''عناصر کھیل کھیلتے ہیں ، یہ تمہیں ہر ایک بتائے گا‘‘ میرے دوست نے مجھے بتایا ۔ ساتھ اس نے یہ بھی کہا ' ' عناصر خود نہیں کھیلتے ، پسِ پردہ ایک عظیم منصوبہ ساز ہے ، جو کٹھ پتلیوں کی طرح انہیں نچاتا ہے ‘‘ ۔ میرا دوست دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے پڑھا ہوا ہے ۔ دنیا کے بہترین دماغوں میں سے ایک ۔تمام بڑی تجربہ گاہوں سے وہ ہو آیا تھا ۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ کل 92عناصر ہیں ، جن سے سب کچھ بنا ہے ۔ یہ مٹی، پانی ، ہوا، سورج ، چاند ، ستارے ، حتیٰ کہ سب جاندار او رحتیٰ کہ انسان بھی ۔ یہ ایک پزل ہے ، ایک پہیلی ہے ۔ جگہ جگہ نشانات رکھے گئے ہیں ۔ اگر کوئی انہیں اکٹھا کرتا رہے تو بالآخر یہ پزل حل ہو جائے گا۔ جیتنے والے کو ایک ایسا انعام ملے گا ، جس کے سامنے دنیا کے سارے ہیرے، سونے اور چاندی کے ذخائر ہیچ ہوں گے۔
ایک روز مجھ سمیت اس نے کچھ لوگ اکٹھے کیے اور انہیں ایک میدان میں لے گیا۔ یہاں اینٹوں کے ڈھیر، سیمنٹ کی بوریاں ، لکڑی اور لوہے کے شہتیر رکھے تھے۔ اس نے کہا کہ ان اینٹوں ، سیمنٹ ، لکڑی اور لوہے کو ملا کر ایک مکان بنایا جا سکتاہے ۔ کیا کسی کو اس پہ شک ہے ؟ سب نے کہانہیں ۔ پھر وہ ایک جگہ ہمیں لے گیا۔ یہاں دو سلنڈر اور چار تھیلے پڑے تھے ۔ اس نے کہاکہ ایک سلنڈر میں آکسیجن ہے ، ایک میں ہائیڈروجن ہے ۔ایک تھیلے میں نائٹروجن، ایک میں کاربن، ایک میں فاسفورس اور ایک میں کیلشیم ہے ۔اس نے کہا ، اگر میں یہ کہوں کہ اس سامان کو ملا کر ایک جیتا جاگتا انسان بنایا جا سکتاہے تو کیا تم لوگ یہ بات مان لو گے ؟ سب ہنس پڑے ۔ وہ بھی ہنس پڑا۔ پھر اس نے مجھے بتایا کہ سب اسے پاگل سمجھ کر ہنسے تھے اور وہ ان کی جہالت پہ ہنسا ۔ اس لیے کہ اگر انسانی جسم میں موجود عناصر کا وزن کیا جائے تو 99فیصد انسانی جسم ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن، کیلشیم ، کاربن اور فاسفورس ہی سے بنا ہے ۔ جو لوگ کم جانتے تھے، ان کے لیے یہ بے وقوفی کی بات تھی ۔ جو زیادہ جانتا تھا، اس کے نزدیک اس کی بے وقوفی پہ ہنسنے والے خود بے وقوف تھے ۔اب سوچنے کی بات یہ تھی کہ ان عناصر کو ملا کرزندگی کس نے بنائی۔ مزید برآں یہ کہ اربوں اقسام کے جانداروں میں سے ایک کو عقل کس نے دی ۔ وہ ایک باقی سب جانداروں ہی کی طرح چلتا، دیکھتا، کھاتا اور سوتا ہے۔ اس کی حسیات بھی باقیوں کی طرح ہی کام کرتی ہیں ۔
اس نے یہ بات مجھے زور دے کر بتائی: یہی آکسیجن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، فاسفورس، کاربن اور کیلشیم انسان ہیں ۔ یہی عناصر ہماری ہڈیاں ، ہماری جلد، ہمارا گوشت، ہماری خون کی نالیاں ، ہماریNerves، ہمارے بال، ہمارے دماغ، ہماری آنتیں بناتے ہیں ۔ یہی ہمارے جذبات ہیں ، یہی احساسات ۔ یہی ناک ، کان ، زبان ، جلد اور آنکھوں کے ذریعے دماغ سے ہماری پیغام رسانی کراتے ہیں ۔
پھر وہ مجھے ایک ویرانے میں لے گیا۔ ایک جگہ سڑک ختم ہو گئی۔ ہم چار گھنٹے پیدل چلتے رہے ۔ دفعتاً درختوں کا ایک جھنڈ نظر آیا ۔یہاں جنگل میں منگل کا ساماں تھا۔ ایک میلہ لگا ہوا تھا۔ ہر طرف جھولے اور کھلونے، ہر طرف روشنیاں ، کھانے پینے کا سامان، بڑی بڑی گاڑیاں ۔اگر کچھ نہیں تھا تو آدم زاد ۔ صرف ہم دو تھے ۔ دنیا جہان کی نعمتیں ہمارے سامنے کھلی پڑی تھیں ۔ اس نے کہا ، آئو ان سب سے محظوظ ہوں ۔ کھائیں پئیں ، آرام کریں ۔ پھر اس نے کہا، تمہاری آنکھوں میں مجھے خوف نظر آرہا ہے ۔ میں نے کہا ،مجھے یہ سوچ کر خوف آرہا ہے کہ میلہ سجانے والا کون ہے اور کہاں جا چھپا ہے ؟ وہ ہنس پڑا ۔ اس نے کہا ، یہ دنیا ایک میلہ ہی تو ہے ۔ روز اس میں ہم طرح طرح کے تماشے دیکھتے ہیں ۔ انواع و اقسام کی خورونوش ، دنیا جہاں کی نعمتیں ۔انوا ع و اقسام کے خوبصورت چہرے ۔ یہ جس میلے میں ، میں تمہیں لے کر آیا ہوں ، یہ ایک بڑے میلے کے اندر لگا ہوا چھوٹا میلہ ہے ۔ بڑا میلہ کہاں ہے ؟ بڑا میلا وہ دنیا ہے ، جس میں تم نے شعور کی آنکھ کھول اور جس میں تم اپنی زندگی گزار رہے ہو ۔ یہ بڑا میلہ کس نے سجایا ؟وہ خود کہاں ہے ؟ وہ کیا چاہتا ہے ؟ اس نے اپنے نشان ہر جگہ کیوں رکھ چھوڑے ہیں ؟ کیا وہ یہ چاہتاہے کہ اسے ڈھونڈا جائے ؟ ڈھونڈنے والے کو کیا ملے گا ؟ میرے پاس اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ پھر اس نے کہا ، وہ جو بھی ہے ، آخری درجے کا حسن ہے ۔ آخری درجے کی خوبصورتی ہے ۔ اس کی ذات سب خزانوں سے بڑا خزانہ ہے ۔ یہ میں اس کے نشانات سے دیکھ کر بتا سکتا ہوں ۔میں نے دیکھا وہ اسے پانے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا۔ پھر اس نے ایک راز کی بات مجھے بتائی۔ اس نے کہا ، میلہ سجانے والا ہم سے بھی زیادہ بے تاب ہے کہ ہم اسے ڈھونڈ نکالیں۔
پھر اس نے مجھے ساتھ لیا اور ایک کمرے میں چلا آیا۔ یہاں ایک بچّہ فرش پہ بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے جیب سے ایک چمکتی ہوئی چیز نکالی اور ایک طرف رکھ دی۔ بچہ اس کی طرف لپکا ۔ پھر اس نے اس چمکتے ہوئے کھلونے کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ بچّے نے جب اپنا کھلونا گم ہوتے دیکھا تو وہ رونے لگا ۔ میرے دوست نے کپڑا اٹھایا اور کھلونا بچّے کو دے دیا ۔ بچہ اس سے کھیلنے لگا، اس میں مگن ہو گیا۔ پھر اس نے ایک اور کھلونا کچھ دور رکھا، جس کی روشنی اور خوبصورتی پہلے کھلونے سے کہیں زیادہ تھی ۔ بچّے نے پہلا کھلونا پھینک دیا اور دوسرے کی طرف لپکا۔ میرا دوست قہقہہ مار کے ہنسا۔ اس نے کہا، یہ وہی ہے ، جو روز ہمارے ساتھ ہوتا ہے ۔ان روشنیوں کے ذریعے ، میں جیسے چاہوں اس بچّے کو کنٹرول کر سکتا ہوں ۔ اس نے بچّہ اس کی ماں کے حوالے کیا۔ ہم اس مکان سے نکل آئے ۔
اس نے کہا : ہیں وہی 92عناصر ۔ انہی سے یہ زمین و آسمان بنے ہیں ۔ انہی سے مٹی اور لوہا بنا۔ انہی سے کوئلہ اور ہیرا بنا۔ انہی کو ہم جلاتے ہیں ۔ انہی کو ہم کھاتے ہیں ۔ انہی سے ہم بنائے گئے ہیں ۔ ہاں ، اہم بات یہ ہے کہ انہیں ملا کر ان میں زندگی کس نے پھونکی ؟ کون ہے وہ عظیم کیمیا گر؟ کس نے انسان کو عظیم تر غلبہ دلانے کے لیے عظیم تر ین عقل عطا کی ؟ یہ سب کیا ہے ؟ یہ سب کیوں ہے ؟ خود اپنی ذاتِ عالیشان پہ اس نے پردہ کیوں ڈال رکھا ہے ؟ وہ کیا چاہتاہے ؟ کیا اسے اس بات میں لطف آتا ہے کہ اسے ڈھونڈ ا جائے؟ اس کی کھوج لگائی جائے ؟ یہ بہت خوبصورت کھیل ہے ۔ اس کے نشانات ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں ۔ہمیں اسے ڈھونڈنا ہے ۔ ہمیں اپنی زندگی روزمرّہ مصروفیات ہی کے سپرد نہ کر دینی چاہئیے ۔ ہمیں سوچنا پڑے گا، وگرنہ ہم ناکام ثابت ہوں گے ۔ 92عناصر کا یہ کھیل بھی بہت دلچسپ ہے لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان عناصر کے پیچھے کون ہے ۔