آئندہ حکومت ہماری ہوگی‘ سازشیوں
کو شکست دیں گے: نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''آئندہ حکومت ہماری ہوگی‘ سازشیوں کو شکست دیں گے‘‘ اور سازشیوں سے میری مراد جو لوگ ہیں‘ آپ انہیں اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کیونکہ سازش کے بغیر نہ مجھے نااہل کیا جا سکتا ہے اور نہ سزائے قید وغیرہ سنائی جا سکتی ہے اور چونکہ وہ بہرحال عوام کی منتخب کردہ حکومت ہوگی اس لیے وہ خاکسار ہی کی ہوگی‘ چاہے وزیراعظم کوئی اور بھی ہو‘ اس لیے چاہے مجھے کالے پانی ہی بھیج دیا جائے‘ لوگ مجھے ہی وزیراعظم سمجھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوامی خدمت سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘ تاہم‘ اب عوام کو بھی اس کی سمجھ آگئی ہے کہ عوامی خدمت سے خاکسار کی مراد کیا ہے۔ اس لیے اب وہ مزید خدمت کی تاب لاہی نہیں سکتے۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ شاید یہ خدمت کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہو گئی تھی جسے کھانا کھاتے وقت پتہ نہیں چلتا کہ کتنا کھا گئے ہیں‘ اس لیے مجبوری ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز جاتی اُمرا میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
عوام کی فلاح سے بڑھ کر کوئی ترجیح نہیں ہو سکتی: شہبازشریف
خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''عوام کی فلاح سے بڑھ کر کوئی ترجیح نہیں ہو سکتی‘‘ اور وہ جو پانچ سات سو ترجیحات ہیں گزشتہ برسوں میں قرار دے چکا ہوں اور جن میں سے ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا‘ اسے بھی ان میں شامل کرلیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے سابق حکمرانوں کی کرپشن کے قبرستانوں کو ترقی کے میناروں میں بدل دیا‘‘ جبکہ ہمارا ایسا کوئی قبرستان بن ہی نہیں رہا کیونکہ وہ ابھی تک فوت ہی نہیں ہوئی اور اسی طرح دندناتی پھرتی ہے حالانکہ کرپشن کو اتنا سخت جان ہونا نہیں چاہیے‘ شاید اسی لیے نیب ضروری اقدامات کر رہی ہے اور ہماری فکرمندیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کو نظرانداز کرنے والے سیاستدان اپنے صوبوں میں جانے سے گھبراتے ہیں‘‘ لیکن ہم بالکل نہیں گھبراتے اور اسی طرح دندناتے پھرتے ہیں اور عوام بھی ہمیں کچھ کہتے کیونکہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہونے والا ہے‘ عوام کو اُلٹا ہم پر ترس آنا شروع ہوگیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارکانِ اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
عدلیہ بحالی کیلئے جیلیں کاٹیں‘ منہ پر پٹی نہیں باندھ سکتے: سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''عدلیہ بحالی کے لیے جیلیں کاٹیں‘ منہ پر پٹی نہیں باندھ سکتے‘‘ اور ہم چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی بھی بحالی کے لیے ہی اسلام آباد سپریم کورٹ میں گئے تھے لیکن ہمیں غلط سمجھ لیا گیا اور جہاں تک جیلیں کاٹنے کا تعلق ہے تو ہم اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور ریفرنسز کے فیصلوں کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں کیونکہ جیل کاٹے بھی کافی زمانہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''لوگوں کو کیا بتائیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا‘‘ کیونکہ لوگوں کو خود ہی اچھی طرح معلوم ہے کیونکہ ہم ان کی آنکھوں کے سامنے ہی سارے کارنامے سرانجام دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''ججز تحریک میں نوازشریف آگے آگے تھے‘‘ اور‘ اب ججوں سے بدلہ لینے میں بھی سب سے آگے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ادارے موجودہ حالات کے خود ذمہ دار ہیں: کیپٹن (ر) صفدر
سابق وزیراعظم کے داماد اور رکن قومی اسمبلی کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا ہے کہ ''ادارے موجودہ حالات کے خود ذمہ دار ہیں‘‘ اور انہیں پتا چلا ہے کہ ایک وزیراعظم کو نااہل کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے اور ریفرنسز کے فیصلوں کے بعد انہیں مزید معلوم ہو جائے گا اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ادارے محض علم حاصل کرنے کی خاطر ایسا کر رہے ہیں اور وہ صرف تجربہ کرنے کی خاطر جھاڑو پھیرنے کا ارادہ کر رہے ہیں کہ مکمل صفائی کے بعد موجودہ حالات کس طرح کے ہوں گے کیونکہ صفائی کو وہ بھی ہماری طرح نصف ایمان سمجھتے ہیں جبکہ ہم نصف ایمان کو ہی اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں کیونکہ قناعت پسند ہیں اور کبھی لالچ نہیں کیا اور روپے پیسے کو تو ہم‘ خاص طور پر سسر صاحب‘ نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے اپنے پاس نہیں رکھتے اور دوردراز دفع دفعان کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کو ممتاز قادری کی پھانسی سے بے خبر رکھا گیا‘‘ جبکہ باقی معاملات سے وہ خود ہی بے خبر رہا کرتے تھے۔ آپ اگلے روز وزیرآباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب مانچسٹر سے ضمیر طالب کے کچھ اشعار:
آتی رہتی ہے ضمیر اس کی بھی آواز
شور میں جو بے زبانی جیسا کچھ ہے
ابھی تک خود کو میں زندہ سمجھتا ہوں
مجھے مارا گیا ہے اس مہارت سے
بعض بٹوارے کی خاطر بھی بناتے ہیں لوگ
سبھی دیواریں نہیں ہوتی ہیں سائے کے لیے
ہوا کے ساتھ شناسائی کام آتی ہے
کہیں بھی جاتا ہوں میں اجنبی نہیں ہوتا
بارش کے ساتھ آندھی بھی چلتی رہی ہے رات
کچھ اُڑ گیا ہوں میں‘ کہیں کچھ بہہ گیا ہوں میں
اور‘ اب آخر میں ساہیوال سے جواں مرگ شاعر غضنفر عباس سید کا ایک شعر ؎
واجب ہے اس لیے بھی بہاروں کا احترام
سبزہ مرے وجود کا پہلا لباس تھا
اور‘ اب آخر میں رسا چغتائی مرحوم کے دو شعر :
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
صرف مانع تھی حیا بند ِقبا کھلنے تک
پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا‘ ایسا کھلا
آج کا مطلع
بے ارادہ جو ترے شہر میں گھوم آیا تھا
دیکھ کر میں تجھے پلکوں ہی سے چُوم آیا تھا