اس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور ان کے نیچے حلقے پڑے ہوئے تھے۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ کافی عرصے سے ایک پرسکون نیند کے لیے وہ ترس رہا ہے۔ وہ ملک کے سب سے بڑے ماہرِ نفسیات کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ ایک بہت بڑی کمپنی کا مالک تھا۔ وہ کمپنی جس کی شاخیں بیرونِ ملک تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کے ایک دستخط سے بڑے بڑے فیصلے صادر ہوتے۔ لوگوں کی قسمتوں کا فیصلہ ہوتا لیکن اس کا کہنا یہ تھا کہ ایک سازش کے تحت کچھ لوگوں نے اسے اپنا غلام بنا لیا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے ایک قدم بھی اب اٹھا نہیں سکتا۔ اس قدر بڑی حیثیت رکھنے کے باوجود، وہ صرف اور صرف ایک غلام تھا۔ ڈاکٹر نے اس سے کہا کہ وہ اپنی اس غلامی کی تفصیلات بتائے۔
اس نے کہا ''وہ پراسرار دشمن خطرناک ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ میں زندگی میں ہر کام اب ان کی اجازت سے سر انجام دیتا ہوں۔ وہ میرے ایک ایک لمحے پر نگران ہیں۔ میری مصروفیات کا تعین وہی کرتے ہیں۔ میں صبح اٹھ کر سب سے پہلے ان کے احکامات بجا لاتا ہوں۔ رات سونے سے قبل میرے آخری کام کا تعین بھی وہی کرتے ہیں۔ میرا لباس، میرا اٹھنا بیٹھنا، میری مصروفیات، میری پسند ناپسند، میری خوراک، ہر ایک چیز پر وہ قبضہ کر چکے ہیں۔ اس نے کہا: سمارٹ موبائل فون ان کا سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ انہوں نے اس میں یوٹیوب، ای میل، واٹس ایپ، وائبر، گوگل، کیمرہ، پلے سٹور، گیمز، فیس بک اور ایسی رنگا رنگ ایپلی کیشنز انسٹال کی ہیں، جو جاگنے کے بعد سونے تک‘ میرا بیشتر وقت کھا جاتی ہیں۔ یہ موبائل ہر وقت مجھے مصروف رکھتا ہے۔ بہت ساری ایپلی کیشنز کی وجہ سے اس کی بیٹری بہت تیزی سے ختم ہوتی ہے۔ میں پورا دن اسے چارج کرنے، اسے زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہوں۔ اس لیے کہ اس میں ایک نشہ ہے۔ ایک نشئی کی طرح مجھے اس کی لت لگ چکی ہے۔ مجھے بہرصورت اسے آن رکھنا ہوتا ہے۔ یہی وہ ڈیوائس ہے، جس کے ذریعے مجھے ان کے بیشتر احکامات موصول ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ مجھے ضروری کام سے کہیں جانا ہوتا ہے، اس کے باوجود میں اپنی کرسی سے اٹھ نہیں سکتا۔ اس لیے کہ موبائل چارجنگ پر لگا ہوتا ہے۔ اس چارجر کی تار نے مجھے اس طرح باندھا ہوتا ہے، جیسے کسی جانور کے گلے میں رسّی بندھی ہو۔ جب میں ڈرائیونگ کرتا ہوں تو میرا زیادہ دھیان اسی پر مرکوز ہوتا ہے۔ گاڑی چلانے کے دوران جب یہ میری جیب میں وائبریٹ کرتا ہے تو تجسس کے مارے میرا دھیان ڈرائیونگ سے ہٹ جاتا ہے۔ کئی بار میں حادثات سے بال بال بچا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خطرناک ہے، پھر بھی میں اسے خود سے دور نہیں کر سکتا۔ میں پیدل چلتے ہوئے بھی اس سے گردن نہیں اٹھا سکتا۔ کئی بار میں گاڑیوں کے نیچے آتے آتے بچا۔ میری گردن کی ہڈی میں ایک خم سا پڑ گیا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اسے حتیٰ الامکان سیدھا رکھو لیکن میرے دشمنوں کا حکم ہے کہ گردن جھکائے رکھو۔ یہ گردن اب سیدھی نہیں ہو سکتی‘‘۔ یہاں پہنچ کر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ڈاکٹر نے دیکھا، وہ سکون کے لیے ترس رہا تھا۔ یہاںڈاکٹر نے اسے ٹوکا۔ اس نے پوچھا: لیکن یہ تو ضرورت کی ایک چیز ہے۔
''ضرورت نہیں، نشہ‘‘ وہ چیخ اٹھا ''میری ضرورت عام موبائل بھی پوری کرتا تھا۔ جب مجھے کسی سے بات کرنا ہوتی تو میں اسے فون کر لیتا، یا پیغام بھیج دیتا۔ میری ضرورت اتنی سی تھی۔ اسے کئی روز تک چارج کرنے کی ضرورت نہ ہوا کرتی تھی۔ یہ سمارٹ فون ایک سازش کے تحت میرے ہاتھ میں پکڑایا گیا ہے‘‘۔
کافی دیر تک وہ روتا رہا۔ پھر اس نے کہا ''ہر کچھ دیر بعد مجھے واٹس ایپ یا وائبر پر ویڈیو پیغامات بھجوائے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے ذریعے، جنہیں میں جانتا ہوں اور ان لوگوں کے ذریعے بھی، جنہیں میں نہیں جانتا۔ دشمن جانتا ہے کہ تجسس کی انسانی فطرت کی وجہ سے لازماً میں انہیں کھول کر دیکھوں گا۔ یہ پیغامات میرا سارا وقت کھا جاتے ہیں۔ مجھے جب فرصت کے چند لمحات میسر آتے ہیں تو فوراً میں سب کی Status Pictures کھول کر دیکھنے لگتا ہوں۔ جب میں ایسا کرتا ہوں تو انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ میں نے ان کی تصاویر دیکھ لی ہیں۔ اسی طرح میں ہر کچھ دیر کے بعد یہ چیک کرتا ہوں کہ میری Status Pictures کس کس نے دیکھی ہیں۔ اگر دیکھی ہیں تو پھر کس کس نے ان پر تبصرہ کیا ہے۔ اگر کسی نے تبصرہ نہیں کیا تو کیوں؟ دوسروں کی Status Pictures پر مجھے تبصرہ کرنا پڑتا ہے؛ اگرچہ دل سے میں ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ دشمن میری فرصت کا ایک ایک لمحہ کھا چکا ہے‘‘۔ یہاں تک پہنچ کر وہ زار و قطار رونے لگا۔
''لیکن یہ سب تو آج ایک معمول کی زندگی کا حصہ ہیں‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ''چلئے! اسے چھوڑ دیجئے‘‘۔ اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔ ''فیس بک کے بارے میں کیا خیال ہے۔ دشمن میرا سب ڈیٹا اکٹھا کر چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں، میں کس کا بیٹا، کس کا بھائی اور کس کا چچا زاد ہوں۔ میرے کتنے بچے ہیں۔ پہلے میرے اور میرے بچوں کے درمیان احترام کے کئی پردے حائل تھے۔ اب ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ فیس بک پر رابطے میں ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کے خیالات، مصروفیات اور زندگی کے ایک ایک پل سے واقف ہوتے جا رہے ہیں۔ احترام سمٹتا جا رہا ہے۔ ایک ڈیجیٹل زندگی جنم لے چکی ہے، جو اصل زندگی سے زیادہ متحرک اور رنگین ہے۔ میں اب کوئی بھی کام توجہ سے نہیں کر سکتا۔ ہر چند منٹ کے بعد میں فیس بک کھول کر نہ دیکھوں تو مجھے چین نہیں آتا۔ آخری دفعہ بارہ سال پہلے میں نے پوری توجہ سے ایک کام مکمل کیا تھا۔ کئی دفعہ جب میں ڈرائیونگ کر رہا ہوتا ہوں تو مجھ سے اگلی گاڑی والا انتہائی آہستگی سے چل رہا ہوتا ہے۔ جب میں کسی نہ کسی طرح گاڑی سائیڈ سے نکال کر اس کے برابر سے گزرتا ہوں تو ایک خوفناک منظر میرے سامنے ہوتا ہے۔ ڈرائیور نے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہوتا ہے اور اس کی توجہ اسی پر مبذول ہوتی ہے۔ اکثر میں یہ بھی یہی کرتا ہوں۔ پھر پیچھے والی گاڑیوں کے ہارن چیخ اٹھتے ہیں تو یکایک میں ہوش میں آ جاتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ دشمن مجھے قتل کر دینا چاہتا ہے۔ مجھ سے پہلے کتنے ہی لوگوں کو اس طرح قتل کر چکا ہے‘‘۔
ڈاکٹر خاموشی سے سنتا رہا۔ مریض نے کہا ''میرے ہاتھ میں کئی ڈیوائسز دے کر، انہیں آپس میں جوڑ کر، وہ میرے ایک ایک لمحے پر نگران ہو چکے۔ ایک دفعہ موبائل نے شور مچانا شروع کیا۔ میں نے اسے کھولا تو اس پر ایک شخص کی سالگرہ کی اطلاع موصول ہو رہی تھی۔ اس شخص سے میرا کوئی ایسا تعلق نہیں تھا کہ میں اسے سالگرہ پر مبارکباد کا پیغام بھیجتا۔ فقط میں نے ایک بار اسے کچھ ای میلز کی تھیں۔ موبائل اور ای میل والوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر کے مجھے اطلاعات بھیجنا شروع کیں۔ یہ میرے دشمن کا حکم تھا کہ میں ایک ایسے شخص کو سالگرہ کی مبارکباد دوں، جس سے میرا کوئی تعلق بھی نہیں۔
(جاری )