کورٹ روم نمبر 1 ایک بار پھر ایک دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے‘ جہاں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بینچ ایک ایسے کیس کی سماعت کر رہا ہے‘ جس کا فیصلہ پاکستان کی سیاست پر نہایت گہرے اور دُوررس اثرات کا حامل ہوگا۔ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 62(1)(F) کے تحت ڈس کوالیفکیشن کی مدت سے متعلق ہے۔ (سابق) وزیراعظم نوازشریف اور پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل (فی الحال معطل) جہانگیر ترین کی نااہلی بھی اسی آرٹیکل کے تحت عمل میں آئی تھی چنانچہ انہیں بھی اصالتاً یا وکالتاً پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔
آرٹیکل 62(1)(F) کے تحت ڈس کوالیفکیشن کی مدت کا تعین نہیں۔ 28 جولائی کو میاں نوازشریف اس آرٹیکل کے تحت ڈس کوالیفائی قرار پائے تو کہنے والوں نے اسے تاحیات نااہلی کہا...جبکہ آرٹیکل 63 کے تحت (سابق) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پانچ سال کے لیے تھی۔ گیلانی صاحب کو عدالت عظمیٰ نے توہینِ عدالت میں قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ قید ''تا برخاستِ عدالت‘‘ تھی۔ عدالت نے حکم سنایا اور اُٹھ گئی یوں ایک‘ ڈیڑھ منٹ میں ''تا برخاستِ عدالت‘‘ کی مدت مکمل ہو گئی... محترمہ بے نظیر بھٹو اور ڈکٹیٹر مشرف کے مابین 5 اکتوبر 2007ء کو طے پانے والے این آر او کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری والی سپریم نے کورٹ کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اس سے این آر او کے تحت ختم ہونے والے مقدمات بحال ہو گئے۔ ان میں سوئس کورٹس میں زیرسماعت کرپشن کے مقدمات بھی تھے۔ ایک مقدمے میں دونوں کو سزا بھی ہوگئی تھی جس کے خلاف اپیل زیرسماعت تھی۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم گیلانی کی حکومت کو اس کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا۔ محترمہ اب اس دنیا میں نہیں تھیں‘ لیکن دوسرے ملزم جناب آصف زرداری تو خیر سے بقیدِ حیات (اور ایوانِ صدر میں براجمان) تھے... سپریم کورٹ کی حکم عدولی پر وزیراعظم گیلانی توہینِ عدالت کے مجرم قرار پائے۔ آرٹیکل 63 کے تحت توہینِ عدالت میں سزا یافتہ شخص پانچ سال کے لیے ڈس کوالیفائی ہو جاتا ہے۔ سپیکر محترمہ فہمیدہ مرزا‘ گیلانی صاحب کی ڈس کوالیفکیشن کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوانے پر آمادہ نہ ہوئیں‘ جس پر معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں پہنچا اور چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بینچ نے گیلانی صاحب کو پانچ سال کے لیے ڈس کوالیفائی کر دیا۔ 19 جون 2012ء سے شروع ہونے والی اس ڈس کوالیفکیشن کے باعث وہ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے لیے نااہل قرار پائے‘ اب وہ 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔
آرٹیکل 63 کے تحت وزیرآباد سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی جسٹس (ر) افتخار چیمہ ایک اور طرح کی مثال ہیں۔ وہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ کاغذات نامزدگی میں بے ضابطگی پر سپریم کورٹ نے انہیں ''ڈی سیٹ‘‘ کردیا‘ ضمنی انتخاب میں ان کے حصہ لینے پر پابندی نہیں تھی‘ چنانچہ وہ اسی ایوان کے لیے دوبارہ منتخب ہو گئے۔
نوازشریف اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے والے آرٹیکل 62(1)(F) کے تحت مدت کا معاملہ جناب ثاقب نثار کے پیشرو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے دور سے عدالتِ عظمیٰ میں Pending چلا آ رہا تھا۔ 15 دسمبر 2016ء کو جنابِ جمالی کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ اس کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔ سماعت کے دوران ایک مرحلے پر چیف جسٹس جمالی کے ریمارکس تھے کہ آرٹیکل 62/63 کے تحت کسی شخص کو عمر بھر کے لیے نااہل کیسے قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ وہ اپنی اصلاح کر کے خود کو ان آرٹیکلز کے تحت اہل بنا سکتا ہے۔ تو کیا عزت مآب چیف جسٹس سورۂ نور کی اس آیت سے استبناط کر رہے تھے‘ جس میں ارشاد فرمایا گیا ''جو لوگ عفت مآب خواتین پر تہمت تراشی کرتے ہیں اور اپنے دعوے کی سچائی میں چار گواہ نہیں لاتے‘ انہیں 80 کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو‘ کیونکہ یہ لوگ فاسق ہیں‘ البتہ اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو اللہ غفور الرحیم ہے۔ (بعض علماء کرام نے اس آیت سے استبناط کیا ہے کہ فاسق شخص اگر توبہ اور اپنی اصلاح کر لے تو گواہی کے لیے اس کی ڈس کوالیفکیشن ختم ہو جائے گی)
28 جولائی کے فیصلے میں وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے لیے کرپشن‘ سرکاری عہدے کے ناجائز استعمال‘ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ جیسا کوئی الزام نہ تھا۔ 21 جولائی کو پاناما کیس کی سماعت مکمل ہوئی (اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا) اس سے ایک روز قبل کے اخبارات نے فاضل بینچ کے ریمارکس کو ''لیڈ‘‘ اور ''سپر لیڈ‘‘ بنایا تھا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم پر عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں (دنیا)
ایک انگریزی اخبار کی ہیڈ لائن تھی :
"No Corruption, misuse of authority charge on PM:SC"
انہیں یہ سزا گیارہ مئی 2013ء کے الیکشن کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی میں ''اثاثہ‘‘ چھپانے کے الزام میں دی گئی (یہ ''اثاثہ‘‘ ان کے صاحبزادے کی کمپنی ZFE سے دس ہزار درہم ماہانہ تنخواہ تھی جو اگرچہ انہوں نے کبھی وصول نہ کی‘ لیکن یہ قابلِ وصول (Receivable) تو تھی۔ پاکستانی قوانین کے تحت یہ ''اثاثہ‘‘ نہیں‘ لیکن بلیک لا ڈکشنری کے تحت یہ اثاثے کی تعریف میں آتی تھی... کاغذات نامزدگی میں اثاثے کا اخفا یقینا بدنیتی اور بددیانتی قرار پائے گا جس کا افشا نقصان کا باعث بن سکتا ہو‘ کیا ایسے اثاثے کا چھپانا بھی اسی ذیل میں آئے گا جس کا ظاہر کرنا کسی نقصان کا باعث نہ ہو؟ظاہر ہے یہ قانون دانوں کی ''موشگافیاں ‘‘تھیں ۔حتمی رائے تو وہی تھی جو فاضل عدالت کی طرف سے آئی۔
اب آرٹیکل 62(1)(F) کے تحت نااہلی کی مدت کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیربحث ہے۔ فاضل چیف جسٹس کی سربراہی میں اس پانچ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس شیخ عظمت سعید‘ جسٹس اعجاز الاحسن‘ جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔ جناب شیخ عظمت سعید اور جناب اعجاز الاحسن پاناما کیس والے بینچ میں بھی شامل تھے‘ جبکہ جناب عمر عطاء بندیال‘ عمران خان اور جہانگیر ترین کیس والے بینچ کا حصہ تھے... یہ سب ہماری عدلیہ کے بہترین دماغ ہیں۔ ماضی میں نہایت اہم اور دوررس اثرات کے حامل کیسوں کی سماعت کے لیے ''فل کورٹ‘‘ کی روایت بھی رہی ہے۔اب جناب چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کی تشکیل کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے بھی یہ توقع بے جا نہیں کہ آئین فہمی کی اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر عدل و انصاف پر مبنی فیصلہ صادر کیا جائے گا۔
جناب چیف جسٹس اپنی اور اپنے ادارے کی عزت و احترام اوراس کے وقار و اعتبار کے حوالے سے (بجا طور پر) نہایت حساس ہیں جس کا اظہار ان دنوں مختلف مقامات پر ان کی تقاریر سے بھی ہو رہا ہے۔ نوازشریف (اور ان کے دیگر فیملی ممبرز) کے خلاف نیب عدالت میں مقدمات زیرِسماعت ہیں... ایسے میں عمران خان اور شیخ رشید جیسوں کے ''انکشافات‘‘ کہ سابق وزیراعظم اگلے ماہ جیل میں ہوں گے (شیخ نے تو جیل میں بیرک کی تیاری کی ''خبر‘‘ بھی دیدی ہے) کیا توہین عدالت کی ذیل میں نہیں آتے؟
جنابِ آرمی چیف نے گزشتہ دنوں فوج کے بعض خود ساختہ ترجمانوں سے اظہار لاتعلقی کیا تھا۔ کیا عدالتی فیصلوں کے حوالے سے پیش گوئیاں کرنے والوں کو ''شٹ اپ‘‘ کال نہیں دی جانی چاہیے؟