اگر آپ سے دنیا کی سب سے طاقتور چیز کا نام پوچھا جائے تو آپ کیا جواب دیں گے ؟ میں انسانی دماغ کا نام لوں گا۔ یہ دنیا کی طاقتور ترین مشین ہے ۔ یہ اس قدر طاقتور ہے کہ خود سے 100گنا زیادہ وزن اور قوت رکھنے والے ہاتھی پر سواری کر لیتا ہے ۔ اس جانور پر ، جو اس پہ پائوں رکھ کر اس کی ہڈیاں پیس سکتا ہے ۔ جس کی سونڈ کا ایک بھرپور وار اس کی گردن توڑ سکتا ہے ۔ کیا کبھی کوئی دوسرا جاندار یہ سوچ سکتا تھا کہ لوہے کا ایک پنجرا بنا کر شیر جیسے درندے کو اس میں قید کر دے ۔اور تو اور وہ ایک جانور یعنی ہاتھی پر بیٹھ کر دوسرے درندے یعنی شیر کا شکار کرتا ہے ۔ دوسرے سب جانوروں کواس نے چڑیا گھر میں مقفل کر رکھا ہے ۔ کبھی کسی نے سوچا ہوگا کہ دنیا کے زہریلے ترین سانپ کا زہر نکال کر اس کا تماشادیکھا جائے ۔ انسان خود سے 2ہزار گنا زیادہ وزن اور قوت رکھنے والی نیلی وہیل کو شکار کر لاتا ہے اور وہ بھی اس کے گھر یعنی پانی میں اتر کے ۔ اس کے باوجود کہ انسان ایک ڈیڑھ منٹ سے زیادہ سانس نہیں روک سکتا۔ اس کا شکار اپنی بے پناہ قوت کے علاوہ ڈیڑھ گھنٹے تک سانس لیے بغیر پانی کے نیچے تیر سکتا ہے ۔ ایک چھوٹا سا انسانی بچہ قوی ہیکل جانوروں کا ایک پورا ریوڑ ہانک لاتا ہے ۔ وہ بدمستی کرنے والے جانوروں کو چھڑی سے مارتا ہے ۔ انہیں پلٹ کر حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ان کی ایک بھرپور ٹکر اس بچّے کو ہلاک کر سکتی ہے لیکن نفسیاتی طور پر وہ اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں ۔ انسان پر رکھنے والے ، اڑنے والے جانداروں کا شکار کرتاہے ۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک جاندار دوسرے جانداروں کو پالنے لگا ہے کہ ضرورت پڑنے پر انہیں ذبح کر کے کھا سکے ۔ کرئہ ارض کی تاریخ میں پہلی بار ایک جاندار دوسرے جاندار کو دوہ کر اس کا دودھ نکال لیتاہے ورنہ کون سی مادہ اپنے بچّے کا دودھ کسی اور کو پینے دیتی ہے؟ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے زمین پر گرنے والا ایک دمدار ستارا ڈائنا سارز کو ہمیشہ کے لیے ختم نہ کر دیتا تو انسان ہی یہ کارنامہ سر انجام دیتا ۔ یا تو وہ اسے پالتو بنا لیتا یا شکار کر کے ختم کر دیتا ۔ ٹینک کو اڑا دینے والا ایک گولہ اس کے لیے کافی ہوتا ، میزائل کی نوبت ہی نہ آتی ۔
کبھی کسی اور جاندار نے سوچا ہوگا کہ مٹی کو پکا کر اس کی اینٹ بنا لی جائے ۔ ایک اینٹ دوسری اینٹ سے جوڑنے کے لیے پتھر پیس کر سیمنٹ بنایا جائے۔ مٹی اور پتھر سے بنی ان اینٹوں اور سیمنٹ کو جوڑ کر، لوہے اور ایلومینیم کو اکٹھا کر کے اس نے فلک شگاف عمارتیں بنائیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اوزار بنائے۔ ان اوزاروں سے وہ مشکل ترین کام کیے جو ہمارے نازک ہاتھ نہ کر سکتے تھے۔ کرّئہ ارض کی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کبھار چھڑی استعمال کرنے کے علاوہ کوئی جاندار پیچیدہ اوزارنہ بنا سکا۔ انسان نے سینکڑوں ہزاروں ٹن وزنی سامان اٹھانے کے لیے فولاد کی کرین بنائی ۔ ایک پورے شہر جتنے بڑے بحری جہاز بنائے ۔ پانی کی قوت کو استعمال کیا ۔ پانی اور ہوا پر کششِ ثقل کی قوت کے فرق کو استعمال کرتے ہوئے آبدوز بنائی ۔ دنیا کا واحد جاندار جس نے تار اور شعاعوں کے ذریعے ڈیٹا منتقل کرنا شروع کیا۔ جو دنیا کے ایک حصے میں پیش آنے والا واقعہ کیمرے اور انٹرنیٹ کی مدد سے دوسروں کو براہِ راست (Live)دکھا سکتاہے ۔ بھلا اور کون ہے جو لوہے کا راکٹ بنا کر اس میں زمین کے نیچے سے نکالا ہوا ایندھن جلا کر دوسرے سیاروں تک پہنچا، چاند پہ اترا ۔ بھلا کائنات میں کبھی کسی مخلوق نے اپنے سولر سسٹم سے باہر کوئی مشین بھیجی ہوگی ؟ انسان نے بھیجی ہے ۔ اس کا نام وائیجر ون ہے اور وہ نظامِ شمسی کی حدود سے باہر نکل چکی ہے ۔
آج اگر سوچیں تو کس قدر حیرت ہوتی ہے ۔ لوہے ، بارود، سلیکان ، مختلف عناصر کو استعمال کرتے ہوئے میزائل اور اس پر لگا ہوا کمپیوٹر ۔ اب اسے کرّئہ ارض ہی نہیں بلکہ اس کی حدود سے باہر نظامِ شمسی کے کسی بھی سیارے تک بھیجا جا سکتا ہے ۔ ایک سیارے کے اندر پیدا ہونا، اس میں موجود عناصر سے اڑنے والی چیزیں بنانا اور پھر اڑ کر اس کی حدود سے باہر نکل جانا ۔کیا یہ انتہائی حیرت انگیز نہیں ؟
انسان کی اس عظمت کا راز کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر مفید عنصر کی خصوصیات جان کر اس سے کام لیتا ہے ۔ یہ عناصر کہاں سے آئے ؟یہ انسان کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اس زمین میں موجود تھے۔ کھانے پینے، اوڑھنے ، رابطہ کرنے اور سفر کرنے کے لیے درکار ہر عنصر اس زمین میں پہلے ہی سے موجود تھا ۔ نسان کے پاس اس قدر عالیشان دماغ کہاں سے آیا، جس سے اس نے ان سب چیزوں سے فائدہ اٹھانا شروع کیا ۔ یہ دماغ پیدائشی طور پر اس کے پاس موجود تھا ۔ انسان جب اردگرد دیکھتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس زمین پر زندگی کے تمام تر لوازمات پہلے سے موجود تھے ۔ جب وہ دوسرے سیاروں کو دیکھتا ہے تو وہاں دھول اڑ رہی ہے ۔ دوسری چیزیں کجا، وہاں جانداروں کے سانس لینے کے لیے آکسیجن تک تو موجود نہیں ۔
گر آپ سے پوچھا جائے کہ دنیا کی سب سے کمزورشے کیا ہے ۔میں کہوں گا ، انسانی دماغ ۔ بھلا کیوں ؟ اس لیے کہ یہ اپنی خواہشات کا غلام ہے۔ اپنے اندر موجود جذبات کا غلام ہے ۔ بڑے بڑے جنرل اپنی کسی چھوٹی سی خواہش کے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں ۔ عالمی طاقتوں کے صدور اپنی عادات کے غلام ہیں۔دنیا میں آپ جہاں بھی دیکھیں گے، انسانی دماغ انسانی دماغ سے لڑتا نظر آئے گا۔ یہ اپنے دشمنوں پر تو غضب برسائے گا ہی ، اپنے دوستوں کی کم عقلی کی بات پر بھی مشتعل ہو جائے گا ۔ اگر انتقام کا جذبہ اس پہ غالب آجائے، یہ پوری زندگی ، اپنا تمام وقت ، اپنی ساری توانائی انتقام کی نذر کر دے گا۔ یہ ہمیشہ وقتی جذبات کے تحت ردّعمل دے گا۔ یہ ہمیشہ نفس کی عادات کے مطابق اپنا ردّعمل دے گا ۔ اسے نئی مرسڈیز خرید دیں ، اسے پڑوسی کی بی ایم ڈبلیو کھلے گی ۔ اگر یہ غربت کا مارا ہوا ہو تو یہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے لڑے گا۔اسی غربت کے مارے کو اگر مال و اسباب سے بھرا ہوا ایک جزیرہ دے دیا جائے تو یہ کبھی اس پر قناعت نہیں کرے گا بلکہ دو جزیروں والے پڑوسی سے حسد کرے گا ۔ یہ کبھی اپنی ترجیحات کا درست تعین نہیں کر سکے گا۔ یہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مال جمع کرنے کی کوشش میں لگائے گا ۔ اپنا بہترین وقت، اپنی جوانی ، اپنی قوت ، اپنی دولت ، ان سب چیزوں کو مزید دولت جمع کرنے میں لگائے گا۔ یہ دوسرے کے پاس اپنے سے بہتر چیز دیکھ کر ہمیشہ حسد میں مبتلا ہو جائے گا۔ یہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھ کر شکر نہیں کرے گا بلکہ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ کر حسد ہی کرے گا ۔ یہ ہمیشہ اپنے ساتھ ہمدردی کرے گا۔ یہ کبھی علم کی نگاہ سے کائنات میں خدا کی نشانیاں دیکھتے ہوئے اس تک رسائی کی کوشش نہیں کرے گا۔
اور اگر یہ ایسا کرے تو پھر یہ سب سے ممتاز ہو جائے گا۔