تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     07-02-2018

کراچی کا قانون

چند دن پہلے میں کراچی کے علاقے عائشہ منزل کے قریب ایک مارکیٹ میں لوگوں سے آئندہ کی سیاست کے بارے میں ان کی رائے جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ سوال یہ تھا کہ کیا آئندہ انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اپنا مینڈیٹ برقرار رکھ پائے گی یا کوئی اور جماعت اس کی جگہ لے لے گی۔ کوشش تو تھی کہ جواب دینے والوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کی تعداد میں تناسب قائم رہے لیکن عجیب و غریب صورتحال کا سامنا تھا۔ بزرگ تو سوال کا جواب اثبات یا نفی میں دے رہے تھے مگر نوجوان کسی واضح جواب سے گریز کر رہے تھے۔ اس سے پہلے میں عزیز آباد میں بھی یہی دیکھ چکا تھا کہ نوجوان میرا سوال سنتے ہی اِدھر اُدھر کی ہانکنے لگتے ہیں۔ کوئی دعائیہ انداز میں ملک کے لیے بہتر قیادت کا طلب گار تھا، کوئی سیاست میں عدم دلچسپی کا دعوے دار تھا اور کوئی سوال سنتے ہی معذرت کرکے یہ جا وہ جا۔ میں اس سے پہلے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کئی سیاسی سروے کرچکا ہوں‘ جہاں نوجوان ڈٹ کر اپنے رائے دیتے رہے ہیں مگر کراچی کا نوجوان پراسرار طور پر خاموش تھا۔ خیر، عائشہ منزل کی اس مارکیٹ میں گاڑیوں کی ایک ورکشاپ کے سامنے چند نوجوان کھڑے تھے جن کا لباس بتا رہا تھا کہ وہ کار مکینک ہیں۔ میں نے لپک کر دنیا ٹی وی کا مائیک ان کے سامنے کیا اور اپنا سوال دہرا دیا۔ پھر وہی ہوا، کسی نے دعا مانگی، کسی نے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور کسی نے کہا کہ جو ہمارے مسائل حل کرے گا وہی کراچی کا مینڈیٹ لے لے گا۔ بیس سے تیس سال کے ان چھ نوجوانوں کے جواب سن کر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے کیمرا بند کرایا اور ان سے ہاتھ جوڑ کر پوچھا، ''بھائیو سیدھا جواب دو‘‘۔ ان میں سے ایک نے دوبارہ کیمرا بند ہونے کی یقین دہانی چاہی تو جواباً میں نے کیمرا مین کو دور بھیج دیا۔ اب ان کی تسلی ہوئی تو ان سب نے بیک زبان کہا، ''ہاں، ایم کیو ایم آئندہ الیکشن میں بھی کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہو گی‘‘۔ پوچھا: یہ کیمرے پر کیوں نہیں کہتے، آخر کو یہ شہر اور یہ ملک عام آدمی کی ملکیت ہی تو ہے؟ میری بات پر یہ سب ہنس پڑے اور ان میں سے ایک بولا، ''حبیب بھائی کراچی میں ایم کیو ایم سے ہمدردی رکھنا آسان کام نہیں۔ ابھی کیمرے پر اپنی محبت کا اعلان کر دیا تو شاید اٹھا لیا جاؤں اور نجانے کب مجھے چھوڑا جائے ‘‘۔
عائشہ منزل کے بعد میں لانڈھی گیا‘ جہاں ایک بار پھر نوجوانوں کے اسی رویے سے پالا پڑا بلکہ یہاں تو اچھی خاصی عمر کے لوگ بھی بات نہیں کر رہے تھے۔ ایک گل فروش نے میرا سوال سن کر مشورہ دیا، ''بھیا، سچ سننا ہے تو کیمرا بند کرو ورنہ کوئی اپنے دل کی بات نہیں بتلائے گا‘‘۔ لانڈھی کے بعد کورنگی پہنچا تو ایک رکشہ والے کے سامنے مائیک کر دیا۔ اس نے بھی کوئی جواب نہ دیا۔ بس سٹاپ پر کھڑے نوجوانوں کو کریدا تو خاموشی کے سوا کچھ نہیں۔ تھک ہار کر ایک چائے کے ہوٹل پر بیٹھ گیا تو وہی رکشے والا چار پانچ لوگوں کو ساتھ لے کر میرے پاس آ گیا۔ ان سب نے بھی وہی بات کی جو میں عائشہ منزل پر سن چکا تھا۔ پکڑ لیے جانے کا خوف ان کے دلوں میں گھر کیے ہوئے تھا۔ ہر ایک نے مجھے کوئی نہ کوئی کہانی سنائی کہ کس طرح فلاں کو ایم کیو ایم کا جھنڈا لہرانے پر اٹھا لیا گیا، کسی نے نعرہ لگایا اور دھر لیا گیا، کسی نے جلسے میں شرکت کر لی تو اس کا خمیازہ بھگتا۔ کراچی کے سیاسی مستقبل کے بار ے میں جواب ان کا بھی وہی تھا یعنی ایم کیو ایم ہی شہر کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔
یکے بعد دیگرے ملیر، اورنگی ٹاؤن اور ناظم آباد میں ایک ہی بات سن سن کر وہ وقت یاد آیا جب کراچی میں ایم کیو ایم کے سوا کسی اور سیاسی جماعت کے حق میں آواز اٹھانا عام آدمی تو دور کی بات بڑے بڑے رہنماؤں کے لیے بھی مشکل تھا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن راوی ہیں کہ نوے کی دہائی میں جماعت اسلامی کے لیے کراچی میں درس قران کا انعقاد بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ جو کارکن بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتا، کسی اندھی گولی کا شکار ہو جاتا یا ایم کیو ایم کے لوگ اس کے گھر پر ہجوم کر دیتے۔ ان حالات میں منور حسن‘ جو اس زمانے میں جماعت اسلامی کراچی کے ذمہ دار تھے، سیدھے نائن زیرو چلے گئے اور ایم کیو ایم کے قائد سے ملاقات کر کے ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ بات سن کر قائد موصوف غصے میں آ گئے اور ایک رجسٹر منگوا کر سید منور حسن کے سامنے رکھا‘ جس کے مطابق پچھلے ایک ماہ کے دوران جماعت اسلامی نے درس قران کے انہتر پروگرام کیے تھے۔ یہ رجسٹر دکھا کر سامنے پڑی میز پر مکا مارا اور کہا، ''منور حسن صاحب، ہم درسِ قران کا ایک پروگرام بھی نہیں ہونے دیں گے لہٰذا آپ بھی باز آ جائیں کیونکہ یہ شہر ہمارا ہے‘‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جب متحدہ حکومت میں تھی اور اس کے بعد مسلسل حکومت میں ہی رہی، کبھی بے نظیر بھٹو کے ساتھ، کبھی نواز شریف کے ساتھ اور پھر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ۔ اپنے دورِ حکومت میں ایم کیو ایم نے کراچی میں قانون و دستور کی دھجیاں اڑا دیں‘ اور اتنا خوف پیدا کر دیا کہ خود اس کے اپنے کارکنوں نے بھی خاموشی اختیار کرکے دل کی بات کہنا چھوڑ دیا۔ حالات نے پلٹا کھایا تو یوں کہ آج ایم کیو ایم کا نام لینا مشکل ہے اور باقی ہر جماعت کے کارکن دبنگ انداز میں اپنی بات کہنے لگے ہیں۔ 
سروے میں ایسا نہیں تھا کہ شہر کے تمام نوجوان ہی ڈرے ہوئے تھے، کچھ ایسے بھی تھے جو کھل کر جواب دے رہے تھے اور بہت سے احتیاط کے ساتھ اپنے دل کی بات کر رہے تھے مگر اکثریت خیالات کے اظہار سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ ان کے دلوں میں آج بھی ایم کیو ایم بستی ہے جس کے ساتھ علانیہ محبت کراچی کے ان لکھے قانون کے تحت جرم ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف کا ڈٹ کر ساتھ دینا بالکل عام سی بات ہے مگر کراچی کے اردو بولنے والے نوجوان کے لیے کھل کر ایم کیو ایم سے محبت کا اظہار مشکل ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا دستور میں دی گئی آزادیٔ اظہار کی شق بے معنی ہو چکی ہے یا اس شہر میں پاکستان کا قانون نہیں چلتا؟ ماضی میں تو چلیے ایم کیو ایم نے دستور زباں بندی اس شہر میں نافذ کر رکھا تھا، اب وہ لوگ کون ہیں جو لوگوں کو بولنے نہیں دیتے؟ ہم روز سنتے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے اور جمہوری اقدار کا تقاضا ہے کہ ہر شخص کے لیے رائے کا اظہار آخری حد تک ممکن ہو۔ اظہار کا یہ حق کسی علاقے کے ساتھ مخصوص ہے نہ رنگ و نسل کی بنیاد پر اس میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ تو پھر ملک کے سب سے بڑے شہر کے نوجوان بات کرنے سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟ اگر اس شہر میں بات کہنے کی آزادی نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ چار سال سے جاری آپریشن بھی بے فائدہ ہے۔ کراچی کو لاقانونیت کے خوف سے نکال کر ریاست کے بے جا خوف میں مبتلا کر دینا کامیابی نہیں، غلطی ہے۔ قائد اعظم کے شہر کے ہر باسی کا حق ہے کہ اسے وہی آزادی ملے جو مریم نواز اور نواز شریف صاحب کو میسر ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ لاہور والوں کے جو منہ میں آئے کہہ ڈالیں اور کراچی والے بات بھی نہ کر پائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved