تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     30-01-2018

جمہوریت اور کرپشن

ہفتے کو جڑانوالہ( فیصل آباد) میں مسلم لیگ نواز کے پاور شو کا مقصد نواز شریف اور ان کی ممکنہ جانشین مریم صفدر کے سیاسی بیانیے کا غیر مبہم انداز میں اظہارکرنا تھا۔اس بیانیے کو تین مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے اول: عدلیہ پر تنقید، دوم: پانامہ فیصلے اور آئین پر تنقید، سوم: مخالف سیاسی جماعتوں پر تنقید۔ تیسرے پہلو یعنی مخالف سیاسی جماعتوں پر تنقید کی تو بڑی حد تک سمجھ آتی ہے کیونکہ یہ الیکشن کا سال ہے مگردوسرے دونوں پہلوئوں (سپریم کورٹ،اس کے معزز جج صاحبان اور ان کے فیصلوں پر شدید تنقید)پر سیر حاصل بحث کی ضرورت ہے۔
مریم صفدر کی تقریر میں اٹھائے گئے سوالوں کا تجزیہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جلسے کے آغاز میں طلال چوہدری کے تعارفی کلمات پر بھی کچھ تبصرہ کیا جائے۔طلال چوہدری نے اپنے سیاسی آقائوں کو دعوت خطاب دینے سے قبل سپریم کورٹ اور اس کے معزز جج صاحبان کے خلاف بڑی شعلہ بیانی کا مظاہرہ کیامگر انہیں اس امر کی یاد دہانی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے امور ِداخلہ کے وزیر مملکت بھی ہیں۔خاص طور پر ان کا یہ فرمان کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان خانہ کعبہ میں رکھے بتوں کی طرح ہیں اور جڑانوالہ کے عوام کو چاہئے کہ وہ ان پی سی او بتوں کو انصاف کے مقدس ایوانوں سے اسی طرح اٹھا کر باہر پھینکنے میں نواز شریف کا ہاتھ بٹائیں جیسے انہیں آج سے چودہ سو سال پہلے خانہ کعبہ سے اٹھاکر باہر پھینک دیا گیا تھا۔
توہین عدالت کے مسئلے سے قطع نظر(حالانکہ وہ بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے)کیا طلال چوہدری صاحب کچھ باتوں کی وضاحت فرمانا پسند کریں گے۔کیا یہ کسی سیاسی کارکن کی تقریر تھی یا امور داخلہ کے اس وزیر مملکت کا خطاب تھا جو کچھ دیر قبل عوام کے ٹیکس کے پیسے سے سرکاری پروٹوکول لے کر اس جلسے میں پہنچا تھا ؟اپنا وزارتی منصب سنبھالتے وقت کیا انہوں نے آئینِ پاکستان (آرٹیکل ( 92)2اور شیڈول سوم )کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا؟کیا وہ حلف ان سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ میںاپنے فرائض منصبی ''اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق‘‘ ادا کروں گا اور ''اپنے ذاتی مفاد کو اپنے فرائض منصبی پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا‘‘۔ کیا انہوں نے یہ حلف نہیں اٹھایا تھا کہ ''ہر طرح کے حالات میں بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق ‘‘کام کروں گا۔اگر ایسا ہے تو کیا یہ ان کی آئینی ذمہ داریوں میں شا مل نہیں ہے کہ وہ ہماری عدالتوں، معزز جج صاحبان اور عدالتی فیصلوں کے احترام اور وقار کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔نیز یہ کہ ان کے حلف کا کون ساحصہ انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ بطور وزیر مملکت اپنی آئینی ذمہ داریوں کے مقابلے میں (شریف خاندان کے دربار سے)اپنی ذاتی وفاداری کو ترجیح دیں؟ بالفاظ دیگر، کیا یہ آئینی حلف ان سے شریف فیملی سے کسی قسم کی وفاداری کا تقاضا کرتاہے ؟
چلیں دوبارہ اسی نکتے پر آتے ہیں کہ کیا طلال چوہدری اس امر کی وضاحت کریں گے کہ اگر معزز جج صاحبان خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بت ہیں اور نواز شریف کو انہیں اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہئے ۔کیا ان لوگوں کو ایسی بات کرتے وقت ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہوتا؟ وہ شاہ پرستی میں اتنا آگے کیوں نکل جاتے ہیں کہ اسلام کے ہر پیمانے اور اپنی آئینی ذمہ داریوں تک کو فراموش کر دیتے ہیں ؟ جبکہ مریم صفدر نے طلال چوہدری کی اس تقریر کی ان الفاظ میں ستائش کی کہ مجھے فخر ہے کہ'' طلال چوہدری جیسے وفادار شیر‘‘مسلم لیگ نوازکا حصہ ہیں۔
محترمہ مریم صفدر صاحبہ کی تقریر زیادہ اہم تھی کیونکہ وہ مسلم لیگ نوازکی سیاسی حکمت عملی کے بیانیے کا جامع اظہار کرتی ہے۔بلاشبہ ان کی تقریر کا بڑا حصہ تنقید پر مشتمل تھا۔اگر معزز عدالتیں خود اس طرح کی تنقید پر صرفِ نظر کریں گی تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ان سخت تنقیدی کلمات سے قطع نظر ان کی تقریر در اصل بہت سے سوالات کا تسلسل تھی جو انہوں نے جلسے کے شرکاء اور ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے عوام سے پوچھے تھے۔ان سوالات کے ذریعے سامعین سے یہ پوچھا گیا تھا کہ وہ کس قسم کے پاکستان میں رہنا پسند کریں گے ؟کیا آپ ایسے پاکستان میں رہنا پسند کریں گے جہاں منتخب نمائندوں کی تین نسلوں کا احتساب ہو؟کیا آپ کو ایک ایسا پاکستان پسند ہے جہاں منتخب وزیر اعظم کو مختلف عدالتوں میں پیش ہونے پر مجبور کیا جائے ؟کیا آپ کو ایسا پاکستان چاہئے جہاں عدالتیں اور آئین ایک منتخب وزیراعظم کو نکال باہر کریں ؟کیا آپ کو ایسا پاکستان چاہئے جہاں منتخب نمائندوں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں ؟
ان نعروں کا اچھا یا برا جواب بہت ہی سادہ ہے۔ہاں ! یقینا،پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ منتخب نمائندے ہمارے آئین کے تحت جوابدہ ہوں۔ہم ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں ہر شخص خواہ وہ کتنی ہی آف شور کمپنیوں یا غیر ملکی اثاثوں کا مالک کیوں نہ ہویا کتنے ہی ووٹ لے کر کیوں نہ آیا ہو اس پربھی اسی قانون کا اطلاق ہو جس کا پاکستان کا ہر شہری سامنا کرتا ہے۔ہاں ! ہم ایسی آئینی جمہوریت میں رہنا چاہتے ہیں جہاں ووٹ کو اپنے جرائم چھپانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ جہاں سیاسی ریفرنڈم مالی کرپشن پر پردہ نہ ڈال سکیں۔جہاں قاتلوں کو بری کرنے کے لیے یہ جواز نہ گھڑا جائے کہ کتنے لوگ اس کی اس درندگی کی حمایت کرتے ہیں ؟جہاں چودہ شہیدوں کے خون کا قصاص لیا جائے جن کا قاتل خواہ حکمران وقت ہی کیوں نہ ہو۔جہاں حکمران بھی قانون کی عدالتوں میں پیش ہوں۔جہاں ہر طرح کے اقدامات پر ان کے نتائج بھگتنا پڑیں۔جہاں سیاسی لیڈر اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں تو آئین انہیں سبکدوش کر سکے۔
ہاں ! ہمیں ایسا ملک چاہئے جہاں بادشاہ وقت سے عوام یہ پوچھنے کی جسارت کر سکیں کہ اس نے دولت کے یہ انبار کیسے لگائے ہیں ؟جہاں سیاسی احتساب کو جمہوریت کے خلاف سازش نہ قرار دیا جائے۔جہاں کسی حکمران اور اس کے بچوں پر پرائیویٹ جہاز سے پھولوں کی پتیاں نچھاور نہ کی جائیں جب کہ دوسری طرف تھر میں بچے قحط سے دم توڑ رہے ہوں اور عوام کی اکثریت خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔ہمیں ایک ایسا ملک چاہئے جہاں سیاسی قیادت کی توجہ اپنے شہریوں کو صاف پانی اورسستا علاج فراہم کرنے پر مرکوز رہے نہ کہ وہ ان ریاستی اداروں پر تنقید کرے جو عوام کے ان حقوق کے تحفظ کے لیے مجبوراً کوئی اقدام کریں۔
اس وقت ملک میں انتہائی تشویش ناک سیاست کا چلن ہے۔ہماری سیاسی قیادت کا ایک مقتدر طبقہ جمہوریت کی آڑ لیکر اپنے جرائم پر پردہ پوشی کی گھنائونی مہم چلانے میں مصروف ہے۔وہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب بھی نظر آرہا ہے کہ مغل اعظم کی جمع کردہ ناجائزدولت کا کھوج دراصل جمہوریت پر حملہ ہے۔ماڈل ٹائون کے شہیدوں کے لیے انصاف کی دہائی اور ڈان لیکس کے بارے میں سوال پوچھنا ووٹ یا جمہوری رائے کے خلاف ایک سازش ہے۔ اندرون سندھ چائنا کٹنگ،کراچی کے بلدیہ فیکٹری سانحے اورپنجاب کے نیب مقدمات کی تفتیش در حقیقت ان عناصر کے غیر جمہوری ہتھکنڈے ہیں جو رائے عامہ کے فیصلوں کو اپنے پائوں تلے روندنا چاہتے ہیں۔اور اس بیانیے کے مطابق آئین جمہوریت کا اولین دشمن ہے۔
سچائی کونظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ہم کسی ملزم کو یہ حق نہیں سونپ سکتے کہ وہ ہمیں ایسا عوامی بیانیہ سمجھانے کی کوشش کرے جس میں کرپشن کو جمہوریت کے ساتھ خلط ملط کر دیا جائے۔ہمیں اس حقیقت کا اعادہ کرنا ہے کہ اشرافیہ کا احتساب کسی طور غیر جمہوری عمل نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس بادشاہ وقت کا احتساب تو آئین کے تابع جمہوریت کا پسندیدہ ترین وصف ہوتاہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved