تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     03-02-2018

کوئی راہ نہیں، اس راہ کے سوا!

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال کے کئی جوابات ہیں۔ ہر کوئی اپنے خیالات اور نظریات کے مطابق اس کا جواب دیتا ہے۔ کوئی غربت کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتا ہے، تو کوئی جہالت کو بنیادی مسئلہ سمجھتا ہے۔ کسی کے نزدیک پاکستان کا بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کوئی بڑھتی ہوئی آبادی، بد انتظامی، دہشت گردی، تعلیم و صحت کے مسائل کو اولیت دیتا ہے۔ لیکن ایک مسئلہ ایسا بھی ہے، جس کی سنگینی پر دانشوروں میں بڑے پیمانے پر اتفاق ہے۔ وہ ہے قانون کی حکمرانی کا فقدان۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر غربت، جہالت، بیماری جیسے سنگین مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ 
انسانی تاریخ میں قانون کی حکمرانی کا تصور بہت پرانا ہے۔ ایک روایت کے مطابق حکومت چلانے کے لیے پہلا مجموعۂ قانون قدیم بابل میں شاہ حموربی کے زمانے میں 1750 قبل مسیح کے قریب قریب لکھا گیا۔ یہ قانون کی حکمرانی کی طرف چلنے یا سوچنے کا بہت ہی ابتدائی قدم تھا۔ یہ تضادات سے بھرپور قانون تھا، جو آج کے قانون کی حکمرانی کے تصورات سے متصادم تھا۔ یہ آنکھ کے بدلے آنکھ والا قانون تھا، مگر اس کا اطلاق اس وقت کے انسان کے سماجی رتبے کے مطابق تھا۔ اگر طبقہ اشرافیہ کا کوئی فرد عام آدمی کی آنکھ پھوڑ دیتا تو شاید معمولی جرمانے پر اس کی جان چھوٹ جاتی، لیکن اگر وہ یہی کام طبقہ اشرافیہ کے کسی فرد سے کرتا تو اس کی سزا آنکھ کے بدلے آنکھ ہوتی۔ چنانچہ یہ کسی ریاست یا انسانی سماج کو قانون کے تابع لانے کا آغاز ضرور تھا، مگر یہ قانون سب کے لیے برابر نہیں تھا، اور نہ قانون کے لیے سب برابر تھے۔ قانون کی حکمرانی اور قانون کے مطابق حکومت چلانے کا تصور کئی ارتقائی مراحل سے گزرتا ہوا ایتھنز تک پہنچا۔ یہاں یہ قانون سقراط جیسے فلسفی کے خلاف استغاثہ اور سزا کے لیے اشرافیہ کا ہتھیار بنا۔ اسی طرح رومن لا میں قانون کی حکمرانی سے مراد صرف صاحب جائیداد اور اعلیٰ طبقات کی حفاظت تھی۔ مگر یہ قانون آگے چل کر بہت سے یورپی قوانین کی بنیاد بنا۔ انگلستان میں میگناکارٹا‘ قانون کی حکمرانی کے ابتدائی تصورات کو واضح کرنے کا باعث بنا، مگر کئی صدیوں تک یہ اشرافیہ، بادشاہوں اور بالا دست طبقات کے تحفظ تک محدود رہا۔ بیسویں صدی میں کہیں جا کر قانون کی حکمرانی کے تصورات پوری طرح واضح ہونا شروع ہوئے۔ خوش قسمتی سے ہمارے زمانے میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ قانون کی حکمرانی سے مراد وہ نظام ہے، جس میں کسی ریاست کا ہر فرد، ہر طبقہ، اور خود ریاست قانون کی نظر میں برابر ہو، اپنے آپ کو قانون کے تابع تصور کرے، اور اس کے سامنے جواب دہ ہو۔ 
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی تاریخ بڑی متلاطم اور پُرآشوب رہی ہے۔ یہاں تاریخ کے بیشتر ادوار میں طاقت و اختیار‘ اشرافیہ کے ہاتھوں میں رہے ہیں۔ عوام کا کردار مزاحمتی یا مجہول رہا ہے۔ اشرافیہ نے قانون اور قانون کی حکمرانی کو اپنے مفادات اور منشا کے مطابق استعمال کیا۔ آئین‘ جو کسی ملک کی سب سے بنیادی اور مقدس دستاویز ہوتی ہے، کی زیادہ اہمیت محسوس نہیں کی گئی۔ یہاں تو ایسے حکمران بھی گزرے، جنہوں نے ملک کے آئین کو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا کہا۔ یا پھر اسے جوتی کی نوک پر رکھنے کی بات کی۔ قانون کی حکمرانی کے نام پر یہاں بہت لا قانونیت ہوئی۔ ملک پر کئی بار کالے قوانین مسلط کیے گئے۔ انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں۔بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں پر پہرے بٹھائے گئے۔ حکمرانوں کے ان اقدامات نے ملک کو معاشی پسماندگی اور سماجی فرسودگی کی انتہا تک پہنچا کر چھوڑا۔
دنیا میں آج جتنے ترقی یافتہ اور آسودہ حال ملک ہیں، ان میں اگر کسی ایک قدر مشترک کو ڈھونڈا جائے تو وہ قانون کی حکمرانی ہے‘ اور جس ملک میں سب سے زیادہ قانون کی حکمرانی ہے، اس میں سب سے زیادہ آسودگی ہے۔ پُرمسرت اور اطمینان بخش زندگی ہے۔
جس ملک میں سب سے کم قانون کی حکمرانی ہے، اس میں نا صرف سب سے زیادہ غربت ہے، بلکہ سماج میں خوف، دہشت اور بے چینی ہے۔ کسی ملک میں قانون کی حکمرانی ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ بالکل اسی طرح لگایا جا سکتا ہے، جس طرح کسی ملک میں بے روزگاری یا تعلیم جیسی چیزوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں کچھ عالمی تنظیموں اور فورمز نے قانون کی حکمرانی کو بنیاد بنا کر دنیا کے ایک سو دو ممالک کی فہرست بنائی۔ یہ فہرست ان ممالک کے ہزاروں عام لوگوں کے سروے اور ان کے قانونی ماہرین کی آرا پر مشتمل ہے۔ اس سروے کے دوران لوگوں سے حکومتی اور انتظامی معاملات کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ ان سوالات کے جوابات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ملک میںکرپشن، بدعنوانی، رشوت اور سفارش کی شرح کیا ہے۔ ملک میں بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی صورتحال کیا ہے، کاروبار و تجارت کے بارے میں قواعد و ضوابط کیسے ہیں۔ اس طرح جو فہرست تیار ہوئی ہے، اس میں پہلے پانچ ممالک میں بالترتیب ڈنمارک، ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور نیدرلینڈ آتے ہیں۔ آخری پانچ ممالک میں پاکستان، کمبوڈیا، زمبابوے، افغانستان اور وینزویلا آتے ہیں۔ 
فہرست میں موجود پہلے پانچ ممالک بنیادی طور پر فلاحی ریاستیں ہیں۔ ان ملکوں میں قانونی کی حکمرانی کا تصور اتنا راسخ ہے کہ یہ ان کا طرز زندگی بن چکا ہے۔ یہاں پولیس عوام کی خادم اور محافظ ہے۔ عدالتیں آزاد اورغیر جانب دار ہیں۔ عوام آزاد ہیں۔ شہری آزادیوں پر کوئی قدغن نہیں۔ کاروباری اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے لیے ایک سازگار ماحول میسر ہے۔ حکومتیں قواعد و ضوابط اور آئین میں درج اختیارات کے مطابق اپنے روزمرہ کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ آخری پانچ ملکوں کے اندر موجود صورت حال اس کے برعکس ہے۔ ان ملکوں کی صورت حال یہ کہ کہیں جنگ ہے۔ کہیں خانہ جنگی ہے۔ کہیں جبر ہے، اور کہیں لاقانونیت ہے، بھوک، ننگ اور کرپشن ہے۔ 
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے فقدان کا ایک واضح اظہار کرپشن ہے۔ یہ ایک سنگین روگ ہے، جو زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر چکا ہے۔ کل تک پاکستان میں حکمران، بااثر طبقات اور اشرافیہ قانون سے بالاتر تصور کیے جاتے رہے ہیں؛ چنانچہ یہ لوگ بلا خوف و خطر معاشی بدعنوانی کا ارتکاب کرتے رہے۔ انتظامی سطح پر نااہلی کا ثبوت دیتے رہے، اور کئی معاملات میں بد دیانتی سے کام لیتے رہے۔ سرکاری خرید و فروخت اور ٹھیکوں میں کمیشن کی وصولی ہو، یا سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ، ناجائز مراعات کا حصول ہو، یا سرکاری زمینوں اور پلاٹوں کی ناجائز الاٹمنٹ، مالی بدعنوانی، رشوت، سفارش اور اقربا پروری سے یہاں بڑے پیمانے پر قانون کی حکمرانی کا مذاق اڑایا گیا۔ 
پاکستان میں اشرافیہ کی سطح پر پائی جانے والی کرپشن گزشتہ کچھ عرصے سے موضوعِ گفتگو ہے۔ اس پر سرخیاں لگ رہی ہیں۔ بریکنگ نیوز بن رہی ہیں۔ مگر نچلی سطح کے انتظامی معاملات میںکرپشن کا سنگین مسئلہ ابھی تک اس سطح پر زیر بحث نہیں آیا۔ نچلی سطح پر عام آدمی کی زندگی رشوت اور سفارش کے گرد گھومتی ہے۔ یہاں رشوت کے بغیر کوئی فائل کھلتی ہے، نہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے۔ یہ فائل خواہ کسی نچلی عدالت میں دائر ہونے والی عرضی ہو، یا پھر کسی پرمٹ یا لائسنس کے لیے درخواست ہو۔ سرکاری اہل کاروں کی بے رحمی کا یہ عالم ہے کہ بقول شخصے وہ عام آدمی سے پیدائش اور موت کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے بدلے نذرانے کی توقع رکھتے ہیں۔ اس طرح ہم کرپشن کے دور میں زندہ ہیں۔ کرپشن ہمارا کلچر بن گئی ہے۔ یہ لاقانونیت کا کلچر ہے۔ قانون کی حکمرانی کے فقدان کا اظہار ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی کے راستے پر گامزن ملکوں کا تاریخی تجربہ یہی ہے کہ قانون کی حکمرانی معاشی اور سماجی ترقی کی پہلی شرط ہے۔ یہ شرط پاکستان سمیت ہر اس ملک کے لیے ناگزیر ہے، جس نے معاشی اور سماجی پسماندگی سے نکل کر ترقی اور خوشحالی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ آگے کی طرف جانے کے لیے کوئی متبادل راستہ موجود نہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved