تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-02-2018

کراچی … یا بم؟

کراچی کیا ہے؟ یعنی اس شہر کی تعریف کس طور کی جانی چاہیے۔ ذہن کے پردے پر بہت کچھ نمودار ہوتا ہے مگر جب بیان کرنے بیٹھیے تو زبان پر تالے سے پڑ جاتے ہیں۔ ایک شہر میں درجنوں چھوٹے بڑے شہر بسے ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے شہر کا نظم و نسق سنبھالنا اور چلانا واقعی بہت بڑا دردِ سر ہے۔ شہر کے سو رنگ ہیں۔ مشکل ... یا بدقسمتی یہ ہے کہ اِن میں منفی اور آنکھوں کو چبھنے والے رنگ زیادہ ہیں۔ شہر بھر میں لاقانونیت عروج پر ہے۔ ایک طرف مقامی اور صوبائی آبادی ہے اور دوسری طرف ملک بھر سے آئے ہوئے لوگوں پر مشتمل آبادی۔ ان کے درمیان رسّا کشی عروج پر ہے۔ سبھی شہر پر ''قبضہ‘‘ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے پورا شہر ہی قبضہ مافیا کے ہاتھوں میںہے۔ 
انتظامی مشینری میں غیر مقامی اس قدر نمایاں ہیں کہ مقامی آبادی میں احساسِ محروم اور اشتعال کا ابھرنا لازمی اور فطری امر ہے۔ پولیس کی مثال اس حوالے سے بہت موزوں ہے۔ بیورو کریسی کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت نے اب تک ایسا کچھ نہیں کیا جس سے اندازہ ہو کہ وہ مقامی آبادی کو سرکاری ملازمتوں میں عمدگی سے کھپانا چاہتی ہے۔ خالص مقامی ملازمتوں میں بھی غیر مقامی افراد دکھائی دیتے ہیں۔ 
مختلف برادریاں شہر بھر میں یوں سرگرم ہیں کہ شہر برادریوں میں بٹا ہوا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ جس علاقے میں جس کا بس چلتا ہے وہ ہر چیز قبضے میں لینا چاہتا ہے۔ رفاہی پلاٹس اور عام سرکاری پلاٹس کی بندر بانٹ اپنی جگہ، یاروں نے سروس روڈز اور فٹ پاتھ بھی نہیں چھوڑے ہیں۔ جس کے جہاں سینگ سماتے ہیں وہ وہاں بیٹھ جاتا ہے اور ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ 
یہ ہے وہ صورتِ حال جس کے تناظر میں کراچی کے حوالے سے طرح طرح کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اور بیشتر اندیشے بے بنیاد نہیں۔ کراچی میں رفاہی پلاٹس پر قبضے اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کو سنبھالا جائے کیونکہ یہ شہر بم کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ توجہ نہ دی گئی تو ابھی نہیں یا کبھی نہیں کی منزل آجائے گی۔ ادارۂ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) کی کارکردگی پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اگر مشینری نہیں ہے تو ادارہ بند کردیں۔ انہوں نے کے ڈی اے کی رپورٹ بھی مسترد کردی۔ جسٹس گلزار نے انتباہ کیا کہ سخت اقدام پر مجبور نہ کیا جائے۔ واگزار کرائے گئے پلاٹس کی حفاظت کون کرے گا؟ 
چند ماہ کے دوران کراچی میں جو کچھ ہوا ہے وہ انتہائی حیرت انگیز اور بہت حد تک عبرت ناک بھی ہے۔ رفاہی پلاٹس پر قائم غیر قانونی تعمیرات مسمار کرنے کی کارروائی تیزی سے جاری ہے۔ شہر بھر میں عمومی سرکاری پلاٹس کو واگزار کرانے کی بھی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ بڑے سرکاری قطعاتِ اراضی کو چائنا کٹنگ کے ذریعے ڈکار جانے کی روش اس قدر عام ہوگئی تھی کہ لگام نہ دی جاتی تو سڑکوں پر بھی قبضے ہو جاتے! 
جسٹس گلزار کا ناراض ہونا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ شہرِ قائد کے طول و عرض میں ہزاروں رفاہی پلاٹس کا قبضہ ختم کرانے کے لیے دیئے گئے عدالتی احکام پر عمل کے خاطر خواہ نتائج اب تک اب تک برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔ ایک طرف چائنا کٹنگ اور دوسری طرف رفاہی پلاٹس کا معاملہ۔ یہ دو دھاری تلوار ہے جو کراچی کے حلق پر چلی ہے۔ چائنا کٹنگ میں عام پلاٹس کو کسی نہ کسی طور گھیرنے کے بعد ٹکڑے کرکے بیچ دیا گیا۔ دوسری طرف رفاہی پلاٹس پر قبضہ جماکر غیر قانونی تعمیرات کی گئیں۔ ڈکارنے والے کھیل کے میدان اور اسی نوعیت کے دیگر ہزاروں پلاٹس ڈکار گئے۔ 
کراچی میں ہزاروں افراد لالچ میں اندھے ہوکر حماقت کی ہر حد سے گزر گئے۔ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران ایک زمانہ ایسا گزرا کہ کسی کو سمجھایا بھی جاتا کہ آنکھوں دیکھی مکھی نہ نگلو یعنی سرکاری پلاٹ اونے پونے داموں نہ خریدو تو وہ متوجہ ہونے کے بجائے بُزدل قرار دے کر تمسخر اڑاتا تھا! لوگ لالچ کے گڑھے میں گر کر ''بہادری‘‘ کا مظاہرہ کرتے رہے اور اب اس بہادری کا زہریلا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ یہ سب کچھ سب کے سامنے ہوتا رہا مگر لوگوں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ کراچی بھر میں سرکاری پلاٹس کو شیرِ مادر کی طرح پی جانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ لوگ کھلی آنکھوں سے دھوکا کھاتے رہے اور خود کو عقل مند قرار دیتے رہے۔ وہ سب بے وقوف ٹھہرے جو بُرے انجام سے متنبہ کرتے رہے۔ سرکاری زمین کو لوگوں نے بہتی گنگا کا درجہ دے کر اُس میں صرف ہاتھ پیر نہیں دھوئے مگر اشنان کی منزل سے گزرے! 
جسٹس گلزار احمد کا انتباہ بروقت ہے۔ کراچی کے معاملات جس بری طرح الجھے ہوئے ہیں یا الجھائے گئے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ بم دن بہ دن زیادہ سے زیادہ طاقتور ہوتا جارہا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، کسی بھی بم کے اندر دھماکا خیز مواد جس قدر ہوگا دھماکا بھی اُسی قدر طاقتور ہوگا۔ کراچی کے معاملات ایسے نہیں کہ آنکھیں بند کرلی جائیں۔ معیشتی سرگرمیوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے شہر سے اپنی مرضی کے مطابق معاشی رس نچوڑنے والوں کی کمی نہیں مگر کوئی اس شہر کو دل سے اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ 
کراچی میں بنیادی طور پر چار قسم کی آبادیاں ہیں۔ ایک طرف اردو بولنے والا طبقہ ہے جو یہیں پیدا ہوتا اور کہیں پیوندِ خاک ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر اہلِ سندھ ہیں جو دو کشتیوں میں سفر کرتے ہیں یعنی کراچی میں بھی رہتے ہیں اور اندرون سندھ بھی ان کے معاملات چل رہے ہوتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر دیگر صوبوں کے وہ لوگ ہیں جو نصف یا پون صدی سے کراچی کا حصہ ہیں۔ یہ مختلف زبانیں بولنے کے باوجود کراچی کا انتہائی بنیادی حصہ ہیں۔ اور چوتھے نمبر پر دیگر صوبوں کے وہ لوگ ہیں جو اہلِ سندھ کی طرح دو کشتیوں کے مسافر ہیں۔ ایسے لوگ بیس تیس سال سے کراچی میں رہتے ہوئے بھی خود کو اجنبی یا غیر مقامی ہی سمجھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ان چار طرح کی آبادیوں میں سے کوئی بھی اِس شہر کو دل سے اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ سب ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ نا انصافی اگر ہو رہی ہے تو ان کے ساتھ جو قانونی رہائش رکھتے ہیں اور یوٹیلیٹی بلز کے علاوہ تمام ٹیکسز بھی باقاعدگی سے ادا کر رہے ہیں۔ کم و بیش ساٹھ ستر لاکھ افراد ایسے ہیں جو شہر میں رہتے ہیں، کماتے ہیں مگر شہر کے بنیادی ڈھانچے کو پائیدار بنانے میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ تمام بنیادی سہولتوں سے بہرہ مند ہونے پر بھی یہ لوگ شہر کو own کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مقامی قرار دیئے جانے والوں میں اردو، سندھی، پنجابی، سرائیکی بولنے والے شامل ہیں مگر اِن کے مقابل وہ لوگ زیادہ فائدے میں ہیں جو سرکاری زمینوں پر کچی آبادیاں بناکر رہتے ہیں، تمام بنیادی سہولتوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، یوٹیلیٹی بلز بھی ادا کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور ہر چیز پر حق جتانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ 
یہ تماشا اب ختم ہونا چاہیے۔ بنیادی سہولتیں، کما حقہ، صرف انہیں ملنی چاہئیں جو لوگ اچھے شہری ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے حکومتی مشینری کو تمام ادائیگیاں کرتے ہیں۔ قانون کی بالا دستی کا تصور عملی سطح پر دکھائی دینا چاہیے۔ غیر قانونی تعمیرات مسمار کرنے کا عمل چند مخصوص علاقوں تک محدود نہ رکھا جائے۔ کچی آبادیوں میں سرکاری زمین ڈکار جانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو جسٹس گلزار احمد کا بیان کردہ بم پھٹنے کی صورت میں زیادہ تباہی کا باعث بنے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved