آج2018ء کے لئے ہونے والی پیش گوئیوں پر بات کر رہا ہوں۔یہ محض اشارے ہیں لیکن ان میں پوشیدہ ایسے بے شمار امکانات مضمر ہیں‘ جو سیاست‘ عالمی معیشت اور سٹریٹیجک تبدیلیوں کا بروقت احاطہ کر سکیں گے۔ان پیش گوئیوں کے اندرجھانک کر ان تبدیلیوں کا ادراک بھی کیا جا سکے گا ‘ جوابھی زیر تشکیل ہیں۔ سال رواں کے لئے ہونے والی تبدیلیوں کا ایک خاکہ نیویارک ٹائمز میں پیش کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
''شمالی کوریا کے ساتھ نمٹنا: اگرچہ جزیرہ نما کوریا میں جنگ کا خطرہ خارج ازامکان نہیں لیکن امریکہ غالباً شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں پر حملہ کرنے سے گریز کرے گا کیونکہ اس کی وجہ سے تمام عالمی معیشت بحران کا شکار ہوسکتی ہے۔ اس کی بجائے اگلے برس پیانگ یانگ کی طرف سے نئے ایٹمی ڈیٹرنس کا مظاہرہ محدود کرنے کی پالیسی کو برہم کردے گا۔
چاروں طرف باڑ لگانا: چین اور روس کے گہرے ہوتے ہوئے روابط نے امریکہ کے لیے ایک تزویراتی خطرہ پیدا کردیا ہے۔ اس کا تدارک کرنے کے لیے امریکہ ‘یورپ کی سرحدوں پر واقع اپنی اتحادی ریاستوں کے ساتھ روابط کو مضبو ط کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ عظیم طاقتوں کے درمیان لچک دار روابط عالمی نظام کا تعین کرنے جارہے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ ایک دوسرے کے حلیف بھی ہیں اور حریف بھی۔ ٹھیک اسی طرح یورپی ریاستیں بھی واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے رہی ہیں۔
تجارتی روابط کی آزمائش: وائٹ ہائوس چین‘ میکسیکو‘ جنوبی کوریا اور جاپان کے حوالے سے جارحانہ تجارتی ایجنڈے پر کام کرے گا۔ اگرچہ جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ کا تجارتی معاہدہ بہت نازک دھاگے کے ساتھ بندھا ہو ا ہے لیکن امریکی ایگزیکٹو پاور پر کانگرس کے اختیارات اور قانونی پابندیوں کی وجہ سے‘ نارتھ امریکین فری ٹریڈ ایگری منٹ برقرار رہنے کا امکان موجود ہے ۔ امریکہ کی یک طرفہ تجارتی پالیسی‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو کمزور کردے گی ۔ اس کی وجہ سے کوئی تجارتی جنگ شروع نہیں ہوگی اور نہ ہی اس بلاک کا مکمل طور پر شیرازہ بکھرے گا۔
ایرانی ڈیل پر نظر ِثانی: شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاربنانے کے بعد ‘ایران کے بارے میں امریکی موقف مزید سخت ہوجائے گا۔ اس کی وجہ سے ایٹمی ڈیل خطرے میں پڑسکتی ہے ۔ امریکہ‘ سعودی عرب اوراسرائیل ‘ایران کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہیں۔ اس وجہ سے مشرق ِوسطیٰ میں ہونے والی پراکسی جنگ میں شدت آسکتی ہے۔ روس لازمی طور پرتہران اور واشنگٹن کے درمیان پیدا ہونے والے تنائو کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ روس کے پاس شامی محاذ پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کو‘ اپنے مفاد میں ڈھالنے کا موقع بھی موجود ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں اس کا بڑھتا ہوا اثر‘ امریکہ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
تیل کے استعمال میں کمی لانے کی پالیسی کو برقرار رکھنا : تیل پیدا کرنے والے اہم ممالک کو امید ہے کہ وہ 2018 ء میں دوبارہ عالمی آئل مارکیٹ کو متوازن کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ تیل کی پیداوار کو محدود کرنے کے معاہدے کے اختتام کے بعد‘ اوپیک اور غیر اوپیک ممالک کسی معاہدے کے تابع نہیں رہیں گے ۔ امریکہ کی ساحلی چٹانوں سے ملنے والے تیل سے پیدا ہونے والے بحران کاتدارک کرنے کے لیے ‘ روس اور سعودی عرب مل کر کام کرسکتے ہیں۔
چینی اصلاحات کا اگلا مرحلہ : چینی صدر‘ شی چن پنگ جامدمقامی مفادات کو چیلنج کریں گے۔مرکزی حکومت'' دولت کی از سرنو تقسیم‘‘ جیسے اصلاحاتی ایجنڈے کو متعارف کرانے جارہی ہے ۔ 2018ء میں چین کے شمال مشرقی علاقوں پر مالیاتی دبائو آئے گا۔ اس کی وجہ پراپرٹی کے شعبے میں آنے والی گراوٹ اور قرضے کی ادائیگی ہوگی۔تاہم بیجنگ کے پاس قرضوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے وسائل موجود ہیں۔
فرانس کی خواہش پوری ہونے جارہی ہے: اگلے سال فرانس‘ جرمنی کے ساتھ برابری کی سطح ُپر کھڑا ہونے کے دیرینہ خواب کی تعبیر دیکھے گا۔ اس کی وجہ فرانس کا جنوبی یورپ کے مفادات کا تحفظ کرنے اور یورو زون میں اصلاحات لانے کی پالیسی ہے ۔ اٹلی میں یورو مخالف حکومت کا قیام مالیات کے شعبے کو ہلاکررکھ دے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ اٹلی یورو کرنسی سے دستبردار نہیں ہوگا۔
لاطینی امریکہ میں مقبول ِعام تحریک: سیاسی نظام سے عوام کی مایوسی لاطینی امریکہ کے تین اہم ممالک میں ہونے والے انتخابات کو متاثر کرے گی۔ یہ ممالک میکسیکو‘ برازیل اور کولمبیا ہیں۔ یہ ممالک لاطینی امریکہ کی اہم معیشتیں بھی ہیں۔اگر میکسیکو میں کوئی عوامی صدر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو کانگرس اس کی پالیسیوں کا راستہ روکنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں اہم تبدیلیاں لائے گی۔ اس دوران برازیل اور ارجنٹائن کے پاس اصلاحات لانے کے محدود مواقع ہوں گے ‘‘۔