بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ حزب اختلاف کی طرف سے نگران وزیراعظم کے لئے جو تین نام پیش کئے گئے‘ ان کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔ مجوزہ تین ناموں میں سے دو مسلم لیگ کے حق میں یا پیپلزپارٹی کے خلاف خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد مسلم لیگ (ن) کے لئے بطور وکیل کام کر چکے ہیں اور جسٹس (ر) شاکر اللہ جان نے یوسف رضا گیلانی کو کسی تاخیر کے بغیر قومی اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر دیاتھا۔ اس وقت وہ قائمقام الیکشن کمشنر تھے۔ رسول بخش پلیجوکی عمر ابھی صرف 83سال ہے۔ مسلم لیگ (ن) ان کے بڑے ہونے کا انتظار کر لیتی‘ تو اچھا ہوتا۔ لیکن پیپلزپارٹی کے لئے ان تینوں میں سے کسی ایک کا انتخاب ممکن نہیں۔ پلیجوصاحب سندھ کے قوم پرست لیڈروں میں سرفہرست ہیں اور قوم پرست لیڈر ان دنوں مسلم لیگ (ن) کے بھرپور حامی بن چکے ہیں۔ امید تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی جواب میں کوئی ایک نام ایسا ضرور لائے گی جس کی ماضی میں کم از کم ان دو سیاسی جماعتوں کے ساتھ کسی طرح کی وابستگی نہ رہی ہو۔ نہ وہ پارٹی کارکن رہا ہو اور نہ ہی اس نے پارٹی کے لئے پیشہ ورانہ خدمات انجام دی ہوں۔ لیکن پیپلزپارٹی نے بھی نہلے پر دہلا دے مارا ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیرخزانہ کی حیثیت سے عبدالحفیظ شیخ تازہ تازہ مستعفی ہوئے ہیں اور استعفیٰ بھی ایسا کہ اس کی خبر چھپ جانے کے بعد بھی شیخ صاحب کابینہ کے اجلاس میں بیٹھے پائے گئے۔ وہ پیپلزپارٹی کے باقاعدہ رکن کی حیثیت میں سینیٹر اور وزیرخزانہ رہے۔ سینٹ کا الیکشن انہوں نے 2012ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔ ان پر دہری شہریت رکھنے کا بھی الزام ہے۔ 3جون کو ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن بھی فائل ہو چکی ہے اور اگر الزام ثابت ہو گیا‘ تو انہیں اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ جو شخص پیپلزپارٹی کا باقاعدہ رکن‘ ممبر سینٹ اور وزیرخزانہ رہ چکا ہو‘ اس کے بارے میں ن لیگ سے یہ امید رکھنا کہ وہ اسے بطور نگران وزیراعظم قبول کر لے گی‘ بالکل اسی طرح ہے‘ جیسے چوہدری شجاعت حسین کو قبول کر لیا جائے۔ چوہدری صاحب کے حق میں یہ چیز بھی جاتی ہے کہ وہ پرویزمشرف کی ٹیم کے سینئر رکن ہی نہیں‘ وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) نے پرویزمشرف کی ٹیم میں سے‘ جو لوگ چنے ہیں وہ بہرطور چوہدری صاحب کے مقابلے میں چھوٹی پوزیشنوں پر ہی رہے ۔ نوازشریف ان دنوں پرویزمشرف کے ساتھیوں پر خصوصی مہربانی کر رہے ہیں۔ اس معیار پر‘ چوہدری شجاعت حسین سے زیادہ اور کوئی شخصیت پوری نہیں اترتی۔ یہ صرف میرا نہیں‘ چوہدری صاحب کا اپنا بھی خیال ہے۔ انہوں نے کل ہی فرمایا کہ ’’نگران وزیراعظم کے لئے میرا نام سب سے بہتر ہے۔‘‘ ن لیگ اگر پرویزمشرف کے ساتھیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گی تو وہ عبدالحفیظ شیخ بہرحال نہیں ہوں گے۔ البتہ پیپلزپارٹی نے اپنے مجوزہ وزرائے اعظم میں وکلا اور ججوں پر اتنی توجہ نہیں دی‘ جتنی کہ مسلم لیگ (ن)نے دی ہے۔ اس کے مجوزہ امیدواروں میں دو ریٹائرڈ جج شامل ہیں۔ البتہ سینئر سٹیزنز میں دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر معمر افراد چنے ہیں۔ رسول بخش پلیجو اگر 83سال کے ہیں تو میرہزارخان کھوسو کی عمر 84 سال ہے۔ عمر کے معیار سے دیکھا جائے تو نوازشریف کے امیدوار ’’چھوٹے میاں‘‘ قرار پائیں گے۔ جبکہ 84سال کے کھوسو صاحب بہر حال ’’بڑے میاں‘‘ ہیں۔ اسی لئے میں نے شروع میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ ان کے مزید کچھ بڑے ہونے کا انتظار کر لیتی تو اچھا ہوتا۔ ہو سکتا ہے اگلے چار پانچ سال کے دوران پلیجو صاحب کھوسو صاحب سے ایک دو سال بڑے ہو جائیں۔ سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور اس میں سب کچھ ممکن ہے۔ مجھ سے پوچھا جائے تو یہی دو معمر امیدوار موزوں ہیں۔ دونوں پارٹیوں کو چاہیے کہ ان میں سے کسی ایک کے نام پر متفق ہو جائیں اور اگر اتفاق نہیں ہوتا‘ تو سکہ اچھال کر الٹا سیدھا مانگ لیں اور جو جیتے اس کے نام پر اتفاق کر لیا جائے۔ اس میں بہت فائدے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ نگران حکومت کو طول دینے کے ارادے رکھتے ہیں‘ ان کے عزائم پورے نہیں ہو سکیں گے۔ دونوں بزرگوں کی عمر انہیں اقتدار کو طول دینے کا موقعہ نہیں دے گی۔ وہ اپنے اقتدار میں ایک دو سال کا اضافہ تو کر سکتے ہیں‘ دس بارہ سال بہرحال نہیں کریں گے۔ جیسے کہ آمر حضرات کرتے رہے ہیں۔ ٹاس میں جس امیدوار کی جیت ہو‘ دونوں پارٹیاں اسے تسلیم کر لیں۔ کم از کم ایک امیدوار تو الیکشن کمیشن کی سکروٹنی سے محفوظ رہے گا۔ ورنہ آنے والے انتخابات میں تو سیاسی جماعتیں صرف امیدوار کھڑے کر سکیں گی۔ اسمبلیوں میں وہی پہنچے گا‘ جسے الیکشن کمیشن خود منتخب کر کے عوام کو اجازت دے گا کہ اب وہ جسے چاہیں منتخب کر لیں۔ پیپلزپارٹی کے پیش کردہ ناموں میں ایک ڈاکٹر عشرت حسین بھی ہیں۔ وہ ایک ماہر اقتصادیات اور بینکر ہیں۔ انہوں نے بطوربیورو کریٹ ‘ وزارت خزانہ‘ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے محکموں میں خدمات انجام دی ہیں۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے بھی ان کا تعلق رہا ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں وہ گورنر سٹیٹ بنک رہ چکے ہیں۔ بظاہروہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے نہیں لیکن پیپلزپارٹی کے پینل میں آ جانے کے بعد‘ انہیں جماعتی سیاست سے بالاتر نہیں سمجھا جا سکتا۔ بات کچھ یوں ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے نگران وزیراعظم چننے کا فارمولا ہی قابل عمل نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والی دو جماعتیں یا جماعتوں کا اتحاد‘ مخالف فریق کے نام کو کس طرح چن سکتا ہے؟ میرے اس خیال کی تصدیق ‘دونوں طرف کی فہرستیں دیکھنے سے ہو جاتی ہے۔ دونوں فریقوں نے اپنے مجوزہ نگران وزرائے اعظم کی فہرستوں میں ایک بھی نام ایسا نہیں دیا‘ جس پر دونوں اتفاق کر سکیں۔ ایسے نام ڈھونڈ ڈھونڈ کر رکھے گئے ہیں‘ جو دوسرے فریق کے لئے کسی قیمت پر قابل قبول نہ ہوں۔ ابھی تک کی صورتحال سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آخر کار نگران وزیراعظم کے نام پر نہ تو پارٹیاں اتفاق رائے کر سکیں گی اور نہ ہی پارلیمانی کمیٹی‘ جو دونوں مجاز جماعتوں کے عدم اتفاق کی صورت میں وزیراعظم کا نام دینے کی ذمہ دار ہو گی اور یہ کمیٹی کیسے بنے گی؟ وہ بھی دونوں فریقوں کے اتفاق رائے سے رکھے گئے اراکین پر مشتمل ہوگی۔ لیڈر فیصلہ نہیں کر پائیں گے‘ تو ان کی جماعتوں کے اراکین کیسے کر سکیں گے؟ اس کے بعد ظاہر ہے معاملہ چیف الیکشن کمشنر کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔شروع میں آزادانہ طور سے کام کرنے کے خواہش مند فخرو بھائی بہت پرعزم اور پرجوش تھے کہ وہ آزادانہ کام کر سکیں گے۔ لیکن تجربے کے ساتھ ساتھ ان کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا ہے ۔ چند روز سے وہ احکامات وصول کرنے پر لگے ہیںاور جس طرح ابتدائی دنوں میں محسوس ہوتا تھا کہ وہ آزادی سے اپنے فیصلے کرنے کے مجاز ہوں گے‘ وہ اب غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اب چٹھی آتی ہے‘ تو وہ کچھ کر لیتے ہیں اور نہیں آتی‘ تو انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ الیکشن ‘ سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ وہ اپنی اپنی انتخابی مہم جتنے زوروشور سے چلانا چاہیں چلا لیں‘ نتیجے پر ان کا کوئی اختیار نہیں ہو گا۔ امیدواروں کا چنائو الیکشن کمشنر کے ماتحت ڈیوٹی انجام دینے والا عملہ کرے گا اور اسمبلیوں میں اسی کے چنے ہوئے لوگ جانے کے اہل ہوں گے۔ سچی بات ہے ان سے بہتر انتخابات تو جنرل پرویزمشرف کرا گئے ۔ ہماری جمہوریت تین سال نکالے یا پانچ سال‘ رہتی بچی کی بچی ہے۔اس کے سر پر ہمیشہ کسی کا ہاتھ رہتا ہے اور جمہوریت کو جو نئی زندگی ملنے والی ہے‘ وہ چیف الیکشن کمشنر کے سائے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی سرپرستی میںدی جائے گی۔ ایک ایسا بچہ جو بار بار پیدا ہوتا‘ پانچ سال سے زیادہ بڑا نہ ہوتا ہو‘ اس کے سرپر کسی نہ کسی کا دست شفقت رہنا ضروری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved