تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-02-2018

صحافت اور سرکار ی نوکر

فرمایا کہ نجات صرف بھلائی کی ترغیب اور برائی کو روک دینے میں ہوتی ہے۔ بھلائی کی ترغیب دینے اور برائی کو روک دینے والے کہاں ہیں ؟ 
سات برس ہوتے ہیں ، وزیر آباد کی ایک گلی سے گزرتے ہوئے ایک حویلی پہ نگاہ پڑی ۔ خیرہ کن جمال و جلال ۔ میزبان، مرتب اور متحمل ڈاکٹر نثار چیمہ کی کار میں سوار تھا ۔ رکنے کی درخواست کی ۔ عمارت کے مکین اتفاق سے ان کے شناسا تھے۔ مزید اتفاق یہ کہ ٹھیک اسی وقت پورچ میں وہ داخل ہوئے تھے ، جب دستک دی ۔ خندہ پیشانی سے وہ پیش آئے اور بتایا کہ 1935ء میں ان کے دادا نے یہ عمارت تعمیر کی تھی۔ دو رویہ ، دو منزلہ ، بیس پچیس کمرے ۔ دائیں ہاتھ کشادہ صحن میں وسیع و عریض باورچی خانہ اور ملازمین کے مکانات۔ مکان کاہے کو تھا، ایک تصویر تھی جو انگریز آرکیٹیکٹ نے سرخ اینٹوں سے خاکستری زمین پہ گاڑ دی تھی کہ آنے والی نسلیں اس پہ حیرت کیا کریں ۔ بشاشت کے ساتھ مالک مکان نے بتایا کہ تعمیر میں موسم کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ بلند چھتوں والے گھر میں گرما اور سرما کی شدت نہیں اترتی ۔ برسات دلکش ہوتی ہے اور بہار دھوم مچاتی ہوئی آتی ہے۔ پہلو سے جائزہ لیا تو میں چونک اٹھا ۔ سارے کے سارے روشن دان خستہ حالت میں تھے ۔ فوراً ہی یہ خیال ذہن میں آیا کہ ممکن ہے مکین آسودگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں ، جو ان کے اجداد کو حاصل تھی۔ یہ معلوم کرنے کی کوشش میں کہ خاندان کے مالی حالات کیسے ہیں ، میں نے ان سے پوچھا کہ ان کا شغل کیا ہے ۔ اس پر وہ ایک شرمیلی سی ہنسی ہنسے اور یا للعجب میرا میزبان بھی ۔ شرماتے‘ لجاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اجداد کچھ زرعی زمین چھوڑ گئے تھے ۔ اب وہ شہر کا حصہ ہو چکی ۔ بیچا کرتے ہیں ، بسر کرتے ہیں ۔ گستاخی تھی مگر اس جلیل گھر کی کہنگی پہ ترس کھا کر عرض کیا : چوہدری صاحب چند ہزار روپے ان روشن دانوں پہ صرف کر دیے ہوتے ۔ کچھ رنگ و روغن پر ۔
برہم ہونے کی بجائے شریف آدمی کچھ اور شرمایا اور کہا : مدتوں بعد اب ایک کاروبار کا آغاز کیا ہے ۔ گاڑیوں کی ایک ایجنسی لی ہے ۔ کوئی دن میں انشاء اللہ تلافی کر دیں گے ۔ مالِ مفت دلِ بے رحم کا محاورہ وزیر آباد کے چوہدری پر صادق نہیں آتا ۔ ان کے اجداد کی کمائی تھی ، پاکیزہ اور طیب ۔ جس طرح چاہتے ، خرچ کرتے ۔ ایک نکتہ مگر اس دن آشکار ہوا کہ آسان کمائی زندگی کی ساری رعنائی اور ہمہ ہمی چاٹ جاتی ہے ۔ رہا مالِ مفت تو تباہی و بربادی کے سوا اپنے ساتھ وہ کیا لائے گا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا : بہترین کمائی انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ آدمی کی سرشت میں مگر لالچ اور خود غرضی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ وہ سمیٹنا چاہتا ہے ۔ فرمایا: ابنِ آدم کے پاس اگر سونے کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری کی آرزو کرے گا ۔ فرمایا: صرف قبر کی مٹی ہی لالچی کا پیٹ بھر سکتی ہے اور یہ فرمایا: الغنا غن النفس ۔ غنی وہ ہے ، جس کا دل بے نیاز ہو جائے ۔ 
بے نیازی خالق کا وصف ہے ۔ استثنا کے طور پر چند لوگ ہی اس سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں ، بندگی کی سطح پر ۔ مگر ایسا بھی کیا کہ اچھا بھلا جیتا جاگتا آدمی بھکاری بن جائے ۔ خلقِ خدا کے خون پہ پلتا رہے ۔ اجتماعی زندگی کا طرفہ تماشا یہ ہے کہ اکثر بادشاہ بھکاریوں سے بھی بدتر ہوتے ہیں ۔ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے کوہ مری میں اپنے مکان پر سرکاری خزانے سے 45 کروڑ روپے خرچ کر ڈالے اور جاتی امرا میں اپنے گھر کی چار دیواری پر 70 کروڑ ۔ استنبول سے آسٹریا کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے سلطان سلیم اوّل کے سپاہی نے ، کھیت سے شلغم اکھاڑ لیا تھا ۔ بادشاہ نے اسے عبرت کا نشان بنانے کا حکم دیا؛ درآں حالیکہ ترک اپنے سپاہیوں کی عزتِ نفس کا خیال بہت رکھتے تھے ۔ نوشیرواں عادل سے منسوب ہے کہ اگر کوئی بادشاہ نمک کا ایک ٹکڑا مفت میں لے گا تو اس کا لشکر گائوں کے گائوں ہڑپ کر جائے گا ۔ 
سپریم کورٹ سے اب خبر آئی ہے کہ نواز شریف کا ایک طنبورہ سرکاری ٹی وی کے 27 کروڑ ڈکار گیا ۔ خیر اس کی تصدیق اور تفصیل ابھی باقی ہے ۔ کوئی دن میں پتہ چلے گا کہ یہ اس کی خیرہ کن صلاحیت کو خراجِ تحسین تھا یا محض نقب زنی کی ایک واردات ۔ مزاح نگار تو موصوف یقینا ہیں اور کسی قدر مقبول بھی۔ چند مقبول ڈرامے بھی ٹی وی کے لیے لکھے تھے لیکن کیا وہ انتظامی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ؟ کیا امانت و دیانت نام کی کوئی چیز بھی ان میں پائی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے ایک اور صاحب پی ٹی وی کے ایم ڈی مقرر ہوئے تھے ۔ ایک دن پتہ چلا کہ اپنی ذات انہیں ادارے سے زیادہ عزیز ہے ۔ مرکزی حکومت نے ان سے نجات پائی تو شہباز شریف نے اپنا مشیر مقرر کر لیا ۔ کہا جاتا ہے کہ دس سے پندرہ لاکھ ماہوار تنخواہ پاتے رہے ۔ گرامی قدر کے والد میرے ذاتی دوست تھے ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں سرسری سا ذکر کیا تو مجھ پر وہ دھاڑے ۔ کہا : رشتہ و تعلق ہی کا کچھ خیال کیا ہوتا ۔ ٹالنے کے لیے میں نے کہا : بھتیجے پھر کبھی بات کروں گا ۔ مروّت کو انہوں نے کمزوری سمجھا ۔ ایک پیغام مجھے بھیجا ، بدتمیزی کا ارتکاب کیا اور دھمکیاں دیں ۔ کہا : اخلاقی جرات سے تم محروم ہو ورنہ میرا سامنا کرتے ۔ آنجناب کے کارنامے معلوم تھے۔ مزید بھی معلوم کر لیے جاتے مگر مروّت ، مگر مجبوری ۔ موسم بدلا تو حکومت کو انہوں نے خیرباد کہا اور اب اس طنطنے کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں ، گویا ٹیپو سلطان کے لشکر سے بچھڑے ہوئے دلاور ہوں ۔ نجم سیٹھی کو نوازا گیا ۔ کرکٹ سے کبھی کوئی تعلق ان کا نہیں تھا ۔ اب وہ کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں اور اربوں روپے کا بجٹ ان کے رحم و کرم پر ہے ۔
ایک نجم سیٹھی، عطاء الحق قاسمی اور محمد مالک ہی کیا ۔ ایسے ہزاروں لاکھوں آدمی ہمارے لہو پہ پلتے ہیں۔ سٹیل مل، واپڈا، ریلوے ، پی آئی اے ، صرف سرکاری کارپوریشنوں میں پانچ سو ارب روپے سالانہ اس لیے لٹا دئیے جاتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسری سیاسی حکومت نے جن لوگوں کو نوکریاں عطا کیں ، وہ خرم و شاد رہیں ۔ رہی خلقِ خدا تو وہ کب آسودہ تھی کہ اب اسے آسودہ رکھا جائے ۔
حکمران دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک امانت و دیانت اور ایثار کے پیکر ، دوسرے وہ جو گناہوں کی سزا کے طور پر مسلط کیے جاتے ہیں ۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ جب یہ عذاب کسی قوم پر نازل ہو تو دعائیں باریاب نہیں ہوتیں ۔
فرمایا کہ نجات صرف بھلائی کی ترغیب اور برائی کو روک دینے میں ہوتی ہے۔ بھلائی کی ترغیب دینے اور برائی کو روک دینے والے کہاں ہیں ؟

 

سٹیل مل، واپڈا، ریلوے ، پی آئی اے ، صرف سرکاری کارپوریشنوں میں پانچ سو ارب روپے سالانہ اس لیے لٹا دئیے جاتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسری سیاسی حکومت نے جن لوگوں کو نوکریاں عطا کیں ، وہ خرم و شاد رہیں ۔ رہی خلقِ خدا تو وہ کب آسودہ تھی کہ اب اسے آسودہ رکھا جائے ۔
حکمران دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک امانت و دیانت اور ایثار کے پیکر ، دوسرے وہ جو گناہوں کی سزا کے طور پر مسلط کیے جاتے ہیں۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ جب یہ عذاب کسی قوم پر نازل ہو تو دعائیں باریاب نہیں ہوتیں ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved