لاہور رجسٹری میں قصور کی زینب شہید کے ذکر نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منظوراحمد اورکمرہ عدالت میں موجود ہر شخص کو آبدیدہ کر دیا۔ اگر کورٹ کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو شائد سبھی دھاڑیں مارتے ہوئے رو پڑتے اور یقینا ہر وقت اندر ہی اندر پکنے والا درد ہی تھا جس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کا رات آٹھ بجے نشر کیا جانے والا پروگرام چیف جسٹس کو رات بارہ بجے دیکھنے پر مجبور کیا ۔کیونکہ جس طرح شاہد مسعود نے دل دہلا دینے والے انداز میں زینب کے بہیمانہ قتل اور جسمانی تشدد کی داستان اور ا س کے پیچھے چھپے گروہ کی نشاندہی کی تھی اس نے ہر درد مند پاکستانی کو اپنی جگہ تڑپا کر رکھ دیا تھا اور یہی وہ تڑپ تھی جو ہر گھرکو ایک مرتبہ پھر تڑپا گئی۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اتوار کو ہونے والی اس تمام کارروائی کی دنیا نیوز کے اینکر اور صحافی اجمل جامی نے جس طرح مکمل اور جامع رپورٹنگ کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔انہوں نے 29 جنوری کو شائع ہونے والے روزنامہ دنیا کے فرنٹ پیج پر اس قدر تسلسل سے اس کارروائی کی انتہائی غیر جانبدارانہ اور جامع رپورٹنگ کی ہے کہ پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ جیسے وہ سپریم کورٹ میں خود موجود تھا۔بہر حال ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے تجربہ کار لوگوں کو اپنے رویے کے بارے آئندہ سوچنا ہوگا۔
2006 میں سپیشل سروسز گروپ کے ہیڈ کوارٹر چراٹ میں دہشت گردی کے خلاف وانا سمیت دوسرے قبائلی علاقوں میں موجود ملک دشمن گروہوں کی سرکوبی کیلئے قائم کی جانے والی ایک سپیشل فورس کی تقریب تھی جس میں مجھ سمیت ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے بہت سے لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ ہمیں وہاں لے جانے والی ایک خصوصی بس میں سوار غیر ملکی میڈیا کے لوگوں کا بار بار ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ ڈاکٹر شاہد کد ھر ہے؟۔ 2009 میں برطانیہ گیا تو مجھے شیفیلڈ جانے کا موقع ملا جہاں پر میڈیا سے متعلق منشا خان میرے میزبان تھے وہاںیہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مرد حضرات جب اپنی ڈیوٹیوں سے فارغ ہو کر شام کو گھر آتے ہیں تو ان کی بیگمات اس وقت تک باورچی خانے کا رخ نہ کرتیں جب تک شاہد مسعود کا نیوز اینڈ ویوز پروگرام ختم نہیں ہوتا تھا۔یہ وہ عزت تھی جو گزشتہ دنوں بغیر سوچے سمجھے پروگرام نشر کرنے پر ایک لمحے میں دھڑام سے نیچے آ گری ہے۔۔۔اور جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ جو کچھ ڈاکٹر شاہد نے اپنے پروگرام میں کہا ہے وہ اطلاعات میرے پاس بھی تھیں لیکن نہ جانے کیوں میرا دل اور عقل انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے جو کچھ اپنے پروگرام میں کہا یہ اطلاع اور مواد کسی نے مجھے بھی بھیجا تھا لیکن میں نے اپنی اس صحافتی زندگی میں ایک اصول وضع کیا ہوا ہے کہ جب تک میرے پاس کسی خبرکا مکمل اور نا قابل تردید ثبوت نہیں ہو گا اسے کبھی بھی اپنے مضمون کا حصہ نہیں بنائوں گا۔۔۔۔زینب شہید پر پانچ دن جو قیا مت گزرتی رہی اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں قصور پولیس کا کردار انتہائی گھنائونا تھا۔ جب پولیس کو معلوم تھا کہ اس سے پہلے گیارہ بچیوں کے ساتھ بربریت اور شیطانیت کا کھیل کھیلا جا چکا ہے تو جیسے ہی ان کے پاس زینب کی گمشدگی کی اطلاع پہنچی اسی وقت اس پر جنگی بنیادوں پر کارروائی شروع کر دی جاتی تو زینب بچ سکتی تھی۔ اسے ڈھونڈا جا سکتا تھا لیکن افسوس کہ پولیس نے اپنی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور یہ دل سوز سانحہ رونماہو گیا جس نے پنجاب پولیس کے ماتھے پر وہ بد نما داغ لگا دیا جسے مدتوں بار بار صاف کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود کبھی بھی دھویا نہیں جا سکے گا اور یہ سب کچھ کسی بھی تھانے کے ایس ایچ او اور حلقہ کے ڈی ایس پی کی گردن میں موجود اس سریے کی وجہ سے ممکن ہوا جو ہر ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو راجہ رنجیت سنگھ کا ولی عہد بنائے رکھتا ہے۔ جس دن ان کو پولیس کے لفظ کا اصل مفہوم معلوم ہو گیا اس دن شاید وہ سریا باہر آ جائے۔
قصور کی شہید زینب پر میرے چودہ جنوری کو لکھے گئے آرٹیکل کا ایک پیرا گراف ایک بار پھر عدالت اور پولیس کی اطلاع کیلئے پیش خدمت ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد اندازہ کیجئے کہ اگر میر اجیسا شخص ان زاویوں پر سوچ سکتا ہے تو قصور کا ڈی پی او ، ڈی ایس پی اور دوسرے پولیس انسپکٹروں کا اس جانب دھیان کیوں نہیں جا سکا؟ کیا یہ تربیت کی کمی تھی یا وہی روایتی لاپروائی اس کی وجہ بنی ؟میں نے چودہ جنوری کو اپنے مضمون میں پولیس کی اس جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا تھا '' زینب کی گمشدگی کی اطلاع ملتے ہی قصور پولیس اگر فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے وہ سی سی ٹی وی فوٹیج جو اس بدقسمت ننھی پری کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملنے کے بعد بار بار ٹی وی چینلز پر دکھائی جا رہی تھی‘ پہلے ہی دن اس کی تشہیر کر دیتی‘ اس سی سی ٹی وی فوٹیج کا پرنٹ نکال کر زینب کے محلے کے ہر دکاندار اور وہاں رہنے والوں کو دکھایا جاتا‘ زینب کے پہنے ہوئے کپڑوں کا رنگ بمع ان تصاویر کے جو زینب کے گھر میں پہلے سے موجود تھیں‘ انہیں دکھایا جاتا ،محلے کی تمام مساجد میں یہ تصاویر اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی تصاویر دکھائی جاتیں۔۔۔پندرہ سے چالیس سال عمر تک کے ان لوگوں کا پتہ چلایا جاتا جو زینب کے غائب ہونے کے بعد سے اپنے گھروں سے بغیر کسی مقصد یا اپنی ملازمت کے علاوہ غائب تھے۔۔۔وہ گھر ، کمرے اور خالی دکانیں دیکھی جاتیں جہاں مشکوک قسم کے لوگ اور لڑکے رات گئے بیٹھے ہوتے ہیں،ان لڑکوں کے بارے میں خفیہ طور پر اپنے مخبروں کے ذریعے پتہ چلایا جاتا جو اس سے پہلے بچیوں کے ساتھ شرمناک حرکات کرتے پائے گئے تھے۔۔۔تو یہ تفتیش صرف ایک دن کی تھی لیکن ا س کیلئے قصور پولیس کو جانفشانی سے یہ سمجھتے ہوئے کام کرنا تھا کہ اگر یہ بچی نہ ملی تو اس کا حشر بھی وہی ہوجائے گا جو اس سے پہلے قصور کی گیارہ بد نصیب بچیوں کا ہو چکا ہے‘‘۔لیکن جہاں جواب طلبی نہ ہو، جہاں ہر ایس ایچ او ڈی ایس پی کی پشت پر ایک ایم این اے اور ایم پی اے ہو اور وزرا سمیت سپیکر ہوں وہاں سب شتر بے مہار ہوتے ہیں وہاں تعیناتی کار کردگی پر نہیں بلکہ وفا داری پر کرائی جا تی ہیں۔
آج روڈ کوٹ قصور جہاں زینب شہید کا گھر تھا اس علا قے کا ہر شخص قاتل عمران کے بارے میں بتا رہا ہے کہ وہ بدقما ش تھا وہ اس سے پہلے بھی زینب اور محلے کی دوسری بچیوں کے ساتھ گلیوں میں آتے جاتے ہوئے شرمناک حرکات کرتا ہوا پایا گیا تھا ایک دو دفعہ اس کو پکڑا بھی گیا لیکن وہ یہ کہہ کر دھوکہ دیتا رہا کہ وہ تو ان سے صرف مذاق کر رہا تھا۔۔۔اگراس شیطان صفت قاتل کی اس خصلت بارے محلے کے ایک دو نہیں درجنوں لوگ گواہ تھے تو اس کی وہ تصویر جس میں وہ زینب کولئے ہوئے جا رہا تھا انہی محلے داروں کو بار بار دکھائی جاتی‘ جو لباس ملزم عمران نے پہنا ہوا تھا محلے کے نوجوان لڑکوں کو دکھاتے ہوئے پوچھا جاتا کہ یہ جیکٹ کون پہنتا ہے یہ کس کی جیکٹ ہو سکتی ہے یہ لباس کس کا ہو سکتا ہے تو یہ صرف چند گھنٹوںکا کام تھا۔ زینب بھی بچ جاتی اور قصور کی ان گیارہ بچیوں اور ان کے والدین کو بھی انصاف مل جاتا۔!!
زینب شہید پر پانچ دن جو قیا مت گزرتی رہی اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں قصور پولیس کا کردار انتہائی گھنائونا تھا۔ جب پولیس کو معلوم تھا کہ اس سے پہلے گیارہ بچیوں کے ساتھ بربریت اور شیطانیت کا کھیل کھیلا جا چکا ہے تو جیسے ہی ان کے پاس زینب کی گمشدگی کی اطلاع پہنچی اسی وقت اس پر جنگی بنیادوں پر کارروائی شروع کر دی جاتی تو زینب بچ سکتی تھی۔