ملک کے لیے کیا کچھ محض ضروری ہے اور کیا ناگزیر ہے اِس کا ادراک ہماری قیادت کو ہونا ہی چاہیے۔ علاقائی اور عالمی حالات کی تبدیلی نے بہت سے نئے فرائض کا ٹوکرا ہمارے سروں پر رکھ دیا ہے۔ نیا عہد ہے تو مسائل بھی نئے ہیں اور ذمہ داریاں بھی نئی ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ عزم بھی نیا ہو اور کام کرنے کا جذبہ بھی پروان چڑھایا جائے۔
نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیو ٹیک) کے سربراہ ذوالفقار چیمہ قابل اور ایماندار ترین بیورو کریٹس میں سے ہیں۔ دو سال قبل یہ کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کی بنیادی ذمہ داری ملک کے لیے بہترین افرادی قوت تیار کرنا ہے۔ یہ کام ایسا نہیں ہے کہ کہہ دیا اور ہوگیا۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ نئے شعبے تیزی سے ابھرے ہیں۔ تربیت کا معیار بھی بلند ہوا ہے۔ دنیا بھر میں ہنر مند افراد کی ضرورت ہے مگر فی زمانہ صحیح معنوں میں ہنر مند ہونا آسان نہیں۔
پیر کی دوپہر نیو ٹیک کی میڈیا بریفنگ میں ذوالفقار چیمہ صاحب سے ملاقات میں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ دو سال قبل جو پودا لگایا گیا تھا وہ اب خاصا تنآور درخت بن چکا ہے۔ ملک بھر میں ہر سال ایک لاکھ نوجوانوں کی بہترین پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام کرنا کوئی کھیل نہیں۔ مختلف فنون میں پیشہ ورانہ انداز سے تربیت فراہم کرنے والے ادارے کم نہیں مگر سوال معیار کا ہے۔ چیمہ صاحب نے بریفنگ میں یہ بات بطور خاص کہی کہ تربیت کے وہ تمام مراحل اپنانے کی ضرورت ہے جو دنیا بھر میں اپنائے جاتے ہیں۔ ملک میں بھی ایسے نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے جو کام کرنے کی لگن ہی نہ رکھتے ہوں بلکہ فنی تربیت بھی اعلیٰ معیار کے ساتھ حاصل کی ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی اور بقاء کو یقینی بنائے رکھنے میں ایک کلیدی کردار بہترین تربیت یافتہ افرادی قوت کا بھی ہے۔ کئی ممالک نے افرادی قوت کے شعبے پر خاطر خواہ توجہ دے کر ترسیلاتِ زر میں معقول اضافے کا اہتمام کر رکھا ہے۔
ہم نے عرض کیا کہ پیشہ ورانہ تربیت قومی اثاثہ سہی مگر اس سے ایک قدم آگے جانے کی ضرورت ہے۔ بھارت اور کئی دوسرے ممالک نے بڑی تعداد میں نالج ورکرز تیار کیے ہیں یعنی جسمانی مشقت سے دو قدم آگے جاکر ذہنی مشقت کو شعار بنایا ہے کہ اس شعبے میں احترام اور یافت دونوں کا گراف بلند ہے۔ سوال صرف ڈاکٹرز یا انجینئرز تیار کرنے کا نہیں ہے۔ اچھے ٹیچرز، مقرر، نرس، ایڈیٹرز، رائٹرز (بالخصوص ٹیکنیکل رائٹرز)، ٹرانسلیٹرز، اکاؤنٹنٹس، آڈیٹرز، لائبریرینز، اسٹور کیپرز اور دیگرماہرین تیار کرکے دنیا بھر میں پاکستان کو وقعت سے ہم کنار بھی کیا جاسکتا ہے اور زیادہ یافت بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ چیمہ صاحب نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نالج ورکرز تیار کرنے میں یافت کا امکان ہر اعتبار سے زیادہ ہے مگر یہ شعبہ غیر معمولی توجہ اور تیاری چاہتا ہے۔ پہلے ہمیں ووکیشنل ٹریننگ کی منزل سے گزرنا ہے۔
سی پیک سے متعلق منصوبوں کے شروع ہونے سے ملک میں معقول حد تک تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں افرادی قوت کی طلب بڑھتی جارہی ہے۔ ہیوی مشینری آپریٹرز اور دیگر اسامیوں کے لیے تربیت یافتہ نوجوان درکار ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانیوں کے ذہن میں تحفظات ہیں۔ مثلاً یہ کہ چینی کمپنیاں آئیں گی تو اپنے لیے افرادی قوت بھی ساتھ لائیں گی۔ یہ خدشہ بے بنیاد نہیں۔ اس حوالے سے نیو ٹیک کے سربراہ کہتے ہیں کہ چینی کمپنیوں کو مطلوب افرادی قوت مقامی سطح پر فراہم کی جائے گی۔ اگر مقامی سطح پر تربیت یافتہ افرادی قوت میسر نہ ہو تو متعلقہ کمپنی کو اختیار ہوگا کہ جہاں سے چاہے افرادی قوت درآمد کرے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ سیکھنا ہے تاکہ اندرون ملک بھی ان کی بھرپور کھپت ہو اور بیرون ملک بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر لیاقت و محنت کا بھرپور معاوضہ پاسکیں۔
نیو ٹیک کے سامنے ایک پہاڑ ہے جسے چیر کر راستہ بنانا ہے۔ پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب کم و بیش 60 فیصد ہے۔ سادہ اور پرکشش الفاظ میں کہیے تو بات یہ ہے کہ ایک خزانہ ہے جسے لُوٹنا ہے! نئی نسل ہی کسی بھی قوم کے لیے حقیقی معمار کا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستانی نوجوان پرعزم بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔ آج پاکستان کے سپوت دنیا بھر میں صلاحیتوں کا بھرپور لوہا منوا رہے ہیں۔ ان کی محنت کی کمائی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ذوالفقار چیمہ اور اِس قبیل کے دیگر بیورو کریٹس کے کاندھوں پر ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے بہ طریقِ احسن سبک دوش ہونے کی صورت میں ملک و قوم کا بھلا ہوگا۔ خیال و خواب کی دنیا میں رہنا اور بات ہے اور حقیقت کی دنیا کا سامنا کرنا کچھ اور چیز۔ محض سوچ لینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میدانِ عمل میں سامنے آکر کچھ کر دکھانا پڑتا ہے تب کہیں دنیا تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کی کمی نہیں مگر ہمارے باصلاحیت اور پرعزم نوجوان دنیا کو منہ دے رہے ہیں۔ مغرب اور مشرق بعید دونوں ہی خطوں میں پاکستانی اپنا آپ منوانے میں کامیاب رہے ہیں۔
نیو ٹیک نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کے سلسلے میں اپنا کردار عمدگی سے ادا کر رہا ہے۔ صنعت کاروں سے مشاورت کے ذریعے اُنہی شعبوں میں اعلیٰ درجے کی پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جارہی ہے جن کی طلب ہے۔ یہ اچھی حکمتِ عملی ہے۔ پیشہ ورانہ تربیت کے حوالے سے انہی شعبوں کو ترجیح دی جانی چاہیے جن کی طلب غیر معمولی ہے۔ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ وہ اور اُن کے رفقائے کار ڈٹے ہوئے ہیں۔ کام آسان نہیں مگر پرعزم رہ کر محنت کرتے رہنے سے ہر ہدف تک پہنچا جاسکتا ہے۔
بریفنگ کے دوران میڈیا کے ایک نمائندے نے جاننے کی کوشش کی کہ میڈیا کے حوالے سے بھی ٹریننگ کا سوچا جارہا ہے یا نہیں۔ چیمہ صاحب نے ''نوید‘‘ سُنائی کہ میڈیا کی ٹریننگ کے حوالے سے بھی پروگرام تیار کیا گیا ہے۔ ابتدائی سطح پر تربیت مفت ہے اور تھوڑا بہت وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا۔ میڈیا کی ٹریننگ کا سن کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ میڈیا اور ٹرنیننگ؟ میڈیا کے حوالے سے تو یہ ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا معاملہ ہے!
بات کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں معاملہ پرنٹ میڈیا کا ہو یا الیکٹرانک میڈیا کا، لوگ بالعموم ''تلمیذ الرحمن‘‘ (اللہ کے سِکھائے ہوئے) کی حیثیت سے جینا پسند کرتے ہیں یعنی کسی سے باضابطہ طور پر کچھ سیکھنے کے بجائے اپنے طور پر جو کچھ سیکھ لیتے ہیں مرتے دم تک اُسی کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں۔ اور میڈیا کے چمن میں ''بہار‘‘ بھی ''تلمیذ الرحمن‘‘ قسم کے لوگوں ہی کے دم سے ہے۔ ''لگ گیا تو تیر، ورنہ تُکّا‘‘ کے اصول کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی مہربانی سے میڈیا کی دنیا میں رونق میلہ لگا ہوا ہے۔ چیمہ صاحب سے التماس ہے کہ میڈیا والوں کی باضابطہ تربیت کے ذریعے اس میلے کی رونق کم کرنے کا اہتمام نہ کریں! دوسرے شعبوں میں پیشہ ورانہ تربیت مطلوبہ نتائج لاسکتی ہے، میڈیا کے معاملے میں ہمارا تجربہ ہے کہ کچھ نیا سکھانے کی کوشش کا نتیجہ پہلے سے سیکھے ہوئے کو ''اَن سیکھا‘‘ کرنے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے!