بابِ قبول بند ہے۔ دعا کے ہاتھ اٹھانے کا کوئی فائدہ اب نہیں۔ اب اُٹھ کھڑے ہونا ہے یا قتل ہو جانا ہے۔ بولو‘ اب مقابل اٹھنا ہے یا قتل ہونا ہے؟ اور بھی پست و پامال ہوجانا ہے؟ اور بھی برباد؟ چارپانچ ماہ کے بچّے کو اس نے گود میں سمیٹ اورسنبھال رکھّا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ اس کا پہلوٹھی کا بیٹا ہے(یا شاید بیٹی؟)۔لمبا سرخ گائون پہنے ‘اس جواں سال ممتا نے فرزند کا پورا پیکر اپنے سفید دوپٹے سے ڈھانپ دیا ہے کہ اسے تتّی ہوا نہ لگے ۔ موٹرسائیکل کی پچھلی سیٹ پر شاہراہِ فیصل کی وحشی ٹریفک میں‘ گردوپیش سے بے نیاز‘ ہمہ وقت اس کی نگاہیں بچّے پرگڑی ہیں ۔ محبت کا وفور جو صرف مائوں میں ہوتا ہے اور دائم برقرار رہتا ہے۔ حیرت اور رنج کے ساتھ میں سوچتا ہوں: کیا وہ آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچتی ہوگی اور گزرتے دنوں کے بارے میں! شہر کی سڑکوں پر دس بارہ لاشیں روزانہ گرتی ہیں۔ ساٹھ برس ہوتے ہیں‘ اسی شہر میں‘ عصرِ رواں میں نثر کے امام مشتاق یوسفی کی بلّی مرگئی تھی۔ پالتو نہیں‘ گھر گھر گھومنے والی بلّی۔ بینک میںملازم ‘دیوار کی طرف منہ کیے‘ وہ بہی کھاتے مرتب کیا کرتے‘ جس میںایک چھوٹا سا سوارخ تھا۔ اس بلّی کے لیے کٹورے میںتھوڑاسادودھ ڈال دیاجاتا۔ ایک دن جب کلرک کی جیب میں صرف کرائے کے پیسے بچے تھے‘ دودھ نہ خریدا جاسکا تو اسے تاسف نے آلیا۔اگلے دن احساسِ جرم سے‘ بے تابی کے ساتھ اہتمام کرنا چاہا تو بتایاگیا کہ بلّی تو مرچکی۔ کل شب بس کا تیز رفتار پہیّہ اسے کچلتا ہوا گزر گیاتھا۔ چھ عشرے بیت چکے ہیں مگر اس بّلی کی لاش وہیں پڑی ہے‘ یوسفی کی خود نوشت کے سفید اوراق پر ‘ وہاںلہو کے چھینٹے ہیں۔جیتا جیتا سرخ لہو! موت اگر بستر پر آئے‘ بیماری سے آئے‘ تب بھی خون رُلاتی ہے ۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی والدہ ماجدہ‘ جنہیں وہ بُوا جی کہا کرتے‘ اسّی برس کی ہوگئی تھیں ‘ جب وہ دنیا سے اٹھیں۔بیٹے کی حالت غیر تھی۔ ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر وہ گھر پہنچے۔ کچھ دیر پائینتی پر کھڑے رہے پھر ٹوٹا ہواآدمی جُھکا‘ دونوں پائوں کو چوما اور یہ کہا: ’’اِن قدموں تلے تو میری جنت تھی۔‘‘ بہت دن تک حال یہ تھاکہ آدھی رات کو اٹھ بیٹھتے ‘ آنکھیں آنسوئوںسے بھری ہوئی اور ان کی بیگم انہیں دُہراتے ہوئے سنتیں ’’بوا جی‘ بوا جی…‘‘ عبدالرحمن ‘ میرے ماموںجان کو شہید ہوئے پچیس برس بیت چکے تھے ۔ 1947ء میںمشرقی پنجاب کے گائوں بھوانی پور میں سکھوں نے انہیں عقب سے حملہ کرکے مار ڈالا تھا۔ سر ما کی نامہربان راتوں میںکبھی والدہ مرحومہ ‘ میری بی بی جی‘ سینیٹر طارق چوہدری کی شیریں کلام والدہ میری ماسی جی اور کبھی سارا دن تسبیح و تلاوت کرنے والی نانی امّاں ان کا ذکر چھیڑتیں تو ایسا لگتا کہ کل شام کی بات ہے ‘ جب اس کڑیل جوان کی لاش گھر لائی گئی تھی۔ آتش دان کے سامنے ‘ چہرے آنسوئوں سے تر ہوجاتے ‘ آواز کے بغیر بہنے والے آنسو‘جن سے دردتحلیل کم ہوتا ہے‘بڑھتا زیادہ ہے۔ ڈیڑھ سو سال بیت چکے ہیں‘ جب اسداللہ خان غالبؔ نے اپنے فرزند کا مرثیہ لکھّاتھا۔ میرے سامنے رکھّا ہے اور رُلاتا ہے۔ لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور مٹ جائے گا سر‘ گر‘ ترا پتھر نہ گھسے گا ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’’جائوں؟‘‘ مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھّا‘ کوئی دن اور جاتے ہوئے کہتے ہو ’’قیامت کو ملیں گے‘‘ کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟ ہاںاے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور تم ماہِ شب چار دہم تھے میرے گھر کے پھر کیوں نہ رہا ‘ گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور مجھ سے تمہیں نفرت سہی‘ نیّر سے لڑائی بچّوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور گزری نہ بہرحال یہ مدّت خوش و ناخوش کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور ناداں ہیںجو کہتے ہیں کہ’’کیوں جیتے ہو غالبؔ‘‘ قسمت میںہے مرنے کی تمنّا کوئی دن اور تاریخ اور دن معلوم نہ ہوسکا‘ تین چار ہفتے ہوتے ہیں‘ جب خدائی کے خواہاںایک قہرمان نے حکم دیا کہ کراچی کو نذر آتش کردیا جائے ۔ دوچار سو لاشیں گرادی جائیں۔پورے پاکستان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسے ناخوش کرنے کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔ بروقت معلوم ہوگیا‘ لہٰذا کچھ کم لوگ قتل ہوئے لیکن ابھی ہوتے رہیں گے۔ قاتل کون ہے‘ کون کون ہے؟ یہ کوئی رازتو نہیں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھ دیاگیاکہ چارگروہ ہیں‘ بھتّہ خور اور ظاہر ہے بھتّہ خور ہی قاتل ہیں۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھتا کیوںنہیں؟ کوئی ان کا ہاتھ پکڑتا کیوںنہیں؟ ’’ صرف لیاری میں‘‘ اس آدمی نے‘ جس کی ذمے داری ہے کہ نگاہ رکھے‘ صاف الفاظ میںمجھے بتایا ’’صرف لیاری میںچھ سے سات ارب روپے بھتّہ ہر ماہ وصول کیا جاتا ہے۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ پورے شہر میں کم ازکم تین ارب ڈالر سالانہ ‘ہاں اے خبر نگارو‘ تین ارب ڈالر سالانہ! سپاہِ صحابہ‘ لشکرِ جھنگوی اورتحریکِ طالبان کے خلاف کارروائی شدّ ومد سے برپا ہے تو بجا ہے۔ اس سے زیادہ سختی بلکہ بے رحمی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ پاکستان کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے بھارت نے اُن کے اندر رستے بنالیے ہیں مگر باقی؟ مگر باقی خونخوار قاتل؟درد کی شدّت سے خوں گشتہ و سی پارہ ہر عامی کا دل یہ پوچھتا ہے: ہمارے یہ حکمران کس مرض کی دوا ہیں؟ کیوںان کے لیے ہم نے محلّات بنائے ہیں؟ کس لیے ہم نے انہیں اجازت دے رکھی ہے کہ ہماری خون پسینے کی کمائی سے اپنے روز وشب آسودہ بلکہ رنگین رکھیں۔اس کے باوجود‘ اس کے باوجود‘ ہماری اتنی سی استدعا بھی وہ کیوں نہیں مانتے کہ جان کی امان ہی دے دیں؟ حضورفقط جان کی امان ہی! دل پتھر ہوجاتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب کہتی ہے :’’ بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت کہ ان میں تو ایسے ہیں‘ جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔‘‘ ہوش وحواس بحال ہوں تو تجزیہ کرنے کی کوشش بھی کروں گا‘ فی الحال تو ابوالقاسم ؐ کا وہی ارشاد‘ جو سال بھر سے سنارہا ہوں اور جب تک دم میں دم ہے‘ سناتا رہوںگا۔ ’’برائی سے جب روکا نہ جائے گا۔ اور بھلائی کی ترغیب نہ دی جائے گی تو بد ترین حاکم تم پر مسلّط کیے جائیں گے اور وہ تمہیں سخت ایذا دیں گے ‘ پھر تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ ہوں گی۔‘‘ بابِ قبول بند ہے ‘ دعا کے ہاتھ اٹھانے کا فائدہ اب کوئی نہیں۔ اب اٹھ کھڑے ہونا ہے یا قتل ہو جانا ہے۔ بولو‘ اب مقابل اٹھنا ہے یا قتل ہونا ہے؟ اور بھی پست و پامال ہوجانا ہے؟ اور بھی برباد؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved