تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-02-2018

مجھے یہاں پر کیوں رکھا؟

چند برسوں کے وقفے کے بعد فوراً ہی ایک مخصوصی مذہبی تحریک مختلف ناموں سے منظر عام پر آتی ہے۔ پہلا کام مساجد سے شروع ہوتا ہے۔اس کے بعد مختلف مراکز میںالگ الگ چہروں کے ساتھ تحریک میں توانائی بھری جاتی ہے تو حکومت بھی اندازے لگانے لگتی ہے کہ دوسرے محاذ کی طرف سے کیا کیا کھانے طلب کئے جائیں گے؟ پاکستان میں تما م پارٹیوں اور حکومتوں کے مابین مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں۔ حکومتی نمائندے اڑی ہوئی رنگتوں‘ سوکھے ہونٹوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ‘ ابتدائی طور مذاکرات شروع کرتے ہیں۔ ان مذاکرات کے دوران دونوںفریق‘ نئے سے نیا نکتہ نکال کر سودے بازی کرنے لگتے ہیں۔ بات چندے سے شروع ہوتی ہے اور پھر پھیلتے پھیلتے صوبائی اور وفاقی خزانوں پر جس جس کی آنکھ ٹکی ہوتی ہے‘ وہ اسی کے ساتھ الگ الگ ایجنڈے پر مذاکرات کی فرمائش کرتے ہیں۔فرقے یا گروہ اپنی ضروریات کی روشنی میں اپنے اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں۔
یہ مذاکرات عموماً علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ ہر گروہ دوسرے گروپس کے مذاکرات کی خبریں جاننے کے لئے ‘اپنا اپنا ایجنٹ نامزد کرتا ہے جو حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی خبریں‘ اپنی پارٹی کے قائدین تک پہنچاتا ہے۔حکومت جو بظاہر بھولی بھالی لگتی ہے‘ اس کے نمائندے یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ہم نے جس گروہ کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں‘ان کا سراغ‘ دوسروں گروپوں کو کیسے لگتا ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے‘ اللہ کے یہ بندے ‘حکومتی مشینری سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں۔حکومت نہ گلیوں‘ بازاروں‘ محلوں اور مساجد میں جاتی ہے‘ نہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فدائین‘ ہمارے مذاکرات کی تفصیل کہاں سے جان لیتے ہیں؟جب حکام آپس میں جمع ہو کر مطالبات کی فہرستوں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں تو بھونچکے رہ جاتے ہیں۔حکومتی ٹیموں کے ساتھ مختلف فرقوں کے جو نمائندے مذاکرات کرتے ہیں ‘ وہ ان درویشوں کی سراغ رسانی کی مہارتوں کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ کئی بار تو یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ عطیات کے ایک ایک خانے کو پر کرنے کے لئے‘ کیسے کیسے خانے بھرے جاتے ہیں؟بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ان گروہوں نے سرکارسے جو کچھ حاصل کیا‘ وہ ہمارے تجربے سے مختلف نہیں تھا۔تمام فرقوں کے نمائندوں کی معلومات جان کر وہ اپنی اپنی حیرت میں ڈوبتے جاتے ہیں۔ہر ایک کے مطالبات دوسرے سے مختلف نہیں ہوتے۔نوے فیصد مطالبات جو پورے کرائے گئے ہوتے ہیں‘ ان کا آپس میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔خد ا کے یہ نیک بندے‘ اپنے اپنے فرقوں کی مختلف ضروریات کو اتنی باریکیوں کے ساتھ سمجھ لیتے ہیں کہ حکومتی محکموں کے کھلاڑی‘ مذہبی ٹیموں کے کھلاڑیوں سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں تو نئے تجربات اور خوراک کے نئے سے نئے مینوز پر تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کی طرف سے حاجت مندوں کی گزارشات ‘جب دوسرے سرکاری افسروں تک پہنچتی ہیں تو ہر میٹنگ میں زیر بحث آنے والی فہرستی غذائوں پر تبادلہ معلومات کرتے ہیں۔ یہ نیک بندے‘ اپنے ہم خیال اور دوسرے فرقوں کے معاملات پر ''تبادلہ خیال‘‘ کرتے ہیں تو سرکاری دفتروں کا بابو‘ اپنی کم علمی کا اندازہ کر کے احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔
یوں تو بڑے بڑے سرکاری افسروں کو روزانہ ہی ایک نہ ایک نئی دعوت میں شرکت کے ''مواقع‘‘ ملتے ہیں۔( مواقع سے مراد‘ ایک ایک دن میں کئی کئی دعوتیں ہیں)جب سرکاری افسران تفصیل میں ''تبادلہ خیال‘‘ کرتے ہیں تو انہیں اپنی بے چارگی پر ترس آتا ہے۔ افسران اس زعم میں ہوتے ہیں کہ ہم روزانہ طرح طرح کی دعوتوں سے لطف اندوز ہو کر سمجھنے لگتے ہیں کہ خوراک کے معاملے میں ہمارا خیال تھا کہ ان سادہ لوح حضرات کو خبر نہیں ہوگی کہ خوراک کی نئی نئی ایجادات کے مینوز کیسے بنتے ہوں گے؟ جس جس گروہ کو‘ جس جس فرقے کی طرف سے ‘ جو جو دعوت ملتی ہے‘ اس میں ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی خوراک چکھنے کا موقع ملتا ہے کہ ہم حیرت میں رہ جاتے ہیں۔ کئی بار تو یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ کا نیک بندہ ‘سرکاری افسرکے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر نئی سے نئی غذا دریافت کرتا ہے۔قارئین جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں‘ سیاسی تقریروں اور مباحثوںکے موضوعات کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری حکومت چلانے والے تمام عوامی نمائندے نہ پالیسیاں بناتے ہیں۔نہ مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی منصبی ذمہ داریوں پر توجہ دیتے ہیں۔سب کی زندگی کے دائرے خوراک میں سمٹتے جا رہے ہیں۔کمائی اتنی ہوتی ہے کہ نوٹ گھر لے جانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ دولت کو محفوظ کرنا بہت بڑامسئلہ ہے۔ بلوچستان کے ایک سیکرٹری کو جب سمجھ نہ آئی تو اس نے گھر کے سارے صندوقوں میں نوٹ بھر کے کمروں میں رکھ دئیے اور بڑے اہتمام سے اس کی وڈیوبنا کر ٹیلی ویژن پر چلوائی۔جو قومیں اندھا دھند نوٹ جمع کرنے میں لگ جاتی ہیں تو نوٹ خود کو بے ڈھنگے طریقوں سے رکھے جانے پربدمزہ ہوکے اپنی بے قدری کا ماتم کرنے لگتے ہیں۔خدا لگتی کہئے کہ جیسے ہمارے حکمران طبقے اندھا دھند کمائی گئی دولت کو سنبھالتے ہیں تو وہ بھی کہنے لگتے ہیں کہ مجھے یہاں پر کیوں رکھا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved