اکیس فروری کو برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے1919ء میں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی طرف سے کیے جانے والے قتلِ عام پر پوری انگریز قوم کی طرف سے معافی مانگی تو ایک بھارتی صحافی نے ان سے سوال کر دیا کہ آپ ہندوستان سے قبضہ میں لیا گیا ایک سو پانچ قیراط کا کوہ نور ہیرا بھارت کوواپس کیوں نہیں کرتے؟ کاش برطانوی وزیر اعظم جواب میں کہہ دیتے کہ ’’آپ نے پینسٹھ سالوں سے کشمیر پر جو غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے‘ وہ واپس کیوں نہیں کرتے؟‘‘ آج کئی سالوں بعد کوہ نور ہیرے کی یاد تازہ ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو مر حوم کا برطانیہ کے وزیر اعظم جیمز کیلے ہان کے نام لکھا گیا خط یاد آ گیا جس میں بھٹو نے بر صغیر کے مسلمان حکمرانوں کی ملکیت اس تاریخی ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ اگست 1976ء میں بھٹو مرحوم نے کوہ نور کی واپسی کا مطالبہ کیااور چند ہفتوں بعد اس ذہین و فطین سیاستدان سے ایک سنگین غلطی سر زد ہو گئی۔ اس نے وقت سے پہلے ملک میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا اور پھر نو جماعتوں پر مشتمل قومی اتحاد کی طرف سے خون آشام تحریک ان کے گلے کا پھندا بن گئی۔ اس سے پہلے افغانستان کے ظاہر شاہ اور شاہ ایران نے بھی اس ہیرے کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے سلطنت برطانیہ سے اس کی واپسی کا مطا لبہ کیا تھا اور ان دونوں مضبوط ترین حکمرانوں کو بڑی مشکل سے اپنی جا نیں بچاتے ہوئے وہاں سے بھاگنا پڑا۔ کوہ نور کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ہندوئوں کی ایک مشہور مذہبی کتاب ’مہا بھارت‘ میں ایک ہیرے کا ذکر ملتا ہے جو ہندو راجہ ’’ کاما والی آمنگا‘‘ پہنتا تھا۔ اسی طرح مغل بادشاہ با بر اپنی کتاب ’’تزکِ بابری‘‘ میں اس نا یاب ہیرے کا ذکر کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بعد میں یہ ہیرا علائوالدین خلجی کے قبضے میں چلا گیا۔ علائوالدین خلجی کی وفات کے بعد اقتدار کیلئے شاہی خاندان کے لوگوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی اور پھر تیمور لنگ نے دہلی کی گلیوں میں آگ اور خون کی بارش کر دی۔ تیمور لنگ سے شکست کے بعد دہلی کے سلطان نصرت شاہ نے دہلی سے بھاگتے ہوئے کوہ نور‘ کمر بند کے ساتھ با ندھ لیااور اس طرح یہ ہیرا سمر قند بخارا جانے سے بچ گیا۔ تیمور لنگ کے ہندوستان پر اس حملے کے ایک سو سال بعد تک کوہ نور کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملتی۔لیکن بعد کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ابراہیم لودھی کے پاس تھا جس نے کسی کو اس کی خبر تک نہ ہونے دی بلکہ اس کے جس وزیر کو اس بات کی اطلاع تھی اسے اس کے خاندان سمیت ختم کردیا۔ جب شہنشاہ با بر نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ اب چھوٹے چھوٹے حملوں کی بجائے ہندوستان پر حکومت کو مستحکم کر نا ہے تو اس نے دریائے اٹک کو پار کیا اور پھر پانی پت کے میدان میں ابراہیم لو دھی کو شکست دی۔ ابراہیم لو دھی مارا گیا اور مغلوں کی ہندوستان میں بادشاہت قائم ہو گئی۔ ابراہیم لو دھی کے ایک راجپوت سردار‘ جو پانی پت میں مارا گیا تھا‘ کے کنبے کے سامان کی آگرہ کے قلعہ سے بھاگتے ہوئے تلاشی لی گئی تو ان کے سامان سے بہت سے ہیرے جواہرات کے علا وہ کوہ نور ہیرا بھی بر آمد ہوا۔ ہمایوں نے یہ ہیرا شہنشاہ با بر کی نذر کر دیا۔ شاہی جوہریوں نے بتایا کہ اس کی قیمت اس وقت کرہ ٔ ارض پر موجود تمام انسانوں کی تین دن کی خوراک کے برابر تھی۔ شہنشاہ با بر کی موت کے بعد ہمایوں ہندوستان کا بادشاہ بن گیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک افغان سردار شیر خان نے صوبہ بہار میں بغاوت کر دی اور پھر فوج لے کر دہلی کی طرف بڑھا۔ قنوج کے مشہور مقام پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا جس میں ہمایوں کو شکست ہوئی اور دہلی پر شیر خان نے قبضہ کر لیا جو شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوا۔ ہمایوں بھاگتا، چھپتا ایران پہنچ گیا اور وہاں کے بادشاہ طہماسپ کے پاس پناہ لی۔ہمایوں نے شاہِ ایران کو کوہ نور ہیرا تحفے میں پیش کر دیا۔ کوہ نور ایران کے شاہی خزانہ میں جمع کرادیا گیا لیکن انتہائی پر اسرار طریقے سے ایران سے کسی سوداگر کے ذریعے ریاست دکن کے حکمران برہان نظام شاہ کے پاس پہنچ گیا۔ وہ سوداگر جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہو گیا تو اس کے کپڑوں سے یہ ہیرا بر آمد ہوا ۔ شیر شاہ سوری کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ہمایوں نے پھر دہلی پر قبضہ کر لیا۔ ہمایوں کے بیٹے اکبر اعظم نے دکن پر چڑھائی کر دی اور برہان نظام شاہ کو گرفتار کر لیا۔ برہان شاہ نے اپنی اور اپنے خاندان کی جان بخشی کے عوض کوہ نور شہزادہ اکبر کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس طرح ہیرا دوبارہ مغلوں کے پاس آ گیا۔ ہمایوں کے بعد اکبر اور پھر جہانگیر کو ملا۔ جب شاہجہاں بادشاہِ ہند ہوا تو کوہ نور ملکہ ممتاز محل کی ملکیت بنا۔ شاہجہاں کی زندگی میں ہی اس کے چاروں بیٹے اورنگزیب،شجاع، مراد اور دارا شکوہ تخت کے حصول کے لیے آپس میں جنگیں کرتے رہے جن میں اورنگ زیب کامیاب رہا۔شاہ جہاں کو قلعہ میں قید کر دیا گیا اور پھر کوہ نور اورنگ زیب عالمگیر کی ملکیت میں آگیا۔ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تودہلی برباد ہو گیا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے نادر شاہ کے قدموں میں گر کر عام معافی کی درخواست کی۔ صدیوں سے جمع کی ہوئی مغل سلطنت کی بے شمار دولت، ہیرے جواہرات اور تخت طا ئوس بھی نادر شاہ نے اپنے قبضہ میںکر لیا‘ مگر کوہ نور ہیرا محمد شاہ نے اپنی پگڑی کے اندر چھپا لیا۔ نادر شاہ کو اس کے جاسوسوں نے اس کی خبر کردی۔ چنانچہ نادر شاہ نے اپنی پگڑی اتار کر محمد شاہ کے سر پر رکھ دی اور اس کی پگڑی خود پہنتے ہوئے کہا کہ آج سے ہم دونوں بھائی بھائی ہیں۔ اس طرح یہ نا یاب اور تایخی ہیر ایک بار پھرایران پہنچ گیا۔ ایران سے یہ ہیرا افغانستان پہنچا اور شاہ شجاع کی ملکیت بنا لیکن شاہ شجاع جب رنجیت سنگھ کے پاس پنجاب میں روپوش تھا تو رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع کی مدد کے وعدے پر تین لاکھ روپے نقد اور پچاس ہزار سالانہ کی جاگیر پر کوہ نور ہیرا خرید لیا۔ جب انگریزوں نے پنجاب میں سکھ اقتدار کا خاتمہ کیا تو 1846ء میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان معاہدۂ لاہور کے تحت پنجاب پر قبضے کے علا وہ کوہ نور ہیرا بھی انگریزوں کی ملکیت بن گیا۔لارڈ دلہوزی نے یہ ہیرا ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس وقت انگریز سلطنت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن کوہ نور آتے ہی برطانوی سلطنت آہستہ آہستہ سکڑنے لگی جو آج ایک جزیرے تک محدود ہے جہاں‘ سورج کبھی کبھی ہی طلوع ہو تا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved