پاکستان کو ستر سال کے دوران‘ مختلف ٹکڑوں میں ملنے والی جمہوریت کے بارے میں اکثر سوچتا ہوں کہ بابائے قوم قائداعظمؒ نے پاکستان میں جس جمہوریت کا خواب دیکھا تھا‘ آج اگر وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے حاصل کئے ہوئے وطن کا جائزہ لیں تو یقینا ان کے سر میں درد شروع ہو جائے گا۔ایک سردار جی کا لطیفہ بڑا مشہور ہے کہ ایک محفل میںبیٹھے اپنے قریبی دوست کا تعارف کراتے ہوئے کہا ''آج میں جس دوست کا تعارف کرا رہا ہوں۔ یہ بڑے کمال کا بندہ ہے‘‘۔ جب مہمان کو ازرہ مذاق دو چار دوستوں نے بیک زبان کہا ''کیا یہ بند ہ ہے؟‘‘
مہمان سردار جی غمزدہ ہوئے اور کہنے لگے ''کیا میں بند ہ ہوں؟‘‘
سردار جی کو بندہ کہنے والے چند اہلِ محفل نے اپنی بات دہرائی اور کہا ''آپ اچھے بھلے بندے نظر آتے ہیں۔پھر بندہ کہنے پر آپ غمزدہ کیوں ہوئے؟‘‘
''دیکھیں جی میں ساری دنیا گھوما ہوں۔ نہ کسی نے مجھے بندہ کہا اور نہ سردار جی کہہ کے مخاطب کیا؟‘‘
دوستوں نے پوچھا ''کیا اس سے پہلے کسی نے آ پ کو بندہ کہا؟‘‘
سردار جی نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اور کہا ''ہر بندے کا ایک نام ہوتا ہے۔ آپ دنیا میں کسی بھی آدمی سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ہر شخص کا ایک نام ہوتا ہے۔ پہچان ہوتی ہے۔ ہمارا کیا گناہ ہے؟ ہماری شکل دیکھتے ہی سردار جی کہا جاتا ہے۔ زیادہ غور سے دیکھیں تو کہتے ہیں یہ بھی بندہ ہے؟ میں نے ساری دنیا کی سیر کی ہے لیکن نہ تو کسی نے مجھے سردار جی کہا اور نہ ہی بندہ‘‘۔
پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہماری قیادت دنیا میں امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ بابائے قوم قائداعظمؒ برصغیر کی تمام قوموں کے لیڈروں میں سب سے بڑے تھے۔ انہیں ممتاز مقام حاصل تھا۔ان کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خان تھے۔ وہ بھی عالمی سطح کے لیڈر تھے۔ آج کے نوجوان یہ بات حیرانی سے پڑھیں گے کہ قائداعظمؒ کی لاہور‘ کراچی اور ممبئی میں کروڑوں کی جائیدادیں تھیں۔ وہ سب کچھ اپنی قوم کے سپرد کر گئے۔ یہی حال نوابزداہ لیاقت علی خان کا تھا۔ بھارت میں ان کی وسیع و عریض جاگیر تھی۔ اپنے گائوں میں انہوں نے زبردست محل بنا رکھا تھا۔ جب پاکستان آئے توکوئی کلیم نہیں لیا۔ شہادت پانے کے بعد جب ان کے لباس کی جیبیں دیکھی گئیں‘ تو صرف چند روپے برآمد ہوئے۔ سردار عبدالرب نشتر بھی ایسے ہی تھے۔ انہوں نے بھی اپنا سب کچھ وطن عزیز کے حوالے کر دیا۔ پنجاب کا گورنر بننے کے باوجود ان کے بچے‘ سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں ہی پڑھتے رہے۔ گورنر ہائوس سے ان کا بیٹا سائیکل پر سکول جایا کرتا تھا۔
ہمارے ان بانی قائدین نے نئی ریاست کے ایک ذرے پر ملکیت نہیں جتائی۔ وہ پورے پاکستان کو اپنا سمجھتے تھے۔ساری قوم کو اپنا خاندان تصور کرتے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ دونوں ملکوں کی قیادت نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور جمہوری طور طریقوں کو بھی وہیں دیکھ کر آئے تھے۔ ہندوستان کے جتنے ممتاز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لیڈر تھے‘ انہوں نے نہ صرف جمہوریت کا مطالعہ کیا تھا بلکہ اس کا مشاہدہ بھی کیا۔ ان سارے لیڈروںمیں شاید ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے عہدوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت جمع کی ہو۔ جب آج کے سیاسی لیڈر جمہوریت کی تعریف کرتے ہیں اور قوم سے کہتے ہیں کہ وہ جمہوری نظام کو رائج کریںگے، ہر شہری کا ایک ووٹ ہو گا، ان ووٹوں کے نتیجے میں جو سیاسی پارٹی اکثریت حاصل کرے گی ‘ اسی کو حکومت بنانے کا حق ہو گا۔ لیکن ہر بار جب جمہوریت کے قدم جمنے لگے‘ کوئی نہ کوئی جنرل‘ ٹینک لے کر دارالحکومت میں داخل ہوتا اور اس کے بعد آمریت قائم ہو جاتی۔ مسلمانوں کی صف اول کی قیادت کے رخصت ہوتے ہی‘ ایسے لٹیرے حکومت پر فائز ہوئے‘ جوجمہوریت کا مفہوم تک نہ سمجھتے تھے۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت تھے لیکن جو سیاست انہوں نے کی‘ وہ ذات پات پر مبنی تھی۔میں طوالت سے بچنے کے لئے صرف اکا دکانام لے رہا ہوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی لیڈروں کی جو نسلیں اقتدار پر قابض ہوتی گئیں‘ وہ پاکستان کے وسائل اور اثاثوں کو دونوں ہاتھوں سے اندھا دھند دولت لوٹنے میں مصروف رہیں۔
آج پھر جمہوریت کے چر چے ہیں۔ جمہوریت کے نعرے ہیں۔ لیکن کسی بھی لیڈر سے آپ دوسرے لیڈر کے بارے میں جاننا چاہیں تو سب کا ایک ہی جواب ملے گا ''لوٹ گیا، جی لوٹ گیا۔ زمینوں پر قبضے جما گیا۔ ہاریوں اور مزارعین کی محنت کا پھل لوٹ کراپنے اثاثوں میں شامل کر گیا‘‘۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ حکمران سیاست دان لوٹ مار کے ساتھ ساتھ اپنی شہرت کا سکہ بھی جماتے ہیں۔اندھادھند سرکاری سرمایہ خرچ کر کے اپنی تصویریں چھپواتے ہیں۔ اب تو یہ نئے دور کے فیشن بھی اختیار کرتے ہیں۔ آخری آمر پرویز مشرف ایسے تھے جنہوں نے اپنے کسی بچے کو لوٹ مار میں شامل نہیں کیا۔البتہ جو اثاثے انہوں نے جمع کئے ہیں‘ وہ یقینا بچوں کو منتقل ہوں گے۔ اب آئیے! ''حاضر سروس‘‘ لیڈروں کی طرف۔ یہ ایک دوسرے کو ڈاکو‘ لٹیرا‘ قبضہ مافیا اور بھتہ خور کہتے ہیں۔ ہر لیڈر دوسرے کو للکارتا ہے بلکہ یہاں تک بھی کہتا ہے کہ میں سڑک پر اس کا پیٹ چیر کے لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا۔ نکالتا کوئی بھی نہیں۔ ایک حکمران تو ایسا ہے جس کی خاتون خانہ کے سوا‘ کنبے کا ہر چھوٹا بڑا اندھا دھند دولت سمیٹتا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں ان کے محلات پھیلے ہوئے ہیں۔ کسی بھی مزدور‘ کسان اور ملازمت پیشہ شخص سے سیاست دانوں کے بارے میں دریافت کریں تو ہر کوئی‘ ان پر زور سے تھوکتا ہے۔ اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ اسمبلیوں کی رکنیت حاصل کرنے والے 98 فیصد نمائندے‘عوامی اور سماجی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر تے۔ لوکل باڈیز کے اراکین بھی ڈاکوئوں اور سمگلروں کے مقابلے میں زر اندوزی کرتے ہیں۔ہر گزرتے دن کے ساتھ کسی نہ کسی درجے کا امیدوار‘ ابھی سے ا پنی تشہیر کرنے میں مصروف ہے تاکہ آنے والے وقت میں بڑا لیڈر کہلاسکے۔