اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا آئین اظہارِ رائے کی آزادی کو ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرتا اور اس کی ضمانت دیتا ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس نے اس کی حدود کا تعین کر رکھا ہے۔ اس کی دفعہ 19 کے الفاظ ملاحظہ ہوں: ''اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم (کے ارتکاب) یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہو گا اور پریس کی آزادی ہو گی‘‘... اس دفعہ میں طے کی گئی حدود کے حوالے سے ریاست نے مختلف قوانین بنا رکھے ہیں، جن کے تحت مقدمات درج ہو سکتے اور سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ ان قوانین پر کتنا کتنا عمل ہو رہا ہے اور پاکستان کے اہلِ سیاست اور صحافت ان کا کس کس طرح مذاق اڑا رہے ہیں، اس کے لئے پی ایچ ڈی کا کوئی مقالہ تحریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے تقاضوں کی جس طرح دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، وہ ہر اس شخص پر واضح ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے دو آنکھیں عطا کر رکھی ہیں۔ پاکستانی سیاست اور صحافت کے بازار میں شاید ہی کسی کی عزت محفوظ ہو۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے، جسے بلا خوفِ تردید ''پبلک ٹائلٹ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے، جو چاہے اپنا نام ظاہر کئے بغیر یہاں آ کر غلاظت انڈیل سکتا ہے۔ جہاں جہاں اور جس جس کو آگ لگانا چاہے، لگا سکتا ہے۔
اگر بعض سیاسی رہنمائوں اور تبصرہ نگاروں کے الزام و دشنام کے ذخیرے مرتب کئے جائیں تو افریقہ کے تاریک جنگلوں میں رہنے والے ننگ دھڑنگ قبائلیوں کو بھی شرم آ جائے، لیکن پاکستان میں نہ انتظامیہ اپنا کام کر رہی ہے، اور نہ ہی عدلیہ شہریوں کو تحفظ دے پا رہی ہے۔ عدالتوں میں برسوں سے ہزاروں کیا لاکھوں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ دو، دو، تین تین نسلیں کچہریوں کے چکر لگا لگا کر نڈھال ہیں، لیکن اس طرف توجہ دینے کی کسی کو کم ہی فرصت ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کرنے والے ادارے ''پیمرا‘‘ کی طرف سے جب بھی کوئی نوٹس لیا جاتا ہے، کسی نہ کسی عدالت کی طرف سے حکم امتناعی جاری ہو جاتا ہے۔ ''پیمرا‘‘ حکام کے مطابق اس وقت کوئی پانچ سو سے زائد معاملات عدالتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز لائسنس لئے بغیر، محض حکم امتناعی کے سہارے چل رہے اور فضا کو آلودہ کر رہے ہیں۔ ہتک عزت کے مقدمات عدالتوں کی ترجیح میں شامل نہیں، پگڑی اچھالنے والے دندناتے پھرتے ہیں اور عدالتیں ان کے خلاف مؤثر کارروائی سے گریزاں ہیں۔ قانون نے جہاں جہاں مقدمات کی سماعت کی تکمیل کے لئے مدت مقرر کر رکھی ہے، وہاں وہاں اس کا منہ چڑایا جا رہا ہے، حتیٰ کہ اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ بھی کسی زیریں عدالت کو ایک مقررہ تاریخ تک مقدمہ نپٹانے کی ہدایت دیں، تو اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے اس ''ڈیڈ لائن‘‘ کی خلاف ورزی پر شاذ ہی کبھی کوئی سزا دی گئی ہو؛ چنانچہ چیونٹی کی چال چلنے والے شیر بنے رہتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں معاونت فراہم کرنے کے لئے پرورش پانے والے وکلا حضرات بسا اوقات راستے کا پہاڑ بن جاتے ہیں اور انصاف کی راہ کھوٹی کرنے کو فرض منصبی گردان لیتے ہیں۔ انصاف کے ادارے ان کے لئے حصول زر کا ذریعہ بن چکے ہیں اور منصفوں کا ناطقہ بند کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جھوٹے مقدمات دائر کرنے والے پیشہ وروں کا تعاقب کوئی نہیں کرتا اور مفاد عامہ کے نام پر مقدمات دائر کرنے والے بلیک میلروں کی پکڑ کا بھی کوئی اہتمام نہیں ہے۔
اس ماحول میں اگر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نظامِ عدل کی اصلاح کی بات کر رہے ہیں اور عدالتی نظام کی خامیوں کو اجاگر کر رہے ہیں‘ تو وہ دلوں کو زبان دے رہے ہیں۔ ان کی بات توجہ سے سنی جا رہی ہے، اور رائے عامہ کو متحرک بھی کر رہی ہے، لیکن ججوں کی ذات یا ان کی شخصیت زیر بحث لائی جائے گی تو پھر معاملات کا رخ تبدیل ہوتا جائے گا۔ اصلاح اور بہتری کا نعرہ دم توڑ بیٹھے گا۔
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ کچھ عرصے میں دستور کی دفعہ 184(3) کی تشریح کرتے ہوئے اپنے اختیارات میں اضافہ کر کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے اجتماعی مفاد میں اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی معاملات کو بھی اپنے دائرہ کار میں شامل کر لیا ہے، جس سے قانونی اور سیاسی گتھیوں کو سلجھانے میں مطلوبہ مدد نہیں ملی۔ جب انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والے رہنما کو اقتدار سے الگ کرنے کے لئے ''اجتہادی بصیرت‘‘ سے کام لیا جائے گا تو پھر اس کے اثرات جذبات پر مرتب ہوں گے۔ اس دفعہ کے تحت کسی شخص کے خلاف کی جانے والی کارروائی کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی اور کسی بھی مہذب معاشرے میں وہ قانون فطری انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں سمجھا جاتا، جس میں اپیل کا حق نہ دیا گیا ہو۔ سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے مجرموں تک کو یہ موقع دینے کا فیصلہ صادر کر رکھا ہے۔ اس لئے 184(3) کے تحت جب انتہائی عدالت سے ابتدائی سماعت کے بعد حتمی فیصلہ صادر ہو گا، تو وہی صورت حال جنم لے گی جو ہمارے سامنے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فیصلوں پر نامناسب الفاظ میں تنقید ہو۔ گرہیں کھولنے کے نام پر مزید گرہیں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے غیر ذمہ دارانہ اظہار خیال کے الزام میں کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ سینیٹر نہال ہاشمی کوحوالۂ زنداں کر دیا گیا ہے۔ وہ پانچ سال کے لئے عوامی عہدہ رکھنے کے نااہل بھی قرار پائے ہیں۔ ان کی جس تقریر پر یہ کارروائی کی گئی ہے، کوئی ذی ہوش اس کی تائید یا تعریف نہیں کر سکتا۔ یقیناً اس کے الفاظ انتہائی قابل مذمت تھے اور ہیں۔ ان کی اپنی جماعت کی قیادت نے فوری طور پر انہیں جماعت سے نکال دیا تھا اور سینیٹ کی نشست خالی کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا، جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی۔ جن دوسرے حضرات (طلال اور دانیال) کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں، وہ بھی اپنے الفاظ و اعمال کے خود ذمہ دار ہیں، لیکن جہاں جج صاحبان ریمارکس دیتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھال نہ پاتے ہوں، وہاں سیاستدانوں کے لئے ''لغت ہائے حجازی‘‘ کی پابندی کیسے لازم ہو سکے گی؟ معاملے کو پھیلانے کے بجائے سمیٹنا اجتماعی مفاد میں ہو گا۔ فاضل چیف جسٹس اور ان کے رفقاء سے فراخدلی کے ساتھ معذرت قبول کرنے کی توقع رکھنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ اولین فرصت میں اظہار ندامت میں بھی کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔
عزیزہ مریم نواز توہین عدالت کے ساتھ ساتھ توہین پارلیمنٹ کی سزا بھی دلوانا چاہتی ہیں، لیکن یاد رہنا چاہیے کہ پارلیمنٹ نے اس کے لئے کبھی کوئی قانون نہیں بنایا۔ اب بھی پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں ایک دوسرے کے درپے ہیں۔ انہی کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف درخواست گزار بن کر عدالت پہنچے تھے اور اب بھی ایک دوسرے کو ''پولیس مقابلے‘‘ کی نذر کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ یہاں کوئی کسی کو کیسے سمجھائے کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں بھی ہوتی ہے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]