تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-02-2018

بلّیاں‘ چوہے وغیرہ، لمز کی تقریب اور فاروقی

بلّی کی دُھلائی
ایک صاحب سڑک کنارے بیٹھے صابن لگا کر بلّی کو دھو رہے تھے کہ قریب سے ایک صاحب نے گزرتے ہوئے انہیں کہا کہ سخت سردی کا موسم ہے‘ اسے دھونا چھوڑ دو ورنہ یہ مر جائے گی۔ واپسی پر اُنہی صاحب نے دیکھا کہ بلی مری پڑی ہے اور وہ شخص اُداس اس کے پاس بیٹھا تھا۔ ''میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ اسے مت دھوو‘ یہ مر جائے گی‘‘ وہ صاحب بولے۔ ''یہ دھونے سے نہیں مری‘‘ وہ شخص بولا‘ یہ نچوڑنے سے مری ہے!‘‘
سمجھدار چوہا
چوہے نے بل میں سے سر نکالا تو وہاں پر موجود بلی بولی‘
''اُس بل سے نکل کر اُس بل میں چلے جائو اور یہ پانچ روپے تمہارے‘‘ بلی نے پانچ روپے کا کڑکڑاتا نوٹ اُسے دکھاتے ہوئے کہا‘ چوہے نے تھوڑی دیر غور کیا اور پھر بولا‘ ''فاصلہ تھوڑا ہے اور رقم زیادہ ہے‘ اس میں ضرور کوئی گڑبڑ ہے‘ اس لیے سُوری‘‘۔
بدقسمت چوہا
گھر والے رات کو بچی ہوئی روٹی چھت سے لٹکتے ہوئے چھینکے میں رکھ کر سو جاتے‘ صبح اُٹھ کر دیکھتے تو روٹی غائب ہوتی۔ بہت حیران ہوتے کہ دروازے کھڑکیاں بھی بند ہیں‘ تو یہ روٹی کون لے جاتا ہے۔ اُن میں سے ایک بزرگ نے کہا کہ آج رات پہرہ دے کر دیکھتے ہیں کہ یہ واردات کون کر جاتا ہے۔ چنانچہ سب بستروں میں پڑے دُبکے اور جاگتے رہے‘ حتیٰ کہ کونے میں ایک بل سے چوہا نکلا‘ چھینکے کے نیچے آ کر اُچھلا اور اونچے چھینکے میں سے روٹی لے کر پھر بل میں جا گھسا۔ اس بزرگ نے کہا‘ چھ فٹ اونچی چھلانگ لگانے میں بھی کوئی راز ہے‘ اس کے بل کو کھودا جائے۔ بل کو کھودا تو اس میں سے کپڑے کی بنی ہوئی چاندی کے روپوں سے بھری ایک تھیلی نکلی۔ چنانچہ دوسری رات انہوں نے پھر پہرہ دیا۔ اپنے مقررہ وقت پر چوہا نکلا۔ چھینکے کے برابر آ کر حسب معمول اُچھلا‘ لیکن ایک آدھ فٹ سے زیادہ اُوپر نہ جا سکا۔ اس نے بار بار کوشش کی لیکن ایک فٹ سے زیادہ اُوپر نہ جا سکا۔ اس پر وہ بزرگ چُوہے سے بولے‘ ''اب رہنے دو‘ جس چیز پر تم اُچھلتے تھے وہ ہم نے نکال لی ہے‘‘۔
بڑبولا طوطا
ایک صاحب طوطوں کی دکان پر طوطا خریدنے گئے تو دکاندار نے کہا کہ میرے پاس ایک بہت لاجواب طوطا ہے‘ لیکن اس کے گاہک زیادہ ہیں‘ اس لیے میں اسے نیلام کر کے بیچوں گا جو زیادہ بولی لگائے گا، طوطے کا مالک وہی بنے گا۔ چنانچہ کافی لوگوں کی موجودگی میں اُس نے بولی شروع کی تو جو رقم وہ بولتا‘ عقب سے اس سے دُگنی رقم کی آواز آتی۔ جب اس طرح بولی کی رقم کافی ہو گئی تو آخری بولی لگانے والے کو طوطا اُس نے دے دیا۔''یہ باتیں بھی کرتا ہے یا نہیں؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔تمہارا کیا خیال ہے‘ عقب سے بولی کون بڑھا رہا تھا! دکاندار نے جواب دیا۔
لمز کی تقریب
کل جس کا ذکر کیا تھا۔ وہ تقریب چونکہ میرے اعزاز میں تھی اس لیے بہت اچھی رہی۔ معین نظامی نے اپنی تقریر میں خاکسار کی تعریفوں کے پُل باندھے جس کے بعد ڈاکٹر ضیاء الحسن نے میری شاعری میں سے ایسی ایسی مثالیں نکال کر پیش کیں کہ خود مجھے بھی یاد نہیں تھا کہ میں نے یہ کچھ بھی کر رکھا ہے۔ اس کے بعد اظہارِ خیال کرنے والوں بلکہ والیوں میں انجم قریشی‘ رخشندہ نوید اور بینا گوئندی تھیں۔ کلامِ شاعر کے بعد سوال جواب کا سلسلہ تھا‘ میں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرا جی روزانہ ایک نظم لکھ کر سویا کرتے تھے چنانچہ میں انہی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کوشش کرتا ہوں اور کبھی بلکہ عام طور پر کامیاب بھی ہو جاتا ہوں۔ میں شعر کیوں لکھتا ہوں؟ یہ سوال ایسا ہی ہے کہ میں کھانا کیوں کھاتا ہوں۔ اس لیے کہ مجھے کھانے کی بھوک لگتی ہے‘ اسی طرح مجھے شعر کہنے کی بھی بھوک لگتی ہے اور بس۔
شمس الرحمن فاروقی
کلکتہ سے شاعر ندیم احمد کے مطابق شمس الرحمن فاروقی کا کہنا ہے کہ ظفر اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے نہ صرف اپنی شاعری کو بلکہ بہت سے دوسرے شاعروں کو حتیٰ کہ پوری جدید شاعری کو گمراہ کیا۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ ایک پوری شاعری کو گمراہ کرنے کا مطلب ہے شاعری کا پورا ماحول بدل دیا۔
اور‘ اب آخر میں حسب معمول خانہ پُری کے لیے غزل :
رکاوٹ سے روانی ہو رہا ہے
کوئی پتھر تھا‘ پانی ہو رہا ہے
کوئی سازش نہ ہو وہ دشمنِ جاں
ہمارا یارِ جانی ہو رہا ہے
زمیں کا رنگ تھا کچھ اور پہلے
سو‘ وہ بھی آسمانی ہو رہا ہے
نہ دایاں ہو رہا ہے اور نہ بایاں
سبھی کچھ درمیانی ہو رہا ہے
تری دُوری کے دوزخ سے نکل کر
کوئی جنت مکانی ہو رہا ہے
یہ دن بھی دیکھنا تھے زندگی میں
کہ لافانی بھی فانی ہو رہا ہے
بڑھاپا دُور ہے لیکن ابھی سے
جُدا رنگِ جوانی ہو رہا ہے
عمل کیا‘ اور کیا کرنا کرانا
یہاں سب کچھ زبانی ہو رہا ہے
ظفرؔ آگے نکلنے کی بجائے
مرا ہر کوئی ثانی ہو رہا ہے
آج کا مقطع
یہ خواب ہے تو یہ کہیں پہنچے بھی‘ اے ظفرؔ
یہ خون ہے تو اس کو بہا دینا چاہیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved