تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     04-02-2018

چپڑاسی کی نوکری کے لیے بھگدڑ

مدھیہ پردیش میں چپڑاسی کی نوکری کے لیے دو لاکھ 81 ہزار لوگوں نے عرضی لگائی ہے اور نوکریاں ہیں‘ کل 738! کیا محترم نریندر مودی اس موٹی بات کو بھی کبھی اپنے دل میںجگہ دیں گے؟ اور اس پر کچھ اپنے دل کی بات کہیں گے؟ اس بات کا مطلب کیا ہے؟ چپڑاسی کی سات‘ آٹھ سو نوکریوں کے لیے لگ بھگ 3 لاکھ نوجوان دوڑ پڑے ہیں‘ آخر کیوں؟ اسی لیے کہ ملک میں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ بھوکا پیاسا آدمی کیا کرے؟ اور کچھ نہیں تو چپڑاسی کی نوکری ہی جھپٹ لے۔ کم ازکم اس کا‘ بیوی اور بچوں کا پیٹ تو بھرے گا۔ یہ پریشانی اتنی بڑی ہے کہ چپڑاسی کی نوکری پانے کے لیے لوگ اپنی حیثیت‘ عزت واحترام‘ ذات برادری یعنی سب کچھ دری کے نیچے سرکانے کو تیار ہیں۔ ان تین لاکھ خواہشمندوں میں برہمن‘راجپوت اور بنیے بھی ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ بی اے، ایم بی اے اور لاء کے شاگر د (طالب علم)بھی ہیں۔ اتنا پڑھ لینے کے باوجود یہ لاکھوں نوجوان بے روزگار کیوں ہیں؟ کیا اس سوال پر ہماری سرکاروں نے کبھی سنجیدگی سے غورکیا؟ ہماری سرکاروں نے اپنی وزارتِ تعلیم کو ہیومن ریسورس (راجیو گاندھی کے زمانے سے) بنا دیا ہے لیکن انسانوں کے لیے وسائل جٹانے کے بارے میں کیا کیا ہے؟ انہوں نے آدمیوں کو ہی وسائل بنا دیا ہے۔ ذرا سوچئے‘جنہیں چپڑاسی کی نوکری بھی نصیب نہیں ہو گی‘ وہ نوجوان کیا کریں گے؟ کیا وہ بھاڑ جھونکیں گے؟ وہ بھاڑ جھونکنے لائق بھی نہیں۔ ہمارے لیڈروں کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ پس نوجوانوں کو ڈگریاں بانٹتے رہیے۔ ان کی ذہنی اور روحانی ترقی کرنی تو دورکی بات ہے‘ یہ تعلیم ان کا پیٹ بھرنے لائق بھی نہیں ہے۔ پھر ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ کوئی دو برس پہلے ریاست اتر پردیش کی حکومت نے ریاستی سیکرٹریٹ میں چپڑاسی کی 368 اسامیوں کا اشتہار دیا تو تب بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا تھا۔ اس وقت بھی نشست پر درخواست گزار کی اہلیت پانچویں پاس رکھی گئی تھی لیکن ان درخواستوں کی جانچ پڑتال کے دوران پتا چلا کہ ان اسامیوں پر پی ایچ ڈی کے حامل افراد بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔ 368 چپڑاسی کی اسامیوں کے لئے کوئی 23 لاکھ درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور ان میں 255 امیدوار پی ایچ ڈی، 24 ہزار 969 پوسٹ گریجویٹ تھے اور قریب ڈیڑھ لاکھ سے زائد امیدواروں نے گریجویشن کر رکھی تھی۔ انتظامیہ خود پریشان ہو گئی کہ اب کیا کیا جائے۔ پھر اتنی بڑی تعداد میں آنے والی درخواستوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب یہ اسامیاں صرف انٹرویو کی بنیاد پر ہی پُر کی جائیں گی۔
سارے چنائو ایک ساتھ ہوں 
صدر اور وزیراعظم نے کہا ہے کہ لوک سبھا اور ودھان سبھائوں کے چنائو ایک ساتھ ہوں۔ اگر ایسا ہو جائے تو نریندر مودی کا نام بھارت کی تاریخ میں ضرور درج ہو سکتا ہے۔ صدر اور وزیراعظم تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ تاریخ کے برآمدوں میں ان کے نام کہاں گم ہو جاتے ہیں‘ کسی کو پتا نہیں چلتا لیکن ایسے لوگوں کے نام‘چاہے وہ ان کرسیوں کو بھریں یا نہ بھریں‘ تاریخ ہمیشہ یاد رکھتی ہے‘ جو بنیادی تبدیلی کا تصور دیتے یا اس حوالے سے کوئی فعل سر انجام دیتے ہیں۔ سبھی چنائو کو ایک ساتھ کروانے کی پیشکش رکھ کر مودی نے یہی کام کیا ہے۔ اگر سبھی ودھان سبھائوں اور لوک سبھا کے چنائو ایک ساتھ ہوں تو ملک کے کئی فائدے ہیں۔ پہلا: پانچ سال میں صرف پندرہ بیس دن ایسے ہوں گے‘جب لیڈر لوگ سرکاری کام کاج میں ڈھیل دیں گے۔ ابھی تو وزیراعظم کے ساتھ ساتھ وزرا اور وزرائے اعلیٰ کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی چنائوی دنگل میں لگاتار خم ٹھونکتے رہیں‘ جیسے کہ گجرات میں ابھی ابھی ہوا۔ اس برس آٹھ صوبوں میں انتخابات ہیں۔ لیڈر لوگ حکمرانی کریں گے یا چنائو لڑیں گے؟ دوسرا: چنائوی دنگل چلتے رہنے کے سبب سیاسی طنز کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے‘جیسے کہ اتر پردیش اور گجرات کے چنائو کے دوران ہوا۔ اس طنز کی وجہ سے عام قانون سازی اور حکومت چلانے میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ تیسرا: جگہ جگہ ہونے والے چنائو کے سبب سرکار کو کافی فضول خرچی کرنا پڑتی ہے۔ 1952ء کے پہلے چنائو میں صرف دس کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے اور 2014ء کے چنائو میں 4500 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اگر سارے چنائو ایک ساتھ ہوں گے تو خرچ کم ہو گا۔
سارے چنائو ایک ساتھ کروانے کے لیے ہمارے یعنی بھارتی آئین میں ایک بنیادی ترمیم ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ‘ ہر ایک ودھان سبھا اور لوک سبھا پورے پانچ سال کام کریں گی۔ بیچ میں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔کوئی بھی سرکار تب تک مستعفی نہیں ہو گی ‘جب تک کہ نئی سرکار نہ بن جائے۔ یہ بات میں کئی برسوں سے کہتا رہا ہوں۔ اگر یہ قاعدہ ہمارے یہاں شروع ہو جائے تو ہمارے پڑوسی ممالک کو بھی اچھی نصیحت ملے گی۔ نیپال میں گزشتہ دس برس میں دس سرکاریں بدل چکی ہیں۔ ہمارے یہاں لوک سبھا کے چنائو 2019ء میں ہونے ہیں اور آٹھ دس ودھان سبھائوں کے 2018ء میں! اگر 2018ء میں ہی سبھی ودھان سبھائوں اور لوک سبھا کے چنائو ایک ساتھ کروا دیئے جائیں تو بھارت میں نئی تاریخ لکھی جا سکتی ہے؟ گجرات‘ اتر پردیش‘ پنجاب‘ گووا‘ اتراکھنڈ اور منی پور جیسے صوبوں کے ایم ایل ایز کو یہ اپنی جانب ظلم لگ سکتا ہے‘ کیوں کہ انہیں چنے ہوئے ابھی برس بھر بھی نہیں ہوا ہے لیکن ملک کے مفاد کی خاطر انہیں یہ خطرہ ضرور مول لینا چاہیے۔
دلی میں دکان بندی کا دنگل
دلی میں دکان بندی (سیلنگ) کو لے کر بڑا مزے دار دنگل چل رہا ہے۔ دلی میں تین مخصوص پارٹیاں ہیں۔ ایک‘ عام آدمی پارٹی‘ دوسری بی جے پی اور تیسری کانگریس! یہ تینوں پارٹیاں اپنے اپنے ووٹرز کو پٹانے میں لگی ہوئی ہیں۔ کوئی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ دلی کی ان دکانوں پر تالا لگ جائے‘ جو لوگوں کے گھروں سے چل رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایک کمیٹی بٹھا کر ان سب دکانوں کو بند کرنے کا حکم صادر کیا ہے‘ جو گھروں سے چل رہی ہیں۔ اس کمیٹی کا کہنا ہے کہ گھروں سے دکان چلانا قانون کی خلاف ورزی ہے‘ کیوں کہ اس کے سبب لوگ غیرقانونی تعمیرات کر لیتے ہیں‘ جو اڑوسی پڑوسیوں کے لیے تو تکلیف دہ ہوتی ہی ہیں‘ محلوں کے راستے بھی تنگ ہو جاتے ہیں۔ دکانوں پر ہونے والی چہل پہل سے مقامی بستیوں کا امن خراب ہوتا ہے۔ آلودگی بھی بڑھتی ہے۔ سپریم کورٹ کے دلائل ٹھیک ہیں لیکن برسوں سے چل رہی یہ دکانیں ان بستی والوں کے لیے بہت سہولیات والی بن گئی ہیں۔ دکاندار اور خریدار دونوں کو اس کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان دکانوں کو بند کرنے سے دلی کے لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم ہو سکتا ہے۔ اسی لیے بھی پارٹیاں اس سیلنگ کے خلاف ہیں لیکن مزہ دیکھئے کہ کجری وال سرکار الزام لگا رہی ہے کہ یہ کام نائب گورنر وفاقی سرکار کے اشارے پر کر رہے ہیں اور بھاجپا الزام لگا رہی ہے کہ یہ نوبت دلی سرکار کی لاپروائی کے سبب آئی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے لیڈروں اور کارکنان میں گزشتہ دنوں دھکا مکی بھی ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عآپ‘ بھاجپا اور کانگریس مل کر دلی کے کانداروں اور صارفین کی مدد کرتیں اور کوئی ایسا راستہ نکالتیں‘ جوکہ سپریم کورٹ کی منشا کا احترام کرتے ہوئے ووٹرز کے مفادات کا تحفظ بھی کرتیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved