تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-02-2018

عامر سہیلؔ ۔ناشاعری کو پیچھے دھکیلتی ہوئی شاعری

غزل
اس نے رات بجھارت میں/ کھولی آنکھ شرارت میں/ ایسے تم کو دیکھا ہے/ جیسے پھول طہارت میں/ کیوں پنچھی بندوق پہ ہیں/ کون خدا ہے بھارت میں/ پورا ملک نشانے پر/ ایک اک زخم سفارت میں/ انگیٹھی اور حسن کی لاٹ/ستواں عشق اشارت میں/ اک بدھا ہے صوفے پر/ اک بن باس سدھارت میں/ .............اک آنکھ روک لیجئے اک شام باندھیے/ سورج ہو پوٹلی میں تو کہرام باندھیے/ یہ باغ (جس میں ہم ہیں ابھی) سوگوار ہے/ اس کنج نسترن کا ہر اک پام باندھیے/ خوش ہو کے پوچھتی ہے کہ کتنے اداس ہو/ زخموں پہ (کہہ رہی ہے) مرا نام باندھیے/ جائے نمازِ عشق ہے جائے نمازِ عشق/ اس پہ شہید ہونے کو احرام باندھیے/ ریشم کی ڈوریاں جو گلے پہ پھری نہیں/ رخسار ہو گئے ہیں جو بدنام باندھیے/ رک رک کے اس نواح میں لاشیں گرائیے/ یہ کرفیو کی رات ہے یا شام باندھیے ............اسے محبت نے کر دیا ہے اداس عامرؔ/ نشے سے نیلے نشے سے بھریو گلاس عامر/ جہان بھر سے الگ ہے دنیا سے منفرد ہے/ وہ جس کی آنکھوں پہ مر مٹی تھی کلاس عامر/ میں ایک اک سپ میں آپ سے آپ ہو رہا ہوں بے سدھ/ یہ اس کے رخسار ہیں کہ لیمن گراس عامر۔
نظم
مری آنکھ میرا قبیلہ دعا/ مرے ہاتھ‘ میرا وسیلہ دعا/ میں راتوں کو رازوں کے پہرے میں ہوں/ کنوئیں میں ہوں اور سب سے گہرے میں ہوں/ مری پشت پر کوئی دجلہ نہیں/ مرے خون کا کوئی بدلہ نہیں/ عطا کائناتوںکے نقشے تمہیں/ وہ رب سماوات بخشے تمہیں۔
حمدیہ
میں مٹی گارا حمد تری/ میں پارا پارا حمد تری/ یہ پورب پچھم دوار ترے/ تو مالک رزق ذخیرے کا/میں لکڑ ہارا حمد تری/ ہر فجر میں تُو‘ ہر اجر میں تو/ ست رنگے یار احمد تری/ تو پھولوں اور رسولوں میں/ میں ثروتؔ‘ سارہؔ حمد تری۔
دکھ کی حمد
دکھ داشتہ ہے/ تنہائی کے دستر خوان پہ یہ/ آنکھوں کا پہلا ناشتہ ہے
سینے پر میقات
دو آنکھیں ہیں پاس ہمارے/ دونوں تیری نعت/ اے تو صحیفہ رخ رخسار کائنات/ حرف مقطعات تری حمد ہیں کہ نعت
غزل
میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں رگ و پے میں سحر دم/ تم ہوتی ہو دنیا کی ہر اک شے میں سحر دم/ ناخن سے جدا جسم‘ جدا پنڈلی سے پنڈلی/ کیوں چھوڑ کے جاتی ہو کسی لے میں سحر دم/ یہ'' تُو‘‘ کہ خلش عرصۂ ویرانۂ جان میں/ آہو سے ملائے بھی کسی رے میں سحر دم/ میں تیری ہی دنیا کا وہ باغی کہ مرا رقص/ نشے سے منافق نہ کسی مے میں سحر دم/ لکھتا ہوں ترا حسن بپا ہووے سر شام/ ورنہ میں کہاں باد گلِ نے میں سحر دم/ میں خون کے ریشے ہی گنا کرتا تھا عامر/ اک (Nausia) متلی کہ مری قے میں سحر دم۔
کنول جلو میں ہیں‘ اور دیکھنے کو آیا ہوں/ تمہارے گالوں میں ڈمپل کہاں پہ پڑتے ہیں؟ غزل بہانہ ہے‘ یہ رت عمل بہانہ ہے/ تمہاری زلف میں ہم کہکشائیں جڑتے ہیں/ ذرا سی بات پہ اک خاندان کٹتا ہے/ ذرا سی بات پہ رشتے الگ بگڑتے ہیں/ فرنگیوں کی ادا ملک لوٹتی ہے سنو/ فرنگیوں کی شرابوں سے جسم جھڑتے ہیں۔
شکیب جلالی کے زمانے کی غزل
ادھر جدائی گریباں کو جیب کرتی ہے/ ادھرہنسی ترے گالوں کو سیب کرتی ہے/ ادا سے بڑھ کے ہے ستواں بدن کی چالاکی/ جو لکھنو کا دوپٹہ کریب کرتی ہے/ ستی ستائی جوانی پہ حرص کا شب خون/ سوال کان کی بالی وسیب کرتی ہے/ وہ کون لڑکی ہے وہ جس کے قہقہوں کی بہار/ نگفتہ بہ تیری حالت شکیب کرتی ہے/ ہمارے سینے میں ارض و سما کی وسعت ہے/ ہمیں کو درد کی پوشاک زیب کرتی ہے/ بھری جوانی تری آیت زمستانی/ نشیب کرتی ہے غمزے نشیب کرتی ہے/ یہ سرزنش کا علاقہ ہے اصل میں عامرؔ/ یہاں کی خاک خدا سے فریب کرتی ہے۔ 
یہ ہیں عامر سہیل‘ جنہیں آپ بخوبی جانتے ہیں‘ انہیں کون نہیں جانتا کہ ان کی جان پہچان ہی ان کی شاعری ہے۔ یہ جوں جوں عمر گزارتے جاتے ہیں‘ ان کی شاعری نئی سے نئی ہوتی جاتی ہے۔ شاعر کا کام دوسروں سے الگ اور مختلف ہونا ہے کہ یہی شاعری کا جواز بھی ہے۔ محض دوسری زبانوں کے الفاظ بھر دینے سے شاعری نئی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے ایک الگ فضا اور الگ ماحول بنانا پڑتا ہے جو عامر سہیل نے بنا کر دکھا دیا ہے اور یہ فضا اس کی اپنی ہے‘ اس پر کسی دوسرے کی چھاپ نہیں ہے بلکہ کئی دوسروں پر اب اس کی چھاپ نظر آنے لگے گی۔ صاحب طرز اور صاحب اسلوب ہونا اسی کو کہتے ہیں۔
اس نے ایسے الفاظ کو بھی برت کر شاعری بنا دیا ہے جنہیں اس کے ہم عصر غیر شاعرانہ کہتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ اگر نظم یا غزل ہے تو اس میں شاعری بھی ہونی چاہیے جبکہ نثری نظم میں بالعموم اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ نظم میں کسی مقامی یا غیر ملکی واقعے یا سانحے کا ذکر اور دس بیس ادھر ادھر کی۔ نظم ایسے نہیں بنتی جب تک کہ اس میں شاعری نہ ہو۔ پیرا گراف کو لفظوں میں توڑ توڑ کر بیان کرنے سے بھی نظم نہیں بنتی کیونکہ یہ محض نثر ہے‘ نثری نظم نہیں۔ زبان کا استعمال اور لفظوں کا انتخاب ہی شاعری کی بنیاد ہو سکتے ہیں بلکہ اس طرح آپ زبان کو نئے سرے سے بنائے بھی جاتے ہیں کہ جینوئن شاعر اپنی زبان ساتھ لے کر آتا ہے۔سابقون کو ایک طرح سے رد کر کے ایک نیا جہان پیدا کرتا ہے جس میں اس کے اپنے پیڑ، پودے ،پرندے بلکہ اپنے زمین و آسمان ہوتے ہیں اور اگر نہیں ہوتے تو ہونا چاہئیں کہ اس کے بغیر بات نہیں بنتی اور اب آخر میں نسیم سحر کا یہ خوبصورت شعر:
میری غزل کا مصرع اول جو ہے نسیمؔ
افسوس اس کا مصرع ثانی نہیں ہوں میں
آج کا مطلع
اصل کو چھوڑا تھا ہم نے ہو بہو رکھ لیا تھا
ایک ہی مضموں برائے گفتگو رکھ لیا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved