اس کی تمام صحافتی زندگی اسی سے عبارت ہو تو کیا وہ اور پہلی دفعہ اس کا مرتکب ہو نے والا دونوں برابر شمار ہوںگے؟
میڈیا اگر خود احتساب کا قائل ہو تا تو آج عدالت کو مداخلت کی ضرورت نہ تھی۔ یہ بھی واضح ہے کہ اگر عدالت مداخلت نہ کرتی تو ڈاکٹر صاحب آج بھی ہیرو ہوتے اور مزید پروگراموں میں کئی نئے انکشافات بھی کر چکے ہوتے اور حسبِ عادت بے بنیاد۔ سنسی خیزی کے خریدار بہت ہیں جو آج بھی سوشل میڈیا پر ان کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔
میڈیا کا یہ حق کہ وہ دوسروں کا احتساب کرے، یہ حق اسی وقت ثابت ہے جب وہ اپنی اخلاقی ساکھ کے بارے میں حساس ہو۔ میڈیا کو دیکھنا ہو گا کہ اس نے معاشرے کی تعمیر میں کوئی کردار ادا کیا ہے یا تخریب میں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کا شکریہ کہ انہوں نے اربابِ میڈیا کو متوجہ کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کون اپنی سماجی ذمہ داری کا کتنا احساس کرتا ہے۔ اس میں دیر میڈیا کے مفاد میں نہیں ہو گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved