تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     05-02-2018

جیلیں بھرے گا کون؟؟

عدالتی نااہلی کو اہلیت میں بدلنے کے لئے تحریک عدل کی رضیہ سلطانہ کا تازہ فرمان، ڈالر، پائونڈ، ریال اور دینار کی سیاہی سے لکھنے کے قابل ہیں۔ 
انہوں نے ارشاد فرمایا: تم کتنے نااہل بھیجو گے ہم جیلیں بھر دیں گے۔ جیل بھرو تحریک کے مجاہدِ ثانی نے جڑانوالہ میں عدل کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے لافانی خطاب کیا۔ نااہل شریف کو مخاطب کر کے کہا: اٹھو اور ایل ایف او (مارشل لاء کے لیگل فریم ورک آرڈر ) کے بتوں کو اُٹھا کر باہر پھینک دو۔ تحریکِ عدل کے مجاہدِ ثانی کا یہ فرمان سن کر بانیٔ تحریک عدل شرمندگی کے پسینے میں نہا گیاہوگا۔ لیکن 1977ء والے مارشل لاء کی شرم کے ہاتھوں مجبور ہو کر منہ سے کچھ نہ بول سکا۔ ساتھ ساتھ اسے جنرل جیلانی والے ایل ایف او کا پہلاحلف بھی یاد آ گیا۔ اس کی حیا کرنا بھی ضروری تھا‘ جس کا نتیجہ پھر خاموشی کی صورت میں نکلا۔ ورنہ کون ہے جو ایسے بڑے محسنوں کو صنم خانے کا بت قرار دینے والے کو منہ توڑ جواب نہ دے‘ بلکہ اس کا منہ توڑ کر نہ رکھ دے۔ لیکن دل ہی دل میں 1977ء کے مارشل لاء کے بت خانے میں جنم لینے والے مجاہد کو سیاسی پرورش کرنے والے شدت سے یاد آئے ہوں گے۔ قرض میں ڈوبی ہوئی فائونڈری واپس کرنے والے، برف سے محروم برف خانہ ریلیز کرنے والے۔ چُھو منتر پڑھ کر ناکام تاجر میں سے سب سے بڑے صوبے کا وزیر خزانہ ڈھونڈ نکالنے والے۔ ملک اللہ یار کھنڈا جیسے شریف النفس اور طرح دار کاشت کار کی اکثریت کو مَسّل دینے والے۔ پنجاب پر پہلا بابو وزیر اعلیٰ مسلط کرنے والے، قوم کو منصفانہ الیکشن کا تحفہ دینے کے لیے آئی جے آئی کا فارمولا ایجاد کرنے والے۔ جوناتھن چُھڑوا کر دینے والے، 4 بار وزارتِ عظمیٰ اور 4 بار پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا ہلکا پھلکا تحفہ پیش کرنے والے۔ طیارہ اغوأ، حدیبیہ پیپرز جیسے خوفناک مقدمات میں تحریر ی معافی قبول کرنے والے، سعد الحریری اور کنگ سلمان کے بھائی پرنس مقرن کی سفارش ماننے والے، سعودیہ کا چارٹرڈ جہاز منگوا کر مجرم کو جھولے دلانے والے۔ اٹک قلعے سے سرور پیلس کا سرور لُٹانے والے۔ شرمن ٹینک کے سائز کا بھاری مینڈیٹ عطا کرنے والے۔ 9 سال بعد سزا کو تحلیل کر کے قانونی نااہلی کو نظریہ ضرورت کی اہلیت میں بدلنے والے۔ این آر او کرنے والے، منی لانڈرنگ کے بادشاہ، کمیشن کے سلطان، کنگ آف کرپشن کے سرٹیفکیٹس کے باوجود بار بار آزمانے والے۔ نا جانے اور کون کون سی یادیں ستم گر تقریر نے نااہل شریف کے دل میں زندہ کر دی ہوں گی۔ 
اس سب کے علاوہ قوم نے جیل بھرو فائونڈری کے کئی کامیاب شاہکار ماضی میں بھی دیکھے۔ آئیے ہم سب مل کر اپنی یادداشت تازہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلا جیل بھرو کارنامہ محمد خان جونیجو کے دور والا‘ جب اپنی ہی مسلم لیگ کے صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ شریفوں نے وفا کی نئی شریفانہ تاریخ لکھی۔ ایسی تاریخ جو پہلے صرف دکن اور سرنگا پٹم میں لکھی گئی۔ دوسری تاریخ جتوئی والی ہے‘ جس میں حلف لئے گئے کہ ہم وفا کریں گے‘ لیکن حلفیہ بیانوں کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی بنارسی ٹھگ جاگ اٹھے اور وفا کو جفا میں بدل دیا۔ جب جنرل ضیاء کے بیٹوں ڈاکٹر انوارالحق اور اعجاز صاحب کی باری آئی تو اس تاریخ کی پرانی کڑھی میں نیا اُبال آ گیا۔ اُبال ختم ہوا تو پتہ چلا کہ ضیاء مسلم لیگ کا پیٹ پھاڑ کر اندر سے نواز مسلم لیگ برآمد کر لی گئی ہے۔ سیاسی جج کی نوکری بچائو انعامی سکیم والے وکلا کے ساتھ بھی ہاتھ ہوا۔ 2008ء کے الیکشن میں جیل بھرو تحریک والے وکلا کو بٹھا کر کہا گیا: مشرف کی موجودگی میں الیکشن لڑنا آئین سے غداری ہے‘ سنگین غداری۔ تب پی ٹی آئی اسی سیاسی اتحاد کا حصہ تھی۔ اتحادی حیران و ششدر رہ گئے اور پارلیمنٹ سے باہر بھی۔ لیکن نہ صرف صادق و عادل شریف زادے اسمبلی کا حصہ بنے بلکہ ان کے وزیروں نے جنرل مشرف کے نیچے وزیروں کی حیثیت سے وردی کے سائے تلے شیرانہ حلف بھی اُٹھا لیا۔ 
قوم کی یادوں کے جھروکے سے کچھ اور منظر جھانکتے ہیں۔ ایک جانب پنجاب اسمبلی کے سامنے ایک اکیلی گھریلو خاتون کی احتجاجی گاڑی کو لفٹر پر ٹانگ دیا گیا۔ دوسری جانب لوہے کے سارے چنے اتفاق فائونڈری سے نکل کر گجرات پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ خوشامدیوں کا خادم اعلیٰ اور 302 کا نامزد ملزم 2 دفعہ جہاز پر بیٹھا‘ لاہور پہنچا‘ مگر جیل بھرو والے جیب بھرو مہم میں مصروف رہے۔ کچھ چنوںکے چھپر پھٹ چکے تھے۔ اس لیے ان پر انعامی بانڈز کی بارش ہوتی رہی۔ پھر قائد اعظم ثانی نے اپنی مقبولیت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ صحافیوں سے بھرے جہاز نے قلم کاروںکو اسلام آباد ایئر پورٹ پر کروڑوں لوگوں کے تاریخی استقبال کا چشم دید گواہ بنانے کے لیے اڑان بھری۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر جیل بھرو والے سلیمانی ٹوپیاں پہن کر آئے اس لیے بے چارہ میڈیا انہیں نہ دیکھ سکا۔ اس وقت بھی جیل بھرو تحریک کے سارے قائد مزید جیب بھرو مہم پر نکلے رہے۔ تحریکِ جیل بھرو کے پرچارک ایک ایک کر کے پکڑے جا رہے ہیں۔ ہر لانگری کی تلاشی سے کم از کم کروڑوں برآمد ہو رہے ہیں‘ جس سے صاف ظاہر ہوا کہ دور بدلا تو لانگری بٹالین کا ٹھکانہ کس دیار میں ہو گا۔ اپنے تنخواہ دار ملازموں کی سوشل بریگیڈ کے ارکان سے اپنی گاڑیوں اور پوسٹروں کو بوسے دلوانا ماڈلنگ تو ہو سکتی ہے جیل بھرو تحریک کی تیاری نہیں۔ 
ویسے بھی ملک میں جیل بھرو تحریک کا تازہ ریکارڈ خاصا روشن ہے۔ ایک ہفتے میں نفاذ شریعت کا مطالبہ ہوا اور نہ جیل بھرو تحریک کا اعلان۔ دوسرے ہفتے میں ختم نبوت ؐ کا مجرم کہلانے والا درمیان میں بیٹھا اور جیل بھرو کی وی آئی پی تحریک کے آدھے منصفوں نے اسے بری کرنے کا اعلان فرما دیا۔ 
جیل بھرو اور جیب بھرو میں فرق صاف ظاہر ہے۔ جیل وہ بھر سکتے ہیں‘ جو جیب نہیں بھرتے۔ جیب بھرنے والے جس جتھے کا پورا ٹبر تحریری معافی نامہ لکھ کر باہر آئے، گرفتار کارکنوں کو جیل بھرو کا فکسڈ ڈیپازٹ بنا کر ملک سے ہی باہر بھاگ جائے‘ اُس کے کہنے پر کون پاگل جیل بھرے گا۔ لوگ جانتے ہیں پیٹ کے ان بندوںکے لیے کارکنوں اور عوام سے زیادہ دیگچے اور اُن میں کڑچھا ہلانے والے باورچی اچھے ہوتے ہیں۔ سرور پیلس تک کے سفر میں خوش قسمت دیگچے اور باعزت باورچی تو ساتھ چلے گئے مگر 300 سے زیادہ سیٹوں والی سعودی ایئر لائن کی ائیر بس میں کسی ایک کارکن کو بھی جگہ نہ ملی۔ اسی تاریخی پس منظر میں یہ نعرہ تخلیق ہوا تھا: 
اَسی تے مر گئے، بُھکھے ننگّے
ساڈے نالوں، لوٹے چنگّے

جیل بھرو اور جیب بھرو میں فرق صاف ظاہر ہے۔ جیل وہ بھر سکتے ہیں‘ جو جیب نہیں بھرتے۔ جیب بھرنے والے جس جتھے کا پورا ٹبر تحریری معافی نامہ لکھ کر باہر آئے، گرفتار کارکنوں کو جیل بھرو کا فکسڈ ڈیپازٹ بنا کر ملک سے ہی باہر بھاگ جائے‘ اُس کے کہنے پر کون پاگل جیل بھرے گا۔ لوگ جانتے ہیں پیٹ کے ان بندوںکے لیے کارکنوں اور عوام سے زیادہ دیگچے اور اُن میں کڑچھا ہلانے والے باورچی اچھے ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved