سابق وزیراعظم‘ میاں نواز شریف نے پیر صاحب پگاڑا شریف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ پیر صاحب کی طرف سے اس کا جواب نہ آیا۔ فوراً ہی میاں صاحب نے پیر صاحب کو دوسرا پیغام بھیجا اور کہا کہ وہ ایک انتہائی اہم موضوع پر تبادلۂ خیال کرنا چاہتے ہیں لیکن پیر صاحب کا دوسرا جواب پہلے سے سخت تھا۔ انہوں نے کہا ''میں ان دنوں روحانی سفر پر ہوں‘‘۔ پیر صاحب پگاڑا مرحوم سے میرا طویل مدت کا تعلق تھا۔ پیر صاحب کی ایک روایت یہ تھی کہ وہ خود کسی کے گھر نہیں جاتے تھے البتہ ان سے ملاقات کی درخواست کی جائے تو بڑی خوش اخلاقی سے ملاقات کا اہتمام کرتے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ مرحوم اظہر سہیل نے جوش و خروش سے پیر صاحب کو اسلام آباد اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ پیر صاحب‘ اظہر سہیل پر بہت شفقت کرتے تھے۔ ورنہ پیر صاحب کو دعوت دینا آسان کام نہیں تھا۔ اظہر سہیل ایک ورکنگ جرنلسٹ تھا۔ ہم لوگوں کی جو ہلکی پھلکی تنخواہیں ہوتی ہیں‘ انہیں اڑانے کے لئے کسی آندھی یا طوفان کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی تنخواہ کو اڑا کے کہیں سے کہیں پھینک سکتا تھا۔
میری تنخواہ قدرے زیادہ تھی۔ اظہر یہ راز جانتا تھا۔ اس نے اپنا جو مینو بتایا وہ زیادہ لوگوں کے لئے نہیں تھا۔ اظہر کے کوارٹر میں اتنی گنجائش بھی نہیں تھی کہ سات آٹھ آدمیوں کو مدعو کر سکے۔ بہرحال صبح کو (صحافیوں کی صبح دیر سے ہوتی ہے) وہ اپنی سوزوکی لے کر میرے گھر آ گیا اور ہم پیر صاحب کے ناشتے کا انتظام کرنے چل کھڑے ہوئے۔ سوزوکی میں ڈکی نہ ہو تو کسی بڑی دعوت کا سامان اس میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ا س کام کے لئے پچھلی سیٹ بھی تیار کرنا پڑتی ہے۔ ہم اچھا خاصا خوار ہونے کے بعد اپنا سامان لے کر گھر پہنچ گئے۔ اس دعوت میں کسی چھوٹے بڑے مقامی لیڈر کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ ہم نے جی بھر کے گپ شپ کی۔ اظہر سہیل کو اچھی طرح معلوم تھا کہ پیر صاحب اسے کتنا بڑا اعزاز دے رہے ہیں۔ میں نے دعوت کا سامان گھر چھوڑ کر‘ واپس جاتے ہوئے کہا کہ اظہر کتنا خوش نصیب ہے جسے پیر صاحب کی شفقت نصیب ہوئی۔ ان دنوں تک پیر صاحب نے کسی صحافی کو انٹرویو نہیں دیا تھا۔ ''جنگ کے چیف ایڈیٹر نے فرمائش کی کہ پیر صاحب اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ ہو سکے تو ان کا انٹرویو ہی کر لو‘‘۔ مجھے علم تھا کہ پیر صاحب کو انٹرویو کے لئے آمادہ کرنا بہت مشکل کام تھا لیکن میں نے دس بارہ سال کی ملاقاتوں کے دوران ایسے تعلقات پیدا کر لئے تھے۔ انہوں نے ایک لمحے کے تامل کے بغیر‘ مجھے انٹرویو کا وقت دے دیا۔ انہوںنے اپنے برادرِ نسبتی‘ مخدوم زادہ حسن محمود کے گھر‘ گلبرگ میں شام کی چائے پر آنے کی دعوت دی۔ لاہور کے بہت سے سینئر رپورٹرز‘ پیر صاحب سے انٹرویو کے لئے فرمائش کر چکے تھے لیکن سب ناکام رہے۔ یہ اردو اخبار کے لئے پیر صاحب کا پہلا انٹرویو تھا۔ پیر صاحب بڑی شگفتہ گفتگو کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے نیاز مند‘جو ہر وقت ان کے پاس ہوتے‘ پیر صاحب سے درخواست کرتے کہ اخبارات کو انٹرویو دینا‘ آپ کے شایان شان نہیں، لیکن جب ان کا پہلا انٹرویو شائع ہوا تو پیر صاحب سے دیرینہ تعلقات کے دعوے کرنے والے اخبار نویسوں کی لائن لگ گئی۔ پیر صاحب کا انٹرویو بہت مقبول ہوا۔
پیر صاحب ہر سال سانگھڑ میں اپنے مریدوں کو دیدار کرایا کرتے تھے۔ ان کے بارہ خلیفہ ہیں اور سالانہ اجتماع کا سارا اہتمام وہی مرید کیا کرتے۔ یہ بہت شاندار تقریب ہوتی۔ میدان میں خیمے لگ جاتے۔ خیموں کے اندر پیر صاحب آرام فرماتے۔ اور پھر عشا کی نماز کے بعد دعوتِ طعام شروع ہو جاتی۔ سال کے بعد جس مرید کو اس سالانہ تقریب کا اہتمام کرنے کا حکم ملتا تو وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کے انتظام کرتا۔ میں نے بادشاہوں‘ وزیروں اور آمروں کی میزبانی کا بہت شرف حاصل کیا ہے لیکن جو دعوت پیر صاحب کے اعزاز میں کی جاتی‘ اس کا لطف ہی علیحدہ تھا۔ ایک بار پیر صاحب کے سالانہ جشن میں شرکت کے لئے سانگھڑ گیا تو مجھے کراچی واپس جانے کی جلدی تھی۔ رات کے دو‘ اڑھائی بجے کھانا ختم ہوا۔ پیر صاحب نے مجھے جو عزت بخشی‘ میری توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ موجودہ پیر صاحب پگاڑا شریف سے کہا گیا کہ وہ مجھے کراچی پہنچا دیں۔ اسی سفر کے دوران پتا چلا کہ سانگھڑ سے بڑے شہروں کی طرف جاتے ہوئے‘ تمام قابلِ ذکر مقامات پر ان کی آرام گاہیں ہیں۔ مجھے کراچی کے راستے میں‘ انتہائی پرتکلف ریسٹ ہائوس میں ٹھہرایا گیا۔ وہاں موجودہ پیر صاحب نے ہر طرح میرا خیال رکھا۔ پیر صاحب کی سفری آرام گاہ بھی کسی پر تکلف قیام گاہ سے کم نہ تھی۔ شاید میاں صاحب کو معلوم نہیں کہ ایک طرف پیر صاحب بہت اچھے میزبان اور اس سے بھی اچھے مہربان تھے۔ آج میں نے پڑھا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے دو مرتبہ ٹیلی فون کر کے‘ موجودہ پیر صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ شاید میاں صاحب کو معلوم نہیں کہ پیر صاحب جیسا درویش صفت‘ شاہ و گدا میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ ہر ایک کو محبت اور شفقت سے ملتا ہے۔ پیر صاحب کو دعوت دینے کے بھی کچھ آداب ہیں۔ میر اخیال ہے کہ موجودہ پیر صاحب جو اپنے والد محترم کی روایات کے امین ہیں‘ نے درویشی کی روایت کو قائم رکھا ہوا ہے۔ جب مکالمہ درویش اور بادشاہ کے درمیان ہو تو پھر اس کے آداب کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بات اور وہ یہ کہ پنجاب میں اُس وقت کے کاروباری نوجوان‘ نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے کے لئے سرگرم تھے اور جو ایم پی اے ہاتھ لگا‘ اسے چھانگا مانگا کے ریسٹ ہائوس میں پہنچا دیا گیا۔ یہ بڑا دلچسپ کھیل تھا لیکن پیر صاحب مرحوم کی خواہش تھی کہ ان کے بردارِ نسبتی‘ مخدوم زادہ حسن محمود کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ دی جائے۔ یہ بات پیر صاحب کبھی نہیں بھولے۔