تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     31-01-2018

ایک تھا بادشاہ اور ایک تھی رعایا!

ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں صدیوں تک بادشاہوں نے حکومت کی‘ وہاں بڑے اور امیر انسان کو رعایا سے مشکل وقت میں ہمدردیاں سمیٹنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ قدیم زمانوں میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بادشاہ غلط کام کر ہی نہیں سکتے‘ غلط کام صرف رعایا کرتی ہے اور رعایا کے لیے سخت اور بدترین سزائوں کا تعین بھی بادشاہ کرتے ہیں۔ کسی کی کھال میں بھوسا بھروا دیں، سر تن سے جدا کرا دیں یا پھر آگ میں زندہ جلا دیں۔ بادشاہ چاہے لاکھ جرائم کر لے لیکن اس کا ایک آنسو بھی عوام کو تڑپا دیتا تھا۔
زمانۂ قدیم میں یونان میں ٹریجڈی کی تعریف یہ نہیں ہوتی تھی کہ ہزاروں انسان سیلاب یا زلزلوں یا طوفان میں مارے گئے۔ عام انسان کی ٹریجڈی کو دیوتائوں کی طرف سے دی گئی سزا سمجھ کر قبول کر لیا جاتا تھا۔ زمانۂ قدیم کا انسان تقدیر پر بہت یقین رکھتا تھا۔ تقدیر اٹل ہے۔ ہونی کو نہیں ٹالا جا سکتا۔ لہٰذا عام انسانوں کی ٹریجڈیز پر کوئی خاص ردعمل نظر نہ آتا تھا۔ عام انسان کے زوال یا مرنے پر آنسو نہ بہتے۔ قدیم معاشروں میں ٹریجڈی وہ سمجھی جاتی تھی جب بادشاہ یا جنگجو کے ساتھ حادثہ پیش آتا یا زوال۔ آپ ڈھائی ہزار سال پرانے یونانی ڈرامے پڑھیں‘ جو سفوکلیز یا یوریپیڈیز، ایسکالیس وغیرہ نے لکھے‘ تو ان سب کے مرکزی کردار عام یونانی نہیں تھے۔ ان تینتیس ڈراموں‘ جو تحریری شکل میں دستیاب ہیں‘ کے مرکزی کردار بادشاہ، شہزادے اور جنگجو ہیں۔ سب ڈرامے ان بادشاہوں اور بڑے لوگوں کی کہانیاں‘ اور ان سے جڑے زوال کے قصے ہیں۔ 
جب وہ ڈرامے سالانہ میلوں پر عوام کو سٹیج پر پرفارم کرکے دکھائے جاتے تھے تو لوگ اپنے بادشاہوں کا زوال دیکھ کر رو پڑتے۔ بادشاہ کو جنگلوں کی خاک چھانتے، بھیک مانگتے، روتے چلاتے دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آتیں۔ جب کنگ ایڈی پس خود کو سزا دینے کے لیے اپنی آنکھوں میں سوئی مار کو خود کو اندھا کر رہا تھا تو پورا مجمع رو رہا تھا۔ شیکسپیئر کا کنگ لیر جب جنگلوں کی خاک چھان رہا تھا اور ماتم کرکے پوچھ رہا تھا کہ اس نے کیا قصور کیا تھا کہ اس کے بچوں نے ہی اسے ریاست سے دربدر کر دیا تو بھی عوام کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ اللہ کی شان دیکھیں جو کل تک اس دھرتی کا بادشاہ تھا‘ جس کے ایک حکم پر ہزاروں انسان قتل کر دیے جاتے تھے‘ وہ اس وقت جنگل میں بھوکا مر رہا ہے اور ماسوائے درباری مسخرے کے سب اس کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں‘ حالانکہ جب وہ بادشاہ تھا تو ہر وقت سینکڑوں درباریوں کی قطاریں لگی رہتی تھیں۔ 
بڑے انسان یا بادشاہ کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی اس لیے بھی عام آدمی کو ڈرا دیتی کہ اگر یہ سب بادشاہ کے ساتھ ہو سکتا ہے تو ان کی کیا اوقات ہے۔ ان کے اندر کا خوف انہیں تقدیر سے ڈرنے پر مجبور کر دیتا تھا۔ رعایا تو بادشاہوں اور شہزادوں بارے سمجھتی کہ ان پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ رعایا کو بادشاہوں کا جاہ و جلال دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ بادشاہ چاہے کتنے ہی ظالم کیوں نہ تھے‘ وہ پھر بھی رعایا کو اپنے سر پر چھت کی طرح محسوس ہوتے۔ جب وہ ان بادشاہوں کو تقدیر کے ہاتھوں سزا پاتے یا دربدر ہوتے دیکھتے تو ان کے اپنے اندر بے پناہ خوف جنم لیتا اور انہیں لگتا‘ جن کو وہ اپنا مالک سمجھتے تھے وہ تو ان کی طرح عام انسان نکلے۔ اس لیے ان سب کی ہمدردیاں اس دھکے کھاتے‘ روتے‘ چیختے چلاتے بادشاہ کے ساتھ ہو جاتی تھیں۔ قدیم یونان کے فلاسفرز تو یہ سمجھتے تھے کہ جس لکھاری میں سامعین اور حاضرین کو رلانے کی اہلیت نہیں‘ وہ اچھا ڈرامہ نگار نہیں۔ اس لیے عام انسانوں کو تقدیر سے ڈرانے اور رُلانے کے لیے ہمیشہ ٹریجڈی سے بھرپور ڈراموں کا انتخاب کیا جاتا تھا اور سب کا ہیرو ایک بادشاہ اور شہزادہ ہوتا‘ جس کا عروج اور زوال سٹیج پر پرفارم کیا جاتا تھا۔ ہر سال یونان میں میلے لگتے اور بڑے بڑے ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے سٹیج پر دکھائے جاتے۔ میں نے یونان کے جو قدیم ڈرامے پڑھے ہیں اور بیروزگاری کے کسی دور میں ان شاہکار ڈراموں سے متاثر ہوکر میں نے سفوکلیز کے چار ڈراموں کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا (مسودہ پتہ نہیں بعد میں کہاں گم ہو گیا) ان سب میں ایک تھیم بہت واضح تھا: یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے اور کتنا بھی بڑے سے بڑا طاقتور انسان ہو یا بادشاہ‘ اسے ایک دن زوال ضرور آتا ہے۔ کوئی زوال اور تقدیر سے نہیں بچ سکتا‘ بے شک آپ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں‘ پھر بھی تقدیر آپ کے ساتھ ضرور برا سلوک کرے گی اور آپ اپنی رعایا کے لیے عبرتناک مثال بن جائیں گے یا بنا دیے جائیں گے۔ 
بڑے لوگوں کے ساتھ ٹریجڈی بھی بڑی ہوتی ہے۔ اسی لیے یونانی ٹریجڈی مشہور ہے اور ان کے ٹریجک ہیروز بھی۔ ان یونانی ہیروز کے لیے بھی ضروری تھا کہ چاہے وہ بادشاہ ہیں یا جنگجو، ان کے اندر ایسی انسانی کمزوری ہونی چاہیے جو اس کے زوال کا سبب بنے۔ انسان ہمیشہ سے غلطیوں کا پتلا رہا ہے۔ لیکن عوام یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ چونکہ یہ بادشاہ ہیں، شہزادے ہیں اور یہ غیرمعمولی انسان ہیں‘ اس لئے ان پر حکومت کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور دیوتائوں نے انہیں حاکم بنایا ہے تو ان میں کوئی خاص بات ہو گی جو عام لوگوں میں نہیں۔ رعایا کو یقین ہوتا تھا کہ ان بادشاہوں میں عام انسانوں کی طرح عام خامیاں نہیں ہوں گی‘ لہٰذا انہیں زوال نہیں آئے گا۔ اس لیے جب ان پر اچانک زوال آتا جس کے ذمہ دار وہ خود ہوتے تو ان کے اندر خوف کی لہریں اٹھتیں۔ ڈرامے کے پہلے حصے میں انہیں بادشاہ سے نفرت ہوتی جو لوگوں پر ظلم کر رہا ہوتا تھا‘ لیکن دوسرے حصے میں جب تقدیر اس بادشاہ کو سزا دینا شروع کرتی تو وہی رعایا اس بادشاہ کے زوال کو دیکھ کر دہل جاتی۔ جوں جوں ڈرامہ آگے چلتا تو ان عام انسانوں کی نفرت پہلے خوف میں اور پھر ہمدردی میں بدلنے لگ جاتی۔ مجمع میں سرگوشیاں شروع ہو جاتیں‘ دیکھو جو کل تک بادشاہ تھا‘ پوری ریاست کا مالک تھا‘ وہ آج گلیوں میں بھیک مانگ رہا ہے۔ اور یوں یہ ہمدردی رعایا پر غیر محسوس طریقے سے حاوی ہونا شروع ہو جاتی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ وہ بادشاہ‘ جن سے رعایا کبھی نفرت کرتی تھی کہ وہ کرپٹ تھے اور ظلم کرتے، ان کا حق مارتے اور غریب رکھتے تھے، وہ اچانک رعایا کے لیے ایسے مظلوم کا درجہ اختیار کر لیتے جس کے لیے آنکھوں سے دریا بہہ نکلتے اور وہ ڈرامہ دیکھنے کے کئی دن بعد تک اس ٹریجڈی کے زیر اثر رہتے۔ 
اسی لیے آج کل جب میں نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ کے عوامی جلسے دیکھتا ہوں تو مجھے حیرانی نہیں ہوتی کیونکہ یہ صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ وہی رعایا جو ان حکمرانوں کی کرپشن اور ظلم کی کہانیاں سناتے تھے۔ ان سے ناراض تھے۔ اب اچانک اسی رعایا کو باپ بیٹی مظلوم لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم اس رعایا کو لگتا ہے کہ ٹریجڈی وہی ہے جو شریف خاندان کے ساتھ ہوئی ہے۔ ان بیچاروں کو عیش کی زندگی اور تخت سے ہٹا کر گلیوں کی خاک چھاننے پر لگا دیا ہے اور اب وہ عوام سے پوچھتے پھر رہے ہیں انہیں کیوں نکالا۔ پاکستانی عوام کے اندر نواز شریف کے لیے جاگتی نئی ہمدردی کی لہر سے مجھے وہ قدیم یونانی یاد آتے ہیں جو ہر سال میلے پر سٹیج کیے جانے والے ڈرامے کے شروع میں اپنے بادشاہ سے نفرت، اگلے حصے میں ہمدردی جتاتے اور اختتام پر بادشاہوں کے زوال پر آنسو بہاتے تھے۔
آج کل پاکستانی رعایا بھی جب اپنے سابق بادشاہ کی صدمے سے چور اور روتی ہوئی آواز میں ''مظالم‘‘ کی داستان سنتی ہے‘ جب وہ پوچھتا ہے‘ مجھے کیوں نکالا تو اس کے بھی یونانیوں کی طرح آنسو نکل آتے ہیں۔
ہزاروں سال پہلے کی رعایا بھی بادشاہ کے دکھوں اور زوال پر روتی تھی۔ آج بھی لوگ روتے ہیں۔ رعایا کے بادشاہ کے زوال پر رونے کا تعلق ہزاروں سال پرانی انسانی نفسیات سے ہے نہ کہ انصاف سے۔ یہ اور بات ہے کہ صدیوں پہلے بادشاہ عوام کے دکھوں پر نہیں روتے تھے بلکہ رعایا کو ہی رلاتے تھے۔ آج کے بادشاہ بھی عوام کو رلاتے ہیں لیکن وہ خود عوام کے دکھوں پر نہیں روتے۔ 
صدیوں سے بس یہی تعلق ہے ایک بادشاہ اور اس کی رعایا کا۔ بادشاہوں نے اپنے زوال کی کہانیاں روتی آواز میں سنا سنا کر رعایا کو رلانا ہے اور صدیوں سے ان غلام روحوں نے ان شاہی خاندانوں کے دکھوں پر رونا ہے!

 

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved