تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     06-02-2018

کشمیر کب تک سلگتا رہے گا ؟

پچھلے ڈیڑھ سال سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی نوجوانوں کی تحریک نے پورے خطے میں ایک ہلچل مچا دی تھی، کارپوریٹ میڈیا کے تمام بندھن اور رکاوٹیں چیر دیں۔ اس نئی نسل نے جرأت مندانہ قربانیوں اور جانثاری کی نئی مثالیں قائم کرکے دنیا بھر میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی اور معاشی و سماجی جارحیت کے خلاف آواز بلند کی۔ پچھلے ستر سال میں‘ برصغیر کے حکمرانوں کو ''خود مختار حاکمیت‘‘ ملنے کی آزادی کشمیر کے عوام کو قومی آزادی دینے سے محروم رہی ہے۔ اس کی وجوہات میں کلیدی مسئلہ اس آزادی کی تاریخ اور اس کا کردار ہی ہے۔ انگریز سامراج نے اس سات ہزار سال پرانی تہذیب کو بٹوارے سے چیر کر جو ''آزادی‘‘ دی تھی‘ اس سے ان کی براہ راست حاکمیت تو ختم ہو گئی، لیکن انہوں نے یہاں سے جانے سے پیشتر اس امر کو یقینی بنایا کہ اس بٹوارے کے زخم کبھی بھرنے نہ پائیں۔ دشمنی اور منافرتوں کے اس کھلواڑ کو جاری رکھنے کے لئے انہوں نے کشمیر کا مسئلہ پیچیدہ کرکے چھوڑ دیا تاکہ دشمنی اور محاذ آرائی جاری رہے۔ ان کے انسانی بربادی کے آلات اس تنائو اور تصادم کی کیفیات میں بکتے رہیں اور ان کی مالیاتی اور سامراجی جکڑ سے ان کی حاکمیت بالواسطہ جاری رہ سکے۔ اگر ہم پارٹیشن کے جاری کردہ برطانوی سامراج کے پورے منصوبے اور طریقۂ کار کا جائزہ لیں تو ریاستوں کے حکمرانوں اور ان کی رعایا کو فیصلے کرنے کا حق اس انداز میں دیا جیسے یہ حکمران راجے مہاراجے ان ریاستوں کے مالکان ہوں اور رعایا کی رائے ثانوی حیثیت کی حامل ہو۔ بیشتر ریاستیں‘ انگریز سامراج کی کاسہ لیسی اور یہاں کے مظلوم عوام کی جدوجہد سے غداری کے صلے میں راجے مہاراجائوںکو حاصل ہوئی تھیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سامراج سے 'آزادی‘ کی جدوجہد میں قربانیاں محنت کش عوام نے دی تھیں۔ بھگت سنگھ سے لے کر 1946ء میں انقلاب کی چنگاری جلانے والے جہازیوں سمیت‘ بہت سی تحریکیں برصغیر میں محنت کشوں کے راج اور انگریز کے مسلط کردہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خاتمے والی آزادی کے لئے چلیں۔ قیادت کی غداریوں، سامراجیوں کی چالبازیوں اور مقامی اشرافیہ کی منافقانہ سیاست سے انگریز سامراج اپنے ہی اقتصادی نظام کے نمائندوں کو اس ''آزادی‘‘ کا اقتدار دے کر چلے گئے مگر ان کا جانا بھی ایک ڈھونگ ثابت ہوا، ہزاروں میل دور بیٹھے سامراجی آج بھی یہاں اپنا معاشی تسلط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جب کسی معاشرے کی اقتصادیات ہی محکوم ہو تو سیاسی آزادی بے معنی اور بے سود بن جاتی ہے۔برصغیر کے 1.5 ارب سے زائد عام انسان معاشی اور سماجی جبرِ مسلسل کا شکار ہیں اور یہاں کشمیریوں پر ریاستی تشدد کا سلسلہ پچھلے 70 سال سے جاری ہے۔ جیسے مسئلہ فلسطین اور اسرائیلی صہیونی ریاست کی تشکیل کے باعث مشرق وسطیٰ میں کئے گئے بٹواروں کو مسلسل عدم استحکام میں رکھا گیا ہے اور ان کے باہمی تضادات کو ایک عذابِ مسلسل بنا کرعرب دنیا میں مغربی سامراجیوں نے اپنا تسلط برقرار رکھا ہوا ہے، اسی طرح کشمیر کو خطے کی وہ قتل گاہ بنا کر رکھا ہے جس کے بہتے ہوئے لہو اور سلگتے ہوئے زخموں نے عدم استحکام اور بے چینی کو جاری رکھا ہوا ہے۔ کشمیر میں جہاں درجنوں تحریکیں مسلسل ابھرتی رہی ہیں وہیں بھارت اور پاکستان کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی لاتعداد قراردادیں پاس ہوکر گل سڑ گئی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات برائے مذاکرات کا سلسلہ بھی لامتناہی عمل کے طور پر مسلسل جاری ہے لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس مذاکرات شروع بھی نہیں ہو سکے۔ اور ناہی جنگ سے مسئلہ کشمیر کا مسئلہ کسی حل کے قریب پہنچ سکا ہے۔ کشمیر جس کو جنتِ بے نظیر کا خطاب کسی شہنشاہ نے دیا تھا وہ آج کے حکمرانوں کے لئے شاید اب بھی ایک تفریح گاہ ہو لیکن یہاں کے باسیوں کے لئے معاشی‘ سماجی اور قومی محرومی اور جبر و استحصال نے اسے جہنم بنا دیا ہوا ہے۔ اس حسین وادی اور خطے میں بے روزگاری کی اذیت سے نکلنے کے لئے یہاں کے نوجوانوں کی کاوشیں پچھلے ستر سالوں میں تیز تر ہو رہی ہیں۔ جب بھوک، ننگ، افلاس کی محرومی کا درد بہت بڑھ جائے تو پھر ان تمام انسانوں کے لئے قومی حب الوطنی اور ریاستی آزادی بہت بے معنی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ویسے بھی کشمیر میں آٹھ سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لداخ سے گلگت بلتستان اور جموں سے لے کر پونچھ تک مختلف ثقافتیں پائی جاتی ہیں۔ ان تمام خطوں پر مبنی جو ریاست قائم کی گئی تھی اس پر سامراجی اور مقامی حکمرانوں کے تسلط سے پھر ان میں ایک کشمیریت کا جذبہ ابھرا ہے۔ کشمیر‘ کسی قومی جمہوری انقلاب سے جنم لینے والی ریاست نہیں ہے بلکہ حکمرانوں کے ظلم اور استحصال نے ان کو 'کشمیریت‘ میں جڑنے کی پہچان دی ہے۔ حکمران طبقے کی کوشش ہے کہ مذہبی اور قومی منافرتوں کو بڑھا کر تحریک کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ تحریک طبقاتی شکل اختیار نہ کر سکے۔ سامراجی حاکمیتیں 'بیرونی مداخلت‘ کے فراہم کردہ جواز کو تشدد و بربریت کے لئے استعمال میں لا کر تحریکوں کو منتشر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ 'بیرونی عنصر‘ دوست کی شکل میں دشمن کا کردار ادا کرکے تحریکوں کو پامال کراتا ہے۔ 1948ء میں کشمیر میں رائے شماری کا فریب دیا گیا، لیکن یہ رائے شماری عوامی خواہشات کی بجائے صرف خطے کے حکمرانوں کی حاکمیت میں جانے کے انتخاب تک محدود تھی۔ اس کے بعد حکمرانوں نے طرح طرح کے شوشے چھوڑے اور عجیب وغریب حل پیش کئے۔ کبھی کشمیر کی 8 حصوں میں تقسیم کرکے حکمرانوںکی آپس میں بندر بانٹ کی تجویز پیش کی گئی‘ کبھی'جو جس کے پاس ہے‘ کے فارمولے کے تحت کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کر کے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کا عندیہ پیش کیا گیا۔ آج بھی کچھ رائے شماری (جو مشروط اور محدود ہے) کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے کردارکو پچھلے 70 سال میں تمام کشمیریوں نے اپنے پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے ہوئے برداشت بھی کیا ہے اور اب وہ بھی اس کے فریب کو بھانپ چکے ہیں۔ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی اور مغربی سامراجیوں سے خصوصاً قوم پرستوں نے امیدیں باندھ لی تھیں۔ یہ عراق اور افغانستان میں سامراجی جارحیت اور قبضے سے حاصل شدہ آزادیوں اور جمہوریت کی اصلیت پہچاننے سے بھی عاری ہیں۔ انٹرنیشنل کمیونٹی کی عیاری بھی عام کشمیریوں اور مظلوم قوموں اورمحکوموں کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔ حکمرانوں کے کھیل اور سودے صرف مقامی حکمرانوں سے ہوتے ہیں عوام سے نہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ سودا وہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری اور برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسی طرح سے بہتر ہو رہی ہے۔ برطانوی سامراجی‘ تنازع کشمیر کا جو زخم لگا کر گئے ہیں، انہی کے پیوند کردہ حکمران طبقات، ان زخموں کو پچھلے 70سال میں بس کریدتے آئے ہیں۔ جس مسئلہ کو وہ حل کرنا ہی نہیں چاہتے‘ اس کو کیوں ختم کریں گے۔ کشمیر کا کنٹرول لائن کے اُس پار یا اِس پارکوئی ایسا خطہ‘ ضلع یا علاقہ نہیں ہے جہاں عوام معاشی اور سماجی آسودگی میں رہ رہے ہوں۔ بے روزگاری اُدھر بھی ہے اِدھر بھی ہے۔ غربت اور محرومی پورے برصغیر میں انسانی زندگی کو عذاب بنائے ہوئے ہے، لیکن ایک حقیقت اور بھی ہے، وہ یہ کہ برصغیر کے 1.5 ارب سے زائد عوام جس ذلت اور محرومی کا شکار ہیں اور جس خوشحالی کاخواب وہ دیکھ رہے ہیں، اس کی منزل کا راستہ وادیٔ کشمیر سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ پچھلے سال کشمیری نوجوانوں کی قومی اور طبقاتی ظلم وجبر کے خلاف بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ابھرنے والی تحریک نے کنٹرل لائن کے اُس پار اور پورے برصغیر میںآزادی اور نجات کی امنگوں کو پھر سے جگا دیا ہے۔ اس نے پورے خطے کے نوجوانوں کو نئی ہمت، جذبے اور ولولے سے سرشار کیا ہے۔ ایسی طبقاتی جدوجہد کی تحریک اگر بھارت اور برصغیر میں اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر اس سے معاشی اور سماجی آزادی کے ساتھ ساتھ مظلوم قومیت کو قومی آزادی کا حق بھی حاصل ہوگا کیونکہ محنت کشوں کے اقتدار میں ملکیت کی غلیظ سوچ مٹ جایا کرتی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved