تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     02-02-2018

صدیق الفاروق…بجز داغِ ندامت

ہندو مندر کٹاس راج کے مقدس تالاب کے حوالے سے سوئوموٹو ایکشن کی کہانی متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق کی سبکدوشی کے حکم پر اختتام کو پہنچی۔ اپنے ہمدمِ دیرینہ کا یہ ''انجام‘‘ سچ بات یہ ہے کہ ہمارے لیے یک گو نہ سکون اور اطمینان کا باعث تھا البتہ اس حوالے سے افسوس ہوا کہ اس نے یہ منصب قبول نہ کیا ہوتا تو سینیٹ کے تین مارچ کے انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ کا مضبوط اور مقبول امیدوار ہوتا۔ (ظاہر ہے‘ سرکاری ذمہ داری سے سبکدوشی کے بعد دو سال تک وہ عوامی نمائندگی کے کسی عہدے کا اہل نہیں) ہمیں ذاتی طور پر علم ہے کہ عمر کے اس حصے میں وہ کسی سرکاری عہدے کی خواہش نہیں رکھتے تھے اور عملی سیاست میں سرگرم رہنا چاہتے تھے۔ اِدھر تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد‘ تباہ حال اداروں کی بحالی بھی میاں صاحب کے ایجنڈے کا اہم حصہ تھی۔ ان میں متروکہ وقف املاک بورڈ بھی تھا۔ یہاں صدیق الفاروق کے پیشرو ‘پیپلز پارٹی کے جیالوں میں شمار ہوتے تھے۔ 2008ء میں لاہور میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے کے بعد انہیں کوئی ''مصروفیت‘‘ درکار تھی۔ جنابِ زرداری یاروں کے یار ہیں‘ انہوں نے متروکہ وقف املاک بورڈ اپنے دوست کو سونپ دیا اور وہ اسے تقریباً 38 کروڑ روپے سالانہ خسارے میں چھوڑ کر رخصت ہوئے (ان دنوں کرپشن کے الزامات میں ''مفرور‘‘ ہیں)
سابق وزیراعظم نوازشریف کی خواہش تھی کہ صدیق الفاروق متروکہ وقف املاک بورڈ کی سربراہی سنبھالیں اور یہاں بھی اسی طرح اصلاحِ احوال کا اہتمام کریں‘ جس طرح گزشتہ دور میں ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کو سنبھالا تھا۔ آخرکار صدیق الفاروق کو ہاں کرنا پڑی۔ صدیق الفاروق کے ''مینڈیٹ‘‘ میں کرپشن کے خاتمے کے علاوہ (قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ) سکھ اور ہندو برادری کی ایسی خدمت تھی کہ دنیا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تشخص ''اقلیت دوست‘‘ ملک کے طور پر نمایاں ہو۔
صدیق الفاروق سے ہماری شناسائی‘ نصف صدی کا قصہ ہے‘ دو چار برس کی بات نہیں۔ 1976-78ء میں وہ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج اصغر مال راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ تب ہم پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت سے وابستہ تھے...اور بھٹو صاحب کے خلاف چاک گریبانوں میں ہمارا بھی شمار ہوتا تھا۔ صدیق الفاروق کی طرح ہم نے بھی عملی زندگی کے لیے کوچۂ صحافت کا رُخ کیا۔ صحافتی ٹریڈ یونین میں بھی ہم ان کے ہم سفر تھے۔ وہ ہماری پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اسی دوران وہ وزیراعظم نوازشریف کی نظروں میں سما گئے...اور مئی 1993ء سے جولائی 1993ء تک ان کے پریس سیکرٹری رہے (یہ سپریم کورٹ سے بحالی اور اس کے بعد وحید کاکڑ فارمولے کے تحت استعفے تک کا عرصہ تھا) بے نظیر بھٹو کی دوسری وزارتِ عظمیٰ میں میاں صاحب قائد حزب اختلاف تھے اور صدیق الفاروق اس دوران ان کے پریس سیکرٹری‘ ترجمان اور تقریر نویس ۔ ابتلاو آزمائش کے اس دور میں بھی ان کی وفاداری میں فرق نہ آیا۔ میاں صاحب کے دوسرے دور میں کچھ عرصہ ان کے پریس سیکرٹری اور ترجمان رہے‘ اس دوران غیر ملکی دوروں میں ہمیں ان کی صلاحیتوں کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ایک طرف نازک مزاج اخبار نویسوں کی دیکھ بھال میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے‘ دوسری طرف وزیراعظم صاحب کی تقریر کی نوک پلک سنوارنے اور کہیں ''منہ زبانی‘‘ خطاب کے لیے ٹاکنگ پوائنٹس کی تیاری میں مصروف نظر آتے۔ 
پرائم منسٹر ہائوس سے وہ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن میں چلے آئے اور چیئرمین؍مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت میں اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ رشوت اور کمشن خوری کا نام و نشان مٹا دیا‘ بے گھر اور بے در لوگوں کے لیے اپنی چھت کا اہتمام آسان تر بنا دیا۔ کراچی کے ''بھتہ خور‘‘ اپنے ''حصے‘‘ کے لیے دھمکیوں پر اتر آئے لیکن یہاں ان کا واسطہ ایسے شخص سے تھا جو سر ہتھیلی پر رکھے ہوئے تھا۔
12 اکتوبر 1999ء کے دو روز بعد صدیق الفاروق کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ''گمشدگی‘‘ کا یہ عرصہ سات ماہ پر محیط تھا۔شریک حیات کی تلاش میںہماری فہمیدہ بھابھی آخرکار سپریم کورٹ جا پہنچیں تو سرکاری وکیل نے بتایا کہ موصوف کی نقل و حرکت کو امن و امان کے لیے خطرہ سمجھ کر گرفتار کیا گیا‘ جس کے بعد یاد ہی نہ رہا کہ اس نام کا کوئی بندہ زیرحراست بھی ہے۔ تب جسٹس ریاض احمد یہ کہے بغیر نہ رہے کہ اللہ کا شکر ہے‘ نظربند زندہ سلامت ہے۔ یکم ستمبر 2001ء تک کا عرصہ انہوں نے فوجی تحویل‘ نیب کی تحویل‘ پھر سنٹرل جیل کراچی اور اڈیالہ جیل راولپنڈی میں بڑی ہمت اور حوصلے سے گزارا۔ اس دوران مشرف حکومت کی طرف سے قاف لیگ کے سیکرٹری اطلاعات‘ سینیٹ کی رکنیت اور منسٹر آف سٹیٹ کی پیشکش بھی ہوئی‘ لیکن پیغام لانے والے ہر بار مایوس لوٹ گئے۔ 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی پلس قید وبندکا نیا مرحلہ تھا۔ اس سے پہلے ایک دلچسپ واقعہ بھی ہوا۔ یہ ڈکٹیٹر کے دور میں وزارتِ ریلوے میں کروڑوں‘ اربوں روپے کی کرپشن کی کہانی تھی۔ وزیر ریلوے ڈکٹیٹر کے قریبی رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ صدیق الفاروق نے پریس کانفرنس کی اور اٹھا لئے گئے۔ لیکن اس بار حوالۂ زنداں کرنے کی بجائے‘ ایبٹ آباد کے قریب جنگلوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ڈکٹیٹر شپ کے دورِ عروج میں دو ضخیم کتابیں بھی لکھ ڈالیں‘ ان میں "Kargil Adventure or Trap" جیسی نہایت اعلیٰ درجے کی تحقیقاتی تخلیق بھی تھی۔
متروکہ وقف املاک بورڈ میں بھی ان کے جنون کا وہی عالم تھا۔ ننکانہ صاحب دنیا بھر کی سکھ برادری کے لیے مقدس ترین شہر ہے‘ یہاں متروکہ وقف املاک بورڈ کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر ناجائز قبضہ تھا۔ سینکڑوں مکانات تجاوزات کے زمرے میں آتے تھے۔ صدیق الفاروق نے یہاں ٹائون پلاننگ اور انٹرنیشنل یونیورسٹی سمیت متعدد منصوبوں کا فیصلہ کیا۔ تجاوزات کی خاتمہ مہم میں وہ خود ننکانہ جا پہنچے اور یہاں اپنے ہی ''دوستوں سے ملاقات‘‘ ہو گئی ۔مزاحمت کرنے والوں میں مقامی مسلم لیگی بھی تھے۔ ان کی گاڑی حملے کی زد میں تھی۔ تب لائسنس یافتہ پستول کام آیا جو صدیق الفاروق خود اپنے بقول ‘سوتے میں بھی ساتھ رکھتے ہیں۔
صدیق الفاروق اکتوبر 2014ء میں متروکہ وقف املاک بورڈ کا چیئرمین بن کر لاہور شفٹ ہوئے‘ تو یہاں نہر کے کنارے زمان پارک میں (عمران خان کے آبائی گھر سے پیدل مسافت پر) 8 کنال کا ایک بنگلہ ان کے لیے موجود تھا۔ اتنا بڑا گھر ضرورت سے بہت زیادہ تھا کہ انہوں نے اپنی فیملی کو یہاں منتقل نہیں کرنا تھا (وہ بنی گالہ میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھی) سوچا‘ کیوں نہ اس بنگلے کو کرائے پر اٹھا کر بورڈ کے لیے تین چار لاکھ روپے ماہانہ آمدنی کا اہتمام کر دیا جائے۔ خود ان کے لیے دس‘ بارہ مرلے کا معقول سا گھر کافی ہو گا لیکن یہ چیئرمین کے لیے Designated House تھا جسے کرائے پر نہیں دیا جا سکتا تھا۔ یہ بنگلہ وسیع و عریض لان کے ساتھ ہندو اور سکھ یاتریوں کی خاطر تواضع اور ان کے لیے برپا کی جانے والی تقریبات کے کام آتا رہا۔
اب ان کے لیے پہلا کام بنی گالہ والا کرائے کا مکان چھوڑ کر نسبتاً کم کرائے والے مکان کی تلاش ہے۔ خیابانِ سرسید راولپنڈی میں دس مرلے کا گھر چار سال میں (قسطوں میں) مکمل کیا تھا۔ مشرف دور (2004)ء میں اسے فروخت کر کے دس لاکھ کا قرض ادا کیا اور باقی رقم انویسٹ کر دی کہ روٹی تو کسی طور کماکھائے مچھندر۔اب صدیق الفاروق متروکہ وقف املاک بورڈ کی سربراہی سے سبکدوش ہوئے ہیں تو ہم جیسوں کے لیے یہ بات اطمینان اور مسرت کا باعث ہے کہ ہمارے لوئر مڈل کلاسئے دوست پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved