کتنی خوش بخت ہیں وہ قومیں جنہیں ہوسِ اقتدار سے ماورا ایسے بے نیاز اور درویش صفت حکمران نصیب ہوتے ہیں جو خود اپنی خوشی اور مرضی سے بھریا میلہ چھوڑ جاتے ہیں اور عوام و خواص کے اصرار پر بھی ایوانِ اقتدار کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ بس بھئی بہت ہو گیا۔ دوسری طرف وہ بدبخت‘ بدنصیب اور جنم جلی قومیں ہوتی ہیں جنہیں ہوسِ اقتدار کے مارے ہوئے ایسے پست قامت‘ دولے شاہ کے چوہے اور چپکو ٹائپ حکمران ملتے ہیں جو ہر قیمت پر‘ ہر وقت اور ہر عمر میں اقتدار کے ساتھ چپکے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ سفلے اور چھچھورے بنیادی طور پر انتہائی گھٹیا قسم کی چیونگم جیسے ہوتے ہیں جو کبھی تالو سے کبھی زبان سے کبھی دانتوں سے چپک جاتی ہے اور اگر ہاتھ کی مدد لے کر اس سے جان چھڑانا چاہیں تو یہ انگلیوں سے چپک جاتی ہے اور جب تک کسی درخت کی چھال یا کھردری دیوار کے ساتھ اسے خوب رگڑا نہ دیں یہ گھٹیا چیونگم جان نہیں چھوڑتی۔ یہ انتہائی قسم کے غلیظ النسل بیمار ذہنیت والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کو خود ہی ملک و قوم کے لیے ناگزیر سمجھتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا بھر کے قبرستان ’’ناگزیر‘‘ لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ لعنتی خود ملک و قوم کے حوالہ سے خود کو لازم و ملزوم سمجھ لیتے ہیں حالانکہ یہ ملک و قوم کے ہی نہیں تاریخ کے بھی مکروہ ترین ملزم بلکہ مجرم ہوتے ہیں۔ ان مسخ شدہ اور ابنارمل لوگوں میں اقتدار کی خواہش صرف اپنی ذات تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ یہ سلسلۂ اقتدار کو اپنی اولاد بلکہ اولادوں تک لامحدود دیکھنے کے جنون میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ ٹکے ٹکے کے لاعلم اور بے خبر قبروں میں لیٹ کر بھی اپنی بدشکل اور نااہل اولادوں کے ذریعہ حکومت فرمانا چاہتے ہیں جو اک خاص طرح کی SICKNESS کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ جہاں عرب کے اموی اور عباسی‘ ایران کے صفوی‘ دشت کے تاتاری‘ ترکی کے عثمانی‘ چین کے منگ‘ ہند کے غزنوی‘ خلجی‘ غوری‘ تغلق‘ لودھی‘ سوری اور مغل‘ روس کے عظیم الشان زار‘ روم کے سیزر‘ جرمنی کے قیصر نہ رہے تو ان کمیوں کی کیا اوقات؟ یہاں تو کئی کئی نسلوں پر محیط ’’عادی‘‘ حکمرانوں کی اولادوں کے نام و نشان نہیں ملتے تو یہ کس کھاتے میں لیکن یہ بیمار ہی نہیں پرلے درجہ کے احمق اور ان پڑھ بھی ہوتے ہیں جنہیں تاریخ کی ت کا بھی علم نہیں ہوتا۔ دکھ اس بات کا ہے کہ اہلِ مغرب تو اس مکروہ کاروبار سے توبہ تائب ہو کر صحیح معنوں میں جمہوری اور انسان زادے بن گئے لیکن یہ لعنت عالم اسلام کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی حالانکہ عبرت کی اتنی مثالیں ہیں کہ گنی نہیں جاتیں۔ تازہ ترین تاریخ میں یوگنڈا کے گینڈا نما بوکسر عیدی امین سے لے کر پنجرہ پوش حسنی نامبارک تک‘ لعین زین العابدین سے ’’تاحیات‘‘ معمر قذافی تک‘ مرد آہن و قائد امّ الحرب صدام حسین سے لے کر بشار الاسد تک یہ نسل در نسل قتلِ آدمیت کی عادت ہمارے اندر اتنی راسخ کیوں ہے؟ کمال یہ کہ صرف اقتدار کی ہی ہوس نہیں سونے اور ڈالروں کے ڈھیروں سے بھی جنون کو پہنچا ہوا عشق ہے جو ان کی عیاش ترین اولادوں کو بھی عبرت ناک انجاموں سے دوچار کر دیتا ہے لیکن بدکردار باز نہیں آتے۔ ان کے عوام ان سے تنگ اور ان سے بری طرح متنفر ہوتے ہیں‘ ان کی تصویروں اور ناموں پر تھوکتے ہیں لیکن نہیں… انوارالسادات تب تک جان نہیں چھوڑتے جب تک ان کی جان چھین نہیں لی جاتی۔ اپنے ہاں بھی دیکھ لیں‘ موقعہ ملتے ہی ترمیم فرمائی کہ کوئی بھی حضرت دوبار سے زیادہ بھی وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔ ادھر اہلِ مغرب ہیں… امریکہ کا جارج واشنگٹن عروج پر ایوانِ اقتدار سے رخصت ہو جاتا ہے‘ کینیڈا کا ہینڈسم اور مقبول ترین وزیراعظم پیئرٹروڈو بھی خوشی خوشی بھریا میلہ چھوڑ جاتا ہے اور پھر اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جان کرت یون بھی اسی بے نیازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ فرانس کے عظیم رہنما اور مدبر چارلس ڈیگال نے رضاکارانہ طور پر ڈی سنٹر لائزیشن آف پاور پر ریفرنڈم کرایا‘ لوگوں نے نامنظور کیا تو پیک اپ کر گیا‘ اسی سے ملتی جلتی مثال نوبل پرائز یافتہ جرمن چانسلر ولی برانٹ کی ہے… اور تو اور حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا لیجنڈ نیلسن منڈیلا جسے لوگ عقیدت و احترام و محبت سے ’’مدیبہ‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں‘ رضاکارانہ طور پر سائوتھ افریکہ کی صدارت کو الوداع کہہ گیا۔ یہ ہیں حالیہ انسانی تاریخ کے ماتھے کا جھومر وہ لوگ جنہیں ان کے اپنے عوام ہی نہیں چاہتے‘ اک عالم ان کی عزت کرتا ہے۔ ادھر ان بوزنوں کو دیکھو… ان کی حرکتیں دیکھو… ان کی خواہشیں اور ترجیحات دیکھو۔ لوٹ مار کے شوقین‘ طمطراق کے رسیا یہ رسوائے زمانہ نہ صرف قبر کنارے تک اقتدار سے جڑے رہنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی اولادوں کی اولادوں کی اولادوں کو بھی برسر اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں چاہے ان کے ناموں کے ساتھ ٹمپرنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ کمال یہ کہ موروثیت کا مارا ہمارا پڑوسی بھارت بھی کروٹ لے رہا ہے کہ موتی لعل نہرو‘ جواہر لعل نہرو‘ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کا وارث پشتینی حکمران راہول گاندھی کہہ رہا ہے کہ اسے وزارتِ عظمیٰ سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ شادی بھی نہیں کرے گا تاکہ کل کلاں اس کی اولاد حکومت کی امیدوار نہ ہو۔ وہ موروثیت کا مکروہ سلسلہ ختم کرنا چاہتا ہے یعنی ؎ چل بُلھیا چل اوتھے چلیئے جتھے سارے انھے ناں کوئی ساڈی ذات پچھانے ناں کوئی سانوں منے یہاں دیکھو… جدھر دیکھو فیملی گروپ فوٹو اور پورا پورا پریوار اقتدار کا امیدوار… لعنت ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved