تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     14-03-2013

رُوح کے زخم

جلے ہوئے گھرندوے ، اجڑے ہوئے مکان، تصویرِ غم بنے ہوئے اس بستی کے بدقسمت مکین جن کی آنکھوں میں ہزاروں سوال ہیں… کہ آخر وہ بھی تو اس ملک کے آزاد شہری ہیں‘ ان پر یہ ظلم ان کے اپنے ہی ہم وطنوں نے کیوں ڈھایا؟ عارضی خیموں میں بیٹھے، دودھ اور کھانے کا انتظار کرتے معصوم بچے سہمے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان ہمارا بھی تو ملک ہے‘ پھر وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہم وطنوں کے ہاتھوں یوں گھر سے بے گھر کیوں ہوئے؟ کیا قصور تھا جس کی سزا پوری بستی کو بھگتنا پڑی؟ جوزف کالونی بادامی باغ میں جوکچھ ہوا وہ بہت شرمناک ہے۔ یوں لگتا ہے یہ ایک ایسے معاشرے کی داستان ہے جس میں قانون، رواداری، انصاف، احساس اور انسانیت نام کی کوئی شے باقی نہیں۔ کسی ایک شخص کے مبینہ جرم کی پاداش میں پوری بستی پردھاوا بول دیا گیا۔ مگر بات اتنی سادہ نہیں کہ ساون مسیح نامی ایک شخص جو اس بستی کا رہائشی ہے، وہ مبینہ طورپر توہین رسالت ؐ کامرتکب ہوا اور غم وغصے میں مسلمانوں نے جوزف کالونی پر دھاوا بول دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ شاید پولیس نے یہ کہہ کر جوزف کالونی کے مکینوں سے ایک روز پہلے گھر خالی کروالیے تھے کہ بستی پر شدت پسند عناصر حملہ کرسکتے ہیں۔ پولیس کی نفری باقاعدہ بستی کی حفاظت پر مامور تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار تماشا دیکھتے رہے اور چند شرپسندوں نے آکر غریب مسیحیوں کے گھروں کو مسمار کرنا شروع کردیا۔ ایک دو نہیں‘ ایک سو سے زیادہ گھروں کو مسمار کرتے چلے گئے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں محنت مشقت سے کمائے ہوئے سامان کو آگ لگاکر راکھ کرنا شروع کردیا۔ کچھ شرپسندوں نے وہاں موجود دکانوں کے تالے توڑ کر سامان بھی لُوٹا جو اپنی نوعیت کا شرمناک واقعہ ہے۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عین ناک تلے، قانون اور انصاف کی اس طرح دھجیاں اڑائی گئیں۔جوزف کالونی کی حفاظت پر تعینات پولیس اہلکار ان شرپسندوں کو نہ روک سکے اس لیے وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگئے۔ یہ سارا واقعہ ایک مسخ شدہ معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان اسلام کے امیج کو پہنچا۔ ہمارے دین کی بنیاد ہی رواداری اور امن پر رکھی گئی ہے۔ رواداری اسلا م میں ایک پورا فلسفہ ٔ حیات ہے اور اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلامی ریاستوں میں غیرمسلم اقلیتوں کو ہرطرح کے مذہبی، معاشرتی اور سماجی حقوق دیئے گئے۔ یورپ کی تاریخ دیکھیں تو سولھویں صدی عیسوی تک اقلیتوں کو اپنے حقوق کا علم تک نہ تھا‘ اقلیتیں غلامانہ زندگی بسرکرتیں جو جانوروں سے بھی بدتر ہوتی۔ انسانی حقوق کی کتنی تحریکیں چلیں۔ اقلیتوں کو اپنے حقوق کا احساس ہوا اور انیسویں صدی کے آنے تک اقلیتوں کو اپنے حقوق ملنے شروع ہوئے جبکہ اسلام چودہ سوسال پہلے ایک ایسا نظام متعارف کرواچکا تھا جس میں سب سے پہلے انسان کی تکریم ہے۔ مسلم معاشرے میں جو غیرمسلم اقلیتیں ہوتیں انہیں اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کے حقوق دیئے جاتے۔ نبی پاکؐ کی پوری حیات مبارکہ اس بات کی گواہی دیتی ہے ۔ آپؐ کی رحمت صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہ تھی بلکہ رحمت کے اس دریا سے غیرمسلم بھی مستفیض ہوتے تھے۔ آپؐ کا حسن اخلاق، شفقت اور رواداری ہی تھی کہ غیرمسلم جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ نبی پاک ؐ نے بڑے واضح انداز میں غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو ذمیوں (غیرمسلم اقلیتوں) کے ساتھ زیادتی کرے گا‘ ان سے کیے گئے عہد کی نافرمانی کرے گا، ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچائے گا یا انہیں عبادت سے روکے گا‘ ان کی عزت اور آبرو پر حملہ آور ہوگا تو روز قیامت اس متاثرہ ذمی کے حق میں نبی پاکؐ خود مقدمہ لڑیں گے۔ اسلام نے رواداری کا درس دیا ہے ۔ دین میں کوئی جبر روا نہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر کوئی توہین رسالتؐ کا مرتکب ہوا ہے تو سچ ثابت ہونے پر اسلامی ریاست کی عدالتیں اسے سزا سنانے کی مجاز ہیں جبکہ جوزف کالونی کا واقعہ تو ابہام کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ جب کالونی کے خالی گھروں کو مسمار کیا گیا تو توہین رسالتؐ کا مبینہ ملزم ساون مسیح پہلے ہی پولیس کی حراست میں تھا۔ اس حوالے سے کچھ افسوسناک خدشات کا اظہار اخبارات میں ہوا ہے کہ اس مسیحی کالونی پر قبضہ مافیا انڈسٹریل اسٹیٹ بنانا چاہتا ہے اور انہی کی ایما پر اس سارے واقعے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ایک مسیحی پر اسلام کی توہین کا الزام لگا کر مسلمانوں کو اکسایا گیا۔ کچھ شرپسندوں کو شامل کرکے بسی بسائی بستی کو خوفناک طریقے سے ڈھایا گیا۔ لوگوں میں بے یقینی اور اشتعال کی فضا پیدا کی گئی۔ اگر اس نہج پر شفاف تحقیقات ہوتی ہیں اور یہ سچ ثابت ہوتا ہے کہ اس سانحے میں کوئی قبضہ مافیا ملوث تھا تو یہ یقینا ایک ایسے معاشرے کی تصویر پیش کرے گا جہاں دھونس اور دھاندلی کی حکومت ہے۔ جہاں قانون ، انصاف، انسانیت اور سچ اپنے وجود کی بے مائیگی پر شرمندہ ہے۔ پنجاب حکومت کے لیے تو یقینا شرمندگی کا مقام ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں ایساسانحہ ہوا جس کی تلافی محض مسمار شدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرکے نہیں ہوگی۔ جسمانی زخم مندمل ہوجاتے ہیں مگر جو گھائو روح پر لگیں انہیں مندمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved