مسخرے‘ عجیب و غریب مسخرے۔ چند برس کے بعد شایدان میں سے کوئی ایک بھی منظر پر موجود نہیں ہوگا۔ کب تک کوئی قوم ایسے لیڈروں کو برداشت کر سکتی ہے؟
درد اور احساس کی دولت ہے اور نہ کوئی وجدان و ادراک۔ نون لیگ ہو‘ پیپلزپارٹی یا تحریکِ انصاف‘ سبھی کا حال پتلا ہے۔ تحریکِ انصاف قدرے مختلف تھی‘ نذر گوندلوں اور فردوس عاشق اعوانوں کی شرکت و شمولیت کے بعد‘ اب کچھ زیادہ حسن ظن اس سے بھی باقی نہیں رہا۔ نوازشریف کے جلسوں میں رونق اب پہلے سے زیادہ ہے۔ سامنے کی بات مگر یہ ہے کہ وہ نااہل قرار دیئے جا چکے۔ وزیراعظم اب وہ نہیں بن سکتے۔ اِلّایہ کہ دوتہائی اکثریت نون لیگ کو مل جائے۔ آئین میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر دیئے جائیں۔ سزا معاف ہو جائے اور نئے نکور نوازشریف مسندِ اقتدار پہ فائز ہو جائیں۔ بے شک امریکہ‘ برطانیہ اور بھارت کے علاوہ‘ ہزاروں کارندوں کی خواہش یہی ہوگی۔ ایسی بھی مگر لوٹ نہیں مچی ہے۔
نون لیگ کو جو کچھ لُوٹنا ہے‘ پنجاب سے لُوٹنا ہے۔ سندھ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ پنجاب میں بھی اس کے کئی لیڈر آزاد امیدواروں کے طور پر میدان میں اتریں گے۔ بلوچستان سے تو جنازہ ہی اٹھ چکا۔ سندھ اور پختون خوا سے زیادہ سے زیادہ چار چھ نشستیں۔پشاور میں نوازشریف کا جلسہ غیرمعمولی رہا۔ وادیٔ پشاور میں مگر عمران خان کو ہرانا‘ ہاتھی کے منہ سے گنا چھیننے کے مترادف ہے۔ جلسہ ایک چیز ہے اور ووٹ دوسری۔ جلسوں پہ انحصار ہوتا تو 30 اکتوبر 2011ء کے بعد‘ عمران خان نے لاہور کی بارہ میں سے دس نشستیں جیت لی ہوتیں۔ شہبازشریف کے فرزند سلمان شہباز اس زمانے میں کہا کرتے تھے کہ لاہور میں کم از کم تین سیٹیں تحریک انصاف چھین لے جائے گی۔ عمران خان کا کمال یہ ہے کہ عین وقت پہ ایسی کوئی حماقت کرتے ہیں کہ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ 2013ء کے لیے جب وہ ٹکٹیں بانٹ رہے تھے تو صاف صاف ان سے کہہ دیا تھا کہ ان کی ظفرمندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معلومات جمع کرنے کا کوئی نظام تھا اور نہ اعدادوشمار ۔ٹکٹ کی سفارش کرنے والے اگر سیف اللہ نیازی‘ اعجاز چوہدری‘ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی ہوں تو نتیجہ معلوم۔ عدم تحفظ کا شکار لوگ۔ روپیہ پیسہ ان کی کمزوری ہے۔ معاملات ایسے لوگوں کے سپرد نہیں کیے جاتے۔ قائم رہنے والی عمارتیں پائیدار ستونوں پر اٹھائی جاتی ہیں۔
ابھی ابھی ایک سوال ذہن میں ابھرا ہے۔ اس سے پہلے مگر ایک قصّہ سن لیجئے۔ ایف بی آر کے چیئرمین ‘وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملنے گئے تو نذر گوندل کی انہوں نے شکایت کی۔ کہا کہ ان کے شدید دبائو پر‘ ان کی مرضی کا ایک کلرک انہیں مقرر کرنا پڑا ہے۔ گیلانی صاحب کا جواب یہ تھا: ارے بھائی‘ مجھے کیا کہتے ہو‘ میں نے تو سفارش نہیں کی۔ گیلانی صاحب کی تگ و تاز کا میدان اور تھا‘ جس کی طرف شاہ محمود قریشی نے صدر زرداری کو توجہ دلائی تھی۔ زرداری صاحب نے کہا: اس میں حرج کیا ہے‘ قریشی صاحب‘ اگر وہ کچھ پیسہ بنا لے؟ آپس کی بات یہ ہے کہ شاہ محمود کے باب میں ایسی کوئی شکایت کبھی سننے میں نہیں آئی۔ ان کی کمزوری کچھ اور ہے۔ اوکاڑہ‘ منڈی بہائوالدین اور ملتان‘ ضمنی انتخابات میں تین ایسے ٹکٹ جاری کرنے پہ انہوں نے اصرار کیا‘ جس میں تحریکِ انصاف کے امیدواروں کی ہار یقینی تھی۔ عاقبت نااندیش کو پروا ہی نہ تھی۔ جب تک جاوید ہاشمی پارٹی میں رہے‘ وہ پریشان رہا۔ اب شاد ہے کہ چلے گئے اور جہانگیر ترین کو عدالت نے اٹھا پھینکا۔ شاہ محمود ایک خوف زدہ بچہ ہے۔
ایف بی آر میں سفارش اتنی ہی خطرناک ہے‘ جتنی محاذ جنگ پر نالائق جنرل کا تقرر۔ ریاست کو اپنی بقا کے لیے‘ سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے دفاع اور ٹیکس وصولی کا اہتمام کرنا ہوتاہے ۔ وزرا ہی نقب زنی کریں تو انجام کیا ہوگا۔ وہ کون شخص ہے‘ جس نے نذر گوندل کو پارٹی میں قبول کرنے کی سفارش کی؟ وہ کون ہے‘ جس نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی پذیرائی پہ قائل کیا؟ کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ کسی طرح بھی ان کا مداوا نہیں ہوتا۔
ابھی ابھی اس دور کے وفاقی ٹیکس محتسب اور ایف بی آر کے سبکدوش افسروں سے اس واقعے کی تصدیق میں نے کی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ یہ کلرک دس لاکھ روپے‘ماہوار وفاقی وزیر کو دیا کرتا۔ ظاہر ہے کہ اپنے لیے بھی کچھ بچا رکھتا ہوگا۔ ایف بی آر کے ہزاروں کلرکوں میں سے ایک اگر کئی ملین اڑا لے جاتا تو بڑے افسر کس قدر نقصان پہنچاتے ہوں گے۔ ایک عشرہ ہوتا ہے‘ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا: کم از کم 500 ارب روپے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے‘ جس کے لیے ساری دنیا میں ہم کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ 500 ارب رشوت کا مطلب 500 ارب کا خسارہ نہیں بلکہ کم از کم 2000 ارب روپے۔ اس رقم سے ملک کا دفاع دوگنا مضبوط ہو سکتا ہے۔ ہر بچے کو تعلیم دی جا سکتی ہے۔ ہر مریض کا علاج ممکن ہے اور ہر بھوکے کو کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔ ایک عام اخبار نویس اگر یہ بات جانتا ہے تو آصف علی زرداری‘ میاں نوازشریف اور عمران خان کیوں نہیں؟ عمران خان تو کرپٹ بھی نہیں‘ اس کا مرض دوسرا ہے‘ خود پسندی۔ اسی خود پسندی نے اس گمان میں خان کو مبتلا کر رکھا ہے کہ پارٹی کچھ نہیں ہوتی‘ سبھی کچھ لیڈر ہوتا ہے۔ ارے بھائی‘ ملوکیت میں پروان چڑھنے والے اس تصور سے نجات پانے کے لیے تو نئی قیادت کی تلاش تھی۔
عارف نے کہا تھا: دو چیزیں آدمی کبھی نہ جان سکے گا۔ نفس کے فریب کتنے ہیں اور مصطفی ﷺ کے مقامات کس قدر۔ خود فریبی پہ آدمی اگر تل جائے تو اس کے راستے میں کبھی چراغ نہیں جلتا۔ ژولیدہ فکری‘ اس کا دن بھی رات ہو جاتا ہے!
بیشتر سیاسی قیادت اسی مرض کا شکار ہے۔ عالی مرتبتؐ کا سب سے بڑا کارنامہ شاید یہ ہے کہ تین چار ہزارمردانِ کار انہوں نے ایسے تیار کیے‘ قرآن کریم‘ جن کے بارے میں یہ کہتا ہے: مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ عمرفاروق اعظمؓ نے کہا تھا: ہم کسی کو دھوکہ نہیں دیتے‘ مگر دھوکے کی ہزار شکلوں سے واقف ہیں۔ یہ کیسے لیڈر ہیں جو خود فریب کھاتے اور دوسروں کو فریب دینے پر آمادہ رہتے ہیں؟ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ پوری تاریخ میں‘ کارفرما قدرت کے قوانین فراموش کرکے‘ ان کی دانش پہ ہم بھروسہ کریں۔
جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ ان میں سے ایک‘ پاکستان کے نیلسن منڈیلا جناب آصف علی زرداری موچی دروازے میں اپنا ''منجن‘‘ بیچنے میں مصروف ہیں۔ اس لفظ کے لیے معافی کا خواستگار ہوں مگر کیا کیجئے کہ بعض کارناموں کو بازاری زبان ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ پورے پنجاب کو متحرک کرکے‘ کروڑوں روپے لٹا کر پانچ سات ہزار سامعین وہ جمع کر پائے ہیں۔ 22 کروڑ انسانوں‘ کا مستقبل کیا ایسے لوگوں کے سپرد کیا جا سکتا ہے؟
مسخرے‘ عجیب و غریب مسخرے۔ چند برس کے بعد شایدان میں سے کوئی ایک بھی منظر پر موجود نہیں ہوگا۔ کب تک کوئی قوم ایسے لیڈروں کو برداشت کر سکتی ہے؟