چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے بھارت کو ''سی پیک‘‘ جیسے تحفے سے نواز دیا گیا ہے لیکن ایک دن آئے گا جب نوازنے والوں کو احساس ہو گا کہ انہوں نے بھارت جیسے زہریلے سانپ کو دودھ پلا کر سخت غلطی کی۔ یہ مئی 2015ء کا پہلا ہفتہ تھا جب بھارت اور ایران نے خلیج عمان پر واقع چاہ بہار بندرگاہ کی ترقی اور بھارتی کمپنیوں کے ہاتھوں دو نئی برتھوں کی تعمیر کے منصوبے پر دستخط کئے تھے تاکہ اسے بڑے بڑے کنٹینروں اور دوسرے وسیع مقاصد کے لئے کارگو ٹرمینلز کے طور پر استعمال میں لایا جا سکے۔ اصل میں فوجی نقل و حمل کے علاوہ امریکی رضا مندی سے بھارت‘ ایران اور افغانستان کے درمیان فری ٹریڈ روٹ کے لئے یہ بندرگاہ استعمال میں لانے کی پہلی کوشش تھی۔ اپنے بھرپور دام میں لانے کے لئے بھارت نے مئی تا جولائی 2014ء ‘تیل کی ادائیگیوں کے لئے ایران کو 1650 ملین ڈالر اس وقت ادا کیے جب امریکہ سمیت اقوام متحدہ کی جانب سے اس پر لین دین کی سخت پابندیاں عائد تھیں لیکن یہ سب کچھ چونکہ پس پردہ امریکی ہدایات پر ہو رہا تھا اس لئے اقوام متحدہ سمیت سب نے آنکھیں اور زبانیں بند رکھیں۔ چاہ بہار کے منصوبے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جیسے ہی چین نے جنرل مشرف کے دور میں گوادر پر کام شروع کیا تو 2003ء میں اس وقت کے ایرانی صدر خاتمی اور بھارتی وزیراعظم واجپائی نے ہنگامی طور پر چاہ بہار کی تعمیر اور توسیع کے کام کا آغاز کر دیا لیکن ایران پر اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے کام کی رفتار کم رہی۔ پھر جیسے ہی جنرل مشرف کے دور میں سنکیانگ سے گوادر بندرگاہ کے راہداری منصوبے یعنی سی پیک پر کام کا آغاز ہوا (آج کہا جا رہا ہے کہ سی پیک نواز شریف کارنامہ ہے لیکن میں یہ بات پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں) تو بھارت نے پابندیوں کے باوجود چاہ بہار کی تعمیر پر پھر سے کام شروع کر دیا اور 2014ء میں اس منصوبے کے لئے ایران کو مزید 85 ملین ڈالر دینے کی منظوری دے دی۔
بھارت کی زیرِ نگرانی رہنے والی چاہ بہار بندرگاہ کی حدود پاکستان کی مشہور زمانہ گوادر کی اس بندر گاہ سے زیا دہ دوری پر نہیں ہے جس کی تعمیر کی تمام ذمہ داری چینی حکومت کے سپرد ہے اور جو بھارت، امریکہ سمیت بدقسمتی سے بعض دوست ممالک کو بھی بری طرح کھٹک رہی ہے۔
چاہ بہار پر بھارت کا یہ موقف ہے کہ وہ اس راستے کو افغانستان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن اس منصوبے پر پاکستان کی یہ تشویش بجا ہے کہ بھارت افغانستان کے امور میں نہ صرف مداخلت کر رہا ہے بلکہ وہ ان کوششوں میں ہے کہ پاکستان کو دو سرحدوں پر گھیرا جائے اور یہ بندرگاہ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ دراصل بھارت کو پاکستان کی سالمیت پر حملہ کرنے کے لئے ایک نیا محاذ دینے کے مترادف ہے اور جنگ کی صورت میں بھارت خلیج ہرمز میں واقع پاکستان کی بندرگاہ پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ تمام منصوبہ امریکی منظوری کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ پاکستان نے جب انتہائی اعلیٰ سطح پر ایرانی حکومت سے درخواست کی کہ بھارت سے بھی کم تر شرائط پر چین اور پاکستان مشترکہ طور پر چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر و ترقی کے لئے ایران کے مجوزہ منصوبے کے عین مطابق‘ کام کرنے کے لئے تیار ہیں تو جوب میں انکار کر دیا گیا۔ اس بندرگاہ کو بھارت کے لئے وقف کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔
٭ چاہ بہار بندگاہ کی توسیع اور تعمیر و ترقی کے ذریعے بھارت کو پاکستان کی حدود استعمال کئے بغیر افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔
٭ ایران کی پہلے سے بنائی گئی شاہراہوں کی بدولت چاہ بہار کا افغانستان میں زارنج سے رابطہ ہو چکا ہے اور پھر وہاں سے افغانستان کے اپنے روڈ سسٹم کے ذریعے زارنج اور دیلا رام شاہراہ سے ہو چکا ہے جسے بھارت نے 2009ء میں اسی مقصد کے لئے تیار کیا تھا
٭ ایک جانب چاہ بہار بندر گاہ سے بھارت کو جہاں اپنی ضروریات اور مقاصد کے لئے ایک محفوظ اور متبادل راستہ ملا ہے جس سے اس کے اخراجات میں بے حد کمی واقع ہو گی تو وہیں پر اسے مغربی جانب سے خلیج ہرمز کے دہانے پر اور پاکستان کی اہم ترین بندرگاہ گوادر کے مشرق تک رسائی مل سکے گی
یہ ہے وہ صورت حال جس نے میرے جیسے تمام پاکستانیوں کو پریشان کر رکھا ہے اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔
'مرگ بر امریکہ‘ کہنے والے ہمارے دوست اور ان کی حکومتیں یہ سوچنا گوارہ کریں گی کہ امریکہ اور یو این او کی جانب سے عائد کی جانے والی عالمی پابندیوں کے باوجود بھارتی حکومت نے چاہ بہار بندرگاہ کے لئے کام کیسے شروع کرایا؟ ایران‘ پاکستان‘ انڈیا پائپ لائن سے بھارت یہ کہہ کر کیوں بھاگا کہ اس سے یو این او کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہو جائے گی جبکہ پہلے وہ اس کے لئے مکمل تیار ہو چکا تھا۔ بھارت کا یہ کہنا کہ اس سے اخراجات بڑھ جائیں گے‘ سوائے ایک دھوکے کے اور کچھ نہیں تھا۔ اصل وجہ پاکستان کے خلاف اس کے مستقبل کے منصوبے تھے۔ کبھی کبھی ایرانی حکومت کی سوچ کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ جو پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو اپنا سٹرٹیجک پارٹنر بنائے ہوئے ہے۔
بھارت اگر اتنا ہی ایران کا ہمدرد ہے تو اس نے 2009ء سے Farzad-B کے قدرتی گیس کے منصوبے کے لئے ایران سے جو ہامی بھری ہوئی تھی‘ اس سے کیوں بھاگ گیا؟ چاہ بہار میں بھارت کو بٹھانے سے پہلے ایران کے پالیسی ساز ذرا ٹھنڈے دل سے سوچ لیں کہ گوادرا تا سنکیانگ‘ چین پاکستان راہداری منصوبے سے ایران کو اپنے تیل اور قدرتی گیس کے روٹ کے لئے سب سے زیادہ سہولتیں مل سکتی ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی جو اپنی صدارت کی ابتدا میں چین اور پاکستان کے بہت ہی قریب تھے اچانک وہ مکمل بھارتی کیسے بن گئے؟ کیا یہ امریکی حکم ہے یا بھارت کے جنتر منتر کا اثر ہے کہ چاہ بہار میں نریندر مودی‘ اشرف غنی کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔ وہی اشرف غنی جنہوں نے بھارت کا دورہ کرنے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے اندر تخریب کاری کی ہرگز اجا زت نہیں دیں گے بلکہ اسے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
چاہ بہار بندرگاہ دراصل بھارت کو پاکستان کی سالمیت پر حملہ کرنے کے لئے ایک نیا محاذ دینے کے مترادف ہے اور جنگ کی صورت میں بھارت خلیج ہرمز میں واقع پاکستان کی بندرگاہ پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ تمام منصوبہ امریکی منظوری کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔