مودی حکومت نے مسلمانوں کے شرعی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ان کے انتہا پسند ہندو گروپ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں طلاق کے شرعی طریقے کو بدل دیا جائے۔ ایک ہی سانس میں تین مرتبہ طلاق کا لفظ کہنے سے طلاق ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے علما کرام نے طلاق کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے جو کہ پاکستان کے سرکاری قوانین کے مطابق‘ جس میں تین طلاقیں‘ ایک ایک ماہ کے وقفے سے دی جائیں۔ کیرالہ سے خبر ہے کہ وہاں ایک 34 سالہ خاتون نے اپنی امامت میں نماز جمعہ کرائی ۔ بھارت کی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے کیرالہ میں قرآن و سنت سوسائٹی کی جنرل سیکرٹری‘ جمیتا نے مسلم اکثریتی ضلع میں سوسائٹی کے دفتر کے اندر نماز جمعہ پڑھائی۔ اس سلسلے میں جمیتا کا کہنا ہے کہ قرآن‘ مرد اور عورت میں کسی طرح کی تفریق نہیں کرتا۔ اسلام میں خواتین کے امام بننے پر کوئی پابندی نہیں۔ یہ واقعہ کچھ عجیب سا ہے کیونکہ جس طرح سے جمیتا نے قرآن اور سنت کی غلط ترجمانی کی‘ وہ قابل مذمت ہے لیکن اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر اقلیتی طبقے کے اندر بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اسی طرح کا واقعہ چند برس قبل امریکہ میں بھی پیش آیا تھا‘ جس کے بعد پوری دنیا میں ہنگامہ برپا ہوا۔ جمیتا کے بارے میں یہی کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن و سنت کا حقیقی طور پر علم نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر بے چینی پیدا کرنے کی کارروائی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مرد‘ عورتوں پر حاکم ہے اور رسول اکرمﷺ کے زمانے میں بھی‘ کبھی کسی عورت نے جمعہ یا معمول کی نماز کی امامت نہیں کرائی۔ جمیتا کا کہنا کہ اسلام میں عورت اور مرد کو برابر کا درجہ دیا گیا ہے‘ سراسر غلط ہے۔ اسلام میں گواہی کے معاملے کو دیکھا جائے تو واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایک مرد کی جگہ‘ دو عورتیں ہوں گی۔ نکاح کے وقت دو مردوں کی گواہی شرط ہے۔ اگر دو مرد دستیاب نہیں تو ایک مرد اور اس کے مقابلے میں دو عورتیں گواہ بنائی جائیں گی۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ جب ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ صرف عورتوں کی گواہی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اسلام میں عورتیں اور مرد کسی بھی حالت میں برابر نہیں ہو سکتے۔ دوسری بات کہ عورتوں کی خاص بناوٹ کی وجہ سے وہ پورا مہینہ پاک صاف نہیں رہ سکتیں۔ انہیں وجوہ کی بنا پر عورتوں کی امامت جائز قرار نہیں دی گئی۔ البتہ عورت نفلی نمازوں کی امامت کر سکتی ہے‘ اس میں بھی شرط ہے کہ مقتدی‘ ساری کی ساری عورتیں ہی ہوں۔ کسی مرد کی نماز عورت کی امامت میں نہیں ہو سکتی۔
سوشل میڈیا پر جمیتا کی امامت کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ اس میں بھی ایسا لگتا ہے کہ اس عورت کو نماز پڑھنا ہی نہیں آتا کیونکہ جو ویڈیو میں نظر آ رہا ہے‘ اس میں رکوع سے اٹھتے وقت ''اللہ اکبر‘‘ کہہ کر رکوع سے کھڑی ہو جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ صرف ایک ہنگامہ کھڑا کرنے کے لئے‘ ایسی عورت کو امامت کی جگہ کھڑا کر دیا گیا ہے جس کو صحیح طریقے سے نماز پڑھنا بھی نہیں آتی۔ مفتیوں کی یہی رائے ہے کہ عورت کی امامت جائز نہیں۔ یہاں عورت کی امامت سے صرف اور صرف یہ محسوس کرایا جا رہا ہے کہ اب بھارت میں اسلام کی نئی شکل سامنے آنے والی ہے۔ جس طرح طلاق کے معاملے میں حکومت نے مداخلت کی‘ اسی طرح اب نماز میں بھی مداخلت ہو رہی ہے۔ سپین میں بھی ایسا ہوا تھا‘ جہاں مسلمانوں کی زبا ن‘ نماز کے طور طریقے کے علاوہ ان کے مذہبی امور کو نیا رنگ دے کر وہاں سے اسلام کا خاتمہ کر دیا گیا۔ آج یہ سب کچھ بھارت میں شروع ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بر سر اقتدار جماعت ایک خاص نظریے کو مسلمانوں پر تھونپنا چاہتی ہے۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں صرف ہندو ہی نہیں بلکہ کئی مذاہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بعد سکھوں اور عیسائیوں کی تعداد ہے۔ پھر بدھ مذہب کے ماننے والے بھی یہاں بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ وہ لوگ بھی ہیں جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔ ایسی صورت میں کسی ایک نظریے کو تھونپا نہیں جا سکتا۔ آر ایس ایس اور اس کی حلیف پارٹیاں مبینہ طور پر‘ اس دن سے اپنا نظریہ تھونپنے کے لئے سرگرم ہو گئی ہیں‘ جب سے نریندر مودی کی زیرِ قیادت‘ این ڈی اے حکومت آئی ہے۔ وزارتِ داخلہ نے ایک سوال نامہ مسلمانوں کے پاس بھیجا تاکہ یہ اندازہ ہو کہ کتنے لوگ کامن سول کوڈ کے حق میں ہیں؟ اس معاملے میں مسلمان ہی نہیں‘ سکھوں اور عیسائیوں نے بھی ہنگامہ کیا اور اس کی مخالفت کی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے کامن سول کوڈ کیا ہے‘ حکومت کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ ایسا نہیں ہوا۔ حکومت نے ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی اور اس میں تقریباً ایک سال تک لوگ پریشان رہے۔ اب یہ معاملہ تعطل کا شکار ہے۔