تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-02-2018

سُرخیاں‘ متن‘ تیمور حسن تیمور اور ضمیر طالب

ووٹ کو عزت دو گے تو ملک چلے گا‘ ورنہ بیٹھ جائے گا : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ووٹ کو عزت دو گے تو پاکستان چلے گا ورنہ بیٹھ جائے گا‘‘ جبکہ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب یہی ہے کہ وزیراعظم‘ خاص طور پر نوازشریف کو نااہل نہ کیا جائے بلکہ ان کو وہی کچھ کرنے دیا جائے جسے وہ عوام کی خدمت سمجھتے ہیں جس کی کوئی حدود و قیود بھی نہ ہوں اور اس خدمت کو جہاں وہ چاہیں لے جانے پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''کوئی فیصلہ عوام سے رشتہ نہیں توڑ سکتا‘‘ کم از کم اُس وقت تک نہیں جب تک پنجاب حکومت قائم ہے اور جُملہ پٹواری اور سکول ٹیچر وغیرہ کو جلسہ گاہ میں لانے کے وسائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان سے نااہل ہوا‘ آزاد کشمیر سے نہیں‘‘ کیونکہ مودی صاحب کے نزدیک آزاد کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اس لیے یہاں اہل ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نااہلی سے میرے تمام پروگراموں پر پانی پھر گیا‘‘ اور میری ساری نیک کمائی بھی خطرے میں ہے‘ جبکہ اصل پانی اسی پر پھرا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز مظفر آباد میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
مصنوعی خونی لکیر مٹنے کو ہے : مریم نواز
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ '' مصنوعی خونی لکیر مٹنے کو ہے‘‘ حتیٰ کہ اصلی خونی لکیر بھی کافی مدھم ہو چکی ہے‘ تاہم آزاد کشمیر سے ووٹ حاصل کرنے کی خاطر اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میری رگوں میں بھی کشمیری خون ہے‘‘ اور یہ میرے والد کی طرف سے ہے جبکہ میرے والد مسئلہ کشمیر پر کھُل کر کبھی کچھ نہیں کہہ سکے نہ ہی دنیا بھر میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ اُن کی بعض مجبوریاں ہیں جنہیں ہر کوئی بخوبی سمجھتا ہے‘ اس لیے کشمیریوں کو چاہیے کہ اُن کی مجبوریوں کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھیں ۔ انہوں نے کہا کہ'' نوازشریف اور شیر کو ووٹ دینے پر میں آپ کی شکرگزار ہوں‘‘ اور وزیراعظم بن کر بھی آپ کی شکرگزار رہوں گی بیشک اس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ آپ اگلے روز مظفر آباد کے جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
زرداری قوم سے معافی مانگیں‘ لوٹی 
ہوئی دولت واپس لائیں : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''زرداری قوم سے معافی مانگیں اور لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں‘‘ اگرچہ یہ دولت میں نے واپس لانی تھی لیکن اب ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اندر سے کوئی کیسے باہر بیٹھے ہوئے کا پیٹ پھاڑ سکتا ہے نہ لوٹی ہوئی دولت نکال سکتا ہے‘ اس لیے زرداری صاحب لوٹی ہوئی دولت خود ہی واپس لے آئیں‘ مہربانی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران نے قوم کا مزاج بگاڑا‘‘ کیونکہ عوام میں سے پہلے کوئی کرپشن کے بارے فکرمند ہی نہیں تھا‘ اور آرام آرام سے ہر جگہ سارا کام ہو رہا تھا لیکن اس نے قوم کو ایسی پٹی پڑھائی کہ پوری قوم کو گمراہ کر کے رکھ دیا بلکہ اُلٹا ہمیں بھی اس نوبت تک پہنچا دیا کہ خدا دشمن کو بھی نہ پہنچائے۔ انہوں نے کہا کہ ''بشری کمزوریوں کے باوجود عوام کی خدمت کی ہے‘‘ اور ان بشری کمزوریوں ہی کی وجہ سے یہ خدمت کچھ اس طرح کی ہو گئی کہ اب تک بھُگت رہے ہیں۔ آپ اگلے دن قصور کا دورہ کر رہے تھے۔
نوازشریف دھرتی کا ناسور بن چکے‘ ان کو نکالنا ہو گا : آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''نوازشریف دھرتی کا ناسور بن چکے‘ ان کو نکالنا ہو گا‘‘ کیونکہ ابھی کئی اور ناسور بھی ہیں جو لائن میں لگے ہوئے ہیں لیکن اُنہیں باری ہی نہیں دی جا رہی کیونکہ معاہدہ یہی تھا کہ دونوں ناسوروں کو باری باری لاحق ہونے کا موقعہ دیا جائے گا لیکن وہ ہرگز ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اس لیے انہیں نکالنا ہو گا تاکہ دوسرے ناسور کی حقرسی ہو سکے۔ ۔ انہوں نے کہا کہ ''غریبوں کے چور نوازشریف نے بادشاہت کے لیے مُلک کی جڑیں کاٹیں‘‘ حالانکہ ملک کی جڑیں کاٹنے کے کئی اور بہتر طریقے بھی موجود ہیں‘ تاہم غریبوں کی چوری اس لیے ضروری ہے کہ وہ کچھ کر نہیں سکتے‘ بیشک ان کا گھر اُن کے سامنے لُوٹا جا رہا ہو۔ آپ اگلے روز موچی دروازہ میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب تیمور حسن تیمور کے مجموعہ کلام ''تیرا کیا بنا‘‘ میں سے ایک غزل :
مجھ کو کہانیاں نہ سُن‘ا شہر کو بچا
باتوں سے میرا دل نہ لبھا‘ شہر کو بچا
میرے تحفظات تحفظ سے ہیں جُڑے
میرے تحفظات مٹا‘ شہر کو بچا
تُو جاگ جائے گا تو سبھی جاگ جائیں گے
اے شہر یار جاگ ذرا‘ شہر کو بچا
تُو چاہتا ہے گھر ترا محفوظ ہو اگر
پھر صرف اپنا گھر نہ بچا‘ شہر کو بچا
کوئی نہیں بچانے کو آگے بڑھا حضور
ہر اک نے دوسرے سے کہا‘ شہر کو بچا
بھڑکا رہی ہے آگ کو خود تیل ڈال کر
کہہ بھی رہی ہے خلق خدا‘ شہر کو بچا
تاریخ دان لکھے گا تیمور یہ ضرور
اک شخص تھا جو کہتا رہا ،شہر کو بچا
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کے تین شعر :
اُنہیں یہ غم نہیں بیمار ہوں کتنا
انہیں یہ فکر ہے میں ٹھیک کتنا ہوں
دیکھتا ہوں میں کسی اور سبب سے اُس کو
وہ کسی اور سبب سے نظر آتا ہے مجھے
عجیب لوگ ہیں‘ جس کو ہُنر جو آتا نہیں
یہاں وہ کام اُسی سے کرایا جاتا ہے
آج کا مطلع
خُدا کی مار دیکھو‘ دم بہ دم سوئے ہوئے ہیں
قیامت آ چکی ہے اور ہم سوئے ہُوئے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved