تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     05-02-2018

کارِ اصلاح

صلاح کی ضد فساد ہے اور فساد کے معنی بگاڑ کے ہیں ۔فساد کبھی اعتقاد میں ،کبھی عقل وفکر میں اور کبھی نیت میں ہوتا ہے ۔عقل و فکر میں فساد ہو تو انسان اپنے غلط کو بھی صحیح سمجھتا ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور جب اُن سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کروتو وہ کہتے ہیں:ہم تو فقط اصلاح کرنے والے ہیں، سنو! در حقیقت وہی فساد کرنے والے ہیں ،لیکن انہیں (اس حقیقت کا) شعور نہیں ہے ، (البقرہ:11-12)‘‘۔قرآن کریم نے اسی کودلوں کی کجی سے تعبیر کیا اور اس سے نجات کے لیے یہ دعا کرنے کی تعلیم دی : ''اے ہمارے پروردگار !ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کراور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک تو بہت عطا فرمانے والا ہے ،(آل عمران:8)‘‘۔ عقل وفکر کی اسی گمراہی کے بارے میں قرآنِ کریم میں فرمایا: ''تو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ اُن کے لیے ایسے دل ہوتے جن سے یہ سمجھتے یا کان ایسے ہوتے جن سے یہ(توجہ سے)سنتے ،پس حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں (دھڑکتے )ہیں ،(الحج:46)‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ کہہ دیجیے! ہر شخص اپنی ذہنی اُفتاد کے مطابق عمل کیے جاتا ہے ،پس تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ راستی پر ہے ،(بنی اسرائیل:84)‘‘۔آج کل جو گروہ اپنی ذہنی افتاد کے مطابق قرآن وسنت کی تشریح کرتے ہیں ، پھراُسی سوچ کے مطابق قتل وغارت کرتے ہیں ،زمین میں فساد برپاکرتے ہیں اورپھر اُسے ا صلاح کا نام دیتے ہیں ،وہ اسی فکر کی کجی میں مبتلا ہیں اور اپنی افتادِ طبع کے خلاف دین کی کوئی تعبیر سننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں ،قرآن کریم نے اسی کو ''حمیّتِ جاہلیّہ ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔
پس فساد کا ایک سبب یہ ہے کہ فی نفسہٖ کوئی عقیدہ یا نظریہ باطل ہو،دوسراسبب اُس کی تعبیر یعنی ذہنی اُفتاد کا باطل ہونا اور تیسرا سبب عمل کا باطل ہونا ہے ۔انبیائے کرام علیہم السلام کو فساد کی انہی صورتوں سے واسطہ پڑا ،لیکن وہ اصلاح کی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹے ، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کایہ قول بیان فرمایا ہے: ''میں تو جہاں تک ہوسکے ،صرف اصلاح چاہتا ہوں اور میری توفیق صرف اللہ کی عطا سے ہے ،میں نے اُسی پر بھروسا کیا اور میں اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں، (ہود:88)‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''دین خیرخواہی کا نام ہے ،صحابہ نے عرض کی: (یارسول اللہ!) کس کی خیر خواہی؟، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ ،اُس کی کتاب، اُس کے رسول ،مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی (دین ہے)، (صحیح مسلم:55)‘‘۔ انبیائے کرام کسی صلے اور ستائش کی تمنا کیے بغیر خالص اللہ کی رضا کے لیے دعوتِ حق کا فریضہ انجام دیتے رہے ، قرآن کریم نے نو مقامات پرانبیائے کرام علیہم السلام کا یہ قول نقل فرمایا ہے : ''میں اس (دعوتِ حق )پرتم سے کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوں، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمۂ کرم پر ہے ‘‘۔
عقیدے کے بطلان کے سبب انسان فکر ونظر اور قول وفعل کی راستی سے بھی محروم ہوجاتا ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور ہم نے جہنم کے لیے بہت سے ایسے جن اور انسان پیدا کیے ،اُن کے دل ہیں مگر وہ اُن سے سوچتے نہیں اور اُن کی آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے (عبرت کی نظر سے) دیکھتے نہیں اور اُن کے کان ہیں جن سے وہ (توجہ سے)سنتے نہیں ،وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر گمراہ ہیں ،وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، (الاعراف:179)‘‘۔اس لیے کہ جانور تو عقل وخرد کی نعمت سے محروم ہیں ، وہ چیزوں کی حقیقت کو جاننے ،خیر وشر میں تمیز کرنے اور خطا وصواب میں فرق کرنے کے اہل نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اس کے مکلَّف ہیں، لیکن سرکش جنّات اور انسان جو یہ ساری نعمتیں ہوتے ہوئے حق کو سمجھنے ،قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے انہیں استعمال نہیں کرتے، وہ درحقیقت چوپایوں سے بھی بدتر ہیں۔ 
ہمارے معاشرے میں دعوت وتبلیغ کا کام یقیناکسی نہ کسی درجے میں ہورہا ہے اور اس کے ثمرات واثرات بھی مرتّب ہورہے ہیں ،لیکن اس کا تناسب معاشرے میں محدود ہے ، مزید یہ کہ افعالِ خیر کی ترغیب تو دی جاتی ہے ،لیکن معاشرتی خرابیوں کو اُس شدت سے ہدف نہیں بنایا جاتا ،جو وقت کی ضرورت ہیں ۔اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ بہت سی خرابیاں بحیثیتِ مجموعی ہمارے معاشرے میں قابلِ نفرت نہیں رہیں، صرف دولت اور جاہ واقتدار کو تکریم مل رہی ہے یا اس سے بھی پست تر معیار آثارِ قیامت کے ضمن میں حدیث پاک میں بیان فرمایا:''اور کسی شخص کی تکریم اس کی ضرر رسانی سے بچنے کے لیے کی جائے،(سنن ترمذی:2211)‘‘۔جب دولت اقتدار حاصل کرنے کا زینہ بن جائے ،تو اقتدارپر جس طرح کے لوگ فائز ہوں گے ،ان کی بابت فرمایا :''قوم کی زمامِ کار بدکار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے اور کمینے لوگ قومی امور کے فیصلہ ساز بن جائیں(تو برے وقت کا انتظار کرو)‘‘۔آج کل ہمارے معاشرے کی عمومی فضا جتنی شیطنت کے کاموں کے لیے سازگار ہے ،اتنی خیر کے کاموں کے لیے نہیں ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خیر کے حصول کے دروازے بند ہوگئے ہیں، الحمد للہ! اُس کے امکانات بھی بہت وسیع ہیں ،صرف عزمِ صمیم ،اخلاص ولِلّٰہیّت اور فکر وعمل کی راستی کی ضرورت ہے۔ اخلاص ولِلّٰہیّت میں بڑی طاقت ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ناقابلِ تصور حد تک بڑی مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے یا بڑی کامیابی عطا فرماتا ہے ،حدیث پاک میں ہے :
''تین آدمی پیدل سفر کر رہے تھے کہ انہیں بارش نے آلیا،انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، پھر پہاڑ سے ایک بھاری پتھر لڑھک کر آیا اور غار کے دہانے کو بند کردیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اپنا کوئی ایسا نیک عمل یاد کرو جو محض اللہ کی رضا کے لیے کیا ہواور اُس کے وسیلے سے دعا کرو (کہ اللہ اس بلا کو ٹال دے)۔پس اُن میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے بچے (بھی )تھے،میں بکریاں چرایا کرتا تھا ،پھر جب میں شام کو لوٹتا تو دودھ دوہتا ،اپنے بچے سے پہلے والدین کو پلاتا ،ایک دن چارے کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی اور رات گئے لوٹا، تو میں نے دیکھا کہ وہ دونوں سوگئے ہیں ۔ میں حسبِ معمول دودھ دوہ کر لایا اور والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا،نہ میں نے انہیں نیند سے جگانا پسند کیا اورنہ ہی اپنے بچوں کو اُن سے پہلے دودھ پلانا پسند کیا،چنانچہ میرے بچے میرے قدموں میں روتے رہے اور اسی حالت میںمجھے صبح ہوگئی۔پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہمارے لیے اس غار کے دہانے کو اتنا کشادہ فرما کہ ہم آسمان کودیکھ سکیں، سو اللہ نے غار میں اتنی کشادگی فرمادی کہ انہیں آسمان نظر آنے لگا۔دوسرے نے کہا: اے اللہ!میری ایک چچا زاد بہن تھی ،میں اس سے اتنی شدید محبت کرتا تھاجتنی کسی مرد کو کسی عورت سے ہوسکتی ہے۔پس میں نے اس سے اپنی خواہش پورا کرنا چاہی تو اس نے انکار کیایہاں تک کہ میں اسے سو دینار دوں۔ پس میں نے سو دینار جمع کیے اورجب میں (اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے )اس کے قریب گیا تو اس نے کہا:اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور میری عفت کو قائم رہنے دے، میں (اللہ کے خوف سے )کھڑا ہوگیا ،(اس نے کہا:)اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضا کے لیے کیا ہے ،تو اس غار میں ہمارے لیے کشادگی پیدا فرما، سو اللہ نے غار کے دہانے کو مزید کشادہ کردیا۔ تیسرے نے کہا: اے اللہ! میں نے آٹھ کلو گرام چاول کے عوض اُجرت پر ایک مزدور رکھا ،سو جب اس نے کام پورا کرلیا تو اس نے کہا: میرا حق دو، میں نے اُسے مزدوری پیش کردی، اس نے (کم سمجھ کر اسے چھوڑ دیا)، پھر میں اُن چاولوں کو کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ میں نے اس (کی آمدنی ) سے گائیں خریدیں اور چرواہا مقررکردیا، پھر (کافی عرصے بعد )وہ میرے پاس آیا اور کہا: اللہ سے ڈر ، مجھ پر ظلم نہ کراور مجھے میرا حق دے، میں نے کہا: ان گایوں (کے ریوڑ) اور چرواہے کو لے جائو، اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور میرا مذاق مت اڑا، میں نے کہا: میں مذاق نہیں کر رہا، چرواہے سمیت اس ریوڑ کو لے لو، سو وہ لے کر چلا گیا، (اس نے کہا:اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اس غار کے دہانے کو ہم پر پورا کھول دے، سو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے غار کے دہانے کو کھول دیا (اور وہ صحیح سالم نکل کر چلے گئے)،(بخاری:5974)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رِضا کے لیے اخلاص کے ساتھ جو عمل کیا جائے ،نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اسے شرفِ قبولیت سے نوازتا ہے ،بلکہ اجر بھی عطافرماتا ہے اور اس کے صلے میں مصیبتوں کو بھی ٹال دیتا ہے ، پس اخلاص ولِلّٰہیّت میں بڑی برکت ہے اور یہی نعمت آج کل کم یاب ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چیز اپنی اصل کے اعتبار سے سراسر خیر ہے ،لیکن جب اُسے باطل مقصد کے لیے حاصل کیا جائے یا استعمال کیا جائے تو اُس کے نتائج بھی تباہ کن ہوتے ہیں، چنانچہ اسی حدیث میں اس بات کو قیامت کی نشانی کے طور پران الفاظ میں بیان فرمایا: ''اور دین کا علم دین کے منافی مقاصد (یعنی محض دنیا سنوارنے )کے لیے حاصل کیا جائے ‘‘۔اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:'' ایسا علم جسے صرف رضائے الٰہی کے لیے حاصل کیا جانا چاہیے، کوئی شخص اُسے دنیاوی مفاد پانے کے لیے حاصل کرے ،تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا،(سنن ابودائود:3664)‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved