تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-02-2018

’’صنفِ نازک‘‘

ہم بھی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہتے تھے کہ اہلِ جہاں صنفِ نازک کو آخر کس بنیاد پر صنفِ نازک قرار دیتے ہیں۔ ایک زمانے سے ہم باقاعدہ مشاہدہ کرتے آئے ہیں کہ انتہائی نازک دکھائی دینے والی خواتین عملی سطح پر انتہائی سخت ... ہمارا مطلب ہے سخت مزاج واقع ہوئی ہیں۔ تقریباً تمام معاملات میں اپنی بات منوانے والی، اپنی مرضی کے مطابق چلنے والی خواتین جب صنفِ نازک ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں تب ہمیں یہ مصرع یاد آئے بغیر نہیں رہتا ع 
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا! 
مرزا تنقید بیگ کو صنفِ نازک کی اصطلاح سے سخت چڑ ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ اس نام نہاد ''نزاکت‘‘ نے اُن پر، اُنہی کے بقول، ہمیشہ جی بھرکے ہتھوڑے برسائے ہیں۔ ہم نے جب بھی ''وزٹنگ پروفیسر‘‘ کی حیثیت سے ''مرزا یونیورسٹی‘‘ کی سیر کی ہے، ہم پر یہی کُھلا ہے کہ اس یونیورسٹی میں بھابی صاحبہ پی ٹی کی پروفیسر ہیں اور مرزا بے چارے اُن کے اشاروں پر ون ٹو کرنے والے طالب علم! 
خیر، جیسا جس کا نصیب۔ ہم، آپ کر بھی کیا سکتے ہیں! اور اگر پوری دیانت سے معاملات کو دیکھیے تو حتمی تجزیے میں ہم بھی اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہماری کیفیت مرزا کی کیفیت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ ؎ 
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے 
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے 
بہت سوں کو یہ گمان ہے کہ صنفِ نازک کی چیرہ دستیوں سے وہ بہت حد تک محفوظ رہے ہیں۔ اس گمان میں مبتلا رہنے والوں یعنی اپنے آپ کو بچا ہوا سمجھنے والوں کے لیے عبدالحمید عدمؔ نے کہا تھا ؎ 
کون ہے جس نے مَے نہیں چکّھی؟ 
کون جُھوٹی قسم اٹھاتا ہے؟ 
مَے کدے سے جو کوئی بچ نکلے 
ان کی آنکھوںمیں ڈوب جاتا ہے! 
یونورسٹی آف سدرن ڈنمارک کے ماہرین کو اچانک خیال آیا ہے کہ بس، اب بہت ہوچکا۔ وقت آگیا ہے کہ اہلِ جہاں کو بتایا جائے صنفِ نازک ایسی بھی نازک صنف نہیں۔ تحقیق کا ڈول ڈال کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ خواتین کسی بھی انتہائی صورتِ حال کو بخوبی جھیلنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ کوئی بھی صدمہ بخوبی جھیل جاتی ہیں۔ یہ خبر پڑھ کر ہم تو بے اختیار ہوکر ہنس پڑے۔ کیوں نہ ہنستے؟ معاملہ یہ ہے کہ خواتین کے حوالے سے جن خصوصیات پر ڈنمارک کے ماہرین نے انتہائی حیرت کا اظہار کیا ہے وہ ہمارے لیے کبھی حیرت انگیز نہیں رہیں۔ 
ماہرین نے جنگوں اور غلامی کے علاوہ زلزلوں، سیلابوں، وباؤں اور دیگر قدرتی آفات کا عمیق جائزہ لینے کے بعد ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ خواتین غیر معمولی اعصابی قوت کی حامل ہوتی ہیں اور بڑے بڑے صدمے برداشت کرلیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر دور میں خواتین نے قتل و غارت اور قدرتی آفات کا ڈٹ کر سامنا کیا ہے۔ مختلف وباؤں کو جھیلنے میں بھی خواتین کا ریکارڈ شاندار رہا ہے۔ تاریخی ریکارڈ کی بنیاد پر ماہرین یہ کہنے پر ''مجبور‘‘ ہیں کہ خواتین کی قوتِ مدافعت غیر معمولی حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ 
یونیورسٹی آف سدرن ڈنمارک کے ماہرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ خواتین میں غیر معمولی قوتِ مدافعت کا پایا جانا کبھی کوئی راز نہ تھا۔ کسی بھی صورتِ حال کو جھیل جانے کی صلاحیت بھی کچھ نئی بات نہیں۔ ہم کوئی محقق تو ہیں نہیں کہ کوئی بھی بات یونہی کہہ دیں۔ ہوا میں تیر چلانے کا ہنر ہمیں نہیں آتا۔ ہم تو وہی کہہ سکتے ہیں جو دیکھتے ہیں، پرکھتے ہیں۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کسی کی بیوی مر جائے تو وہ دو تین برس ہی میں ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور پھر بے دِلی کے ساتھ جینے لگتا ہے۔ عام خیال یہ ہے (اور ہم پر بھی اس حوالے سے لکھنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے) کہ بیشتر مرد اپنی بیویوں سے بیزار رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو بیوی کے مرنے پر میاں کی زندگی پھیکی سی کیوں پڑ جاتی ہے؟ خواتین مانیں یا نہ مانیں، حقیقت یہ ہے کہ مرد بے چارے اپنی اپنی بیوی سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں بیویوں پر انحصار پذیر رہتے ہیں اور اُن کی زندگی میں جتنی بھی رونق ہوتی ہے وہ بیوی ہی کے دم سے ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب بیوی چلی جاتی ہے تو وہ شدید بیزاری محسوس کرتے ہیں اور زندہ رہنا ان کی ترجیحات میں سر فہرست نہیں رہتا۔ 
آئیے، اب سِکّے کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ ہمارا ہی ذاتی مشاہدہ یہ بھی ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد خواتین ڈھائی ڈھائی تین تین عشرے آرام سے گزار لیتی ہیں! اضافی مشاہدے کے ضمن میں ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ بیوگی کی زندگی بسر کرنے والی خواتین اپنے شوہروں کو اتنا یاد نہیں کرتیں جتنا رنڈوے کی حیثیت سے جینے والے مرد اپنی بیویوں کو یاد کیا کرتے ہیں! بیوگی کی زندگی بسر کرنے والی خواتین بظاہر اپنے شوہروں کی کچھ خاص کمی محسوس نہیں کرتیں، ان کے جانے کا غم اُن پر خطرناک یا جان لیوا حد تک اثر انداز ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اور اِس حالت کو ہر صدمہ جھیل جانے کی صلاحیت سے تعبیر کرکے گل ہائے ستائش برسائے جارہے ہیں! 
اس موضوع پر مرزا نے جب بھی گھر میں بحث کی ہے، ہزیمت اور پریشانی کا سامنا کیا ہے۔ مرزا کا استدلال یہ ہے کہ خواتین کی ''ڈھٹائی‘‘ کو قوتِ برداشت اور قوتِ مدافعت کا نام دے کر خوش نُما بنادیا گیا ہے۔ مرزا کو یہ امر تسلیم کرنے میں کچھ عار نہیں کہ مردوں میں قوتِ برداشت خاصی کم ہوتی ہے، اعصابی قوت کے معاملے میں بھی وہ پھسڈّی ثابت ہوئے ہیں۔ اپنے بارے میں بھی مرزا تسلیم کرتے ہیں کہ اُن میں غیر معمولی قوتِ مدافعت نہیں پائی جاتی۔ یہی سبب ہے کہ وہ ازدواجی زندگی کی ٹرین کو اپنی طرف آتی ہوئی دیکھ کر بھی ٹریک سے ہٹ نہ سکے اور تاریک راہوں میں مارے گئے! 
دوسری طرف بھابی صاحبہ کو بتائیے کہ ماہرین کی نظر میں خواتین غیر معمولی قوتِ برداشت کی حامل ہوتی ہیں اور ہر صدمہ جھیل جاتی ہیں تو وہ متفق ہونے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرتیں اور مرزا کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایسے آدمی کے ساتھ زندگی بسر کرنا قوتِ برداشت کا درجۂ کمال سمجھا جانا چاہیے! ویسے بھابی صاحبہ کی اس بات سے اتفاق کرنے میں ہم بھی کچھ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے ہماری قوتِ برداشت کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے! 
ماہرین نے خواتین میں ہر صدمہ، ہر المیہ جھیل جانے کی صفت بیان کرکے ایک ایسی حقیقت بیان کی ہے جو پہلے ہی سے سب کے علم میں تھی۔ اب ذرا مردوں پر بھی نظرِ عنایت کی جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ مردوں میں صدمے جھیلنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ ماہرین اگر زندگی بھر خواتین کی ناز برداری اور شاپنگ کا جنجال برداشت کرنے پر ہی فوکس کرلیں تو مان جائیں گے کہ صدمے جھیلنے میں مرد بھی لاثانی ہونے کی منزل میں ہیں!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved