تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     08-02-2018

نواز شریف کی عوامی پزیرائی

نواز شریف، کیا غمِ جاناں کو غمِ دوراں بنانے میں کامیاب رہے ہیں؟
ان کی عوامی پزیرائی نے بہت سوں کو حیران کر دیا ہے۔ یہ اتنی واضح اور نہاں ہے کہ بطور امرِ واقعہ اس کا انکار محال ہے۔ اب تمام تر گفتگو اس پزیرائی کے اسباب اور نتائج کے باب میں ہے۔ یہ عوامی التفات کیوں ہے؟ کیا ان کے جلسوں کے یہ مناظر انتخابی نتائج پر بھی اسی شدت سے اثر انداز ہوں گے؟
عمران خان ان کے خلاف کرپشن کا نعرہ لے کر کھڑے ہوئے۔ یہ آج کا مقبول ترین بیانیہ ہے۔ صرف پاکستان میں نہیں، دنیا بھر میں۔ یونان سے امریکہ تک اور سعودی عرب سے ایران تک، روایتی سیاست کے خلاف یہ دورِ جدید کا سب سے طاقت ور بیانیہ ہے۔ عمران خان کی مقبول شخصیت نے جارحانہ انداز میں اس معاملے کو اٹھایا۔ نوجوانوں میں اشتعال پیدا کیا اور یوں پورے ملک کو ایک ہیجان میں مبتلا کر دیا۔ نواز مخالف حلقوں میں یہ امید پیدا ہوئی کہ ان کی سیاست کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
پاناما انکشافات نے نواز شریف کے مخالفین کے کام کو مزید آسان بنا دیا۔ جو نواز شریف صاحب کو اقتدار کے ایوانوں سے نکالنا چاہتے تھے، ان کو یقین ہو گیا کہ ایک عدالتی فیصلہ ان کا قصہ تمام کر دے گا۔ ان کا خیال تھا کہ ہیجان کی اس فضا میں جو کچھ کہا جائے گا، اس کو سچ مان لیا جائے گا۔ اس سے نواز شریف صاحب کا اخلاقی وجود ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا اور یوں وہ کسی مزاحمت کی ہمت کھو دیں گے۔ رہی مسلم لیگ تو احتجاج یا مزاحمت اس کی سرشت میں نہیں۔ ان کے مخالفین کو اس منصوبے کی کامیابی پر اتنا یقین تھا کہ انہوں نے کسی متبادل یا 'پلان بی‘ کے بارے میں سوچنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔
نواز شریف نے مگر بساط کو الٹ دیا۔ انہوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک مشکل راستہ تھا۔ اس میں ان کے وہ دوست بھی ساتھ چھوڑ گئے جو ان کا سایہ تھے‘ یا یوں کہیے کہ ان کے سائے میں سیاست کرتے رہے۔ ان کے سیاسی تجربے یا شاید رابطوں نے یہی سمجھایا تھا کہ بقا کا راستہ نواز شریف کی مخالف سمت کی طرف جاتا ہے۔ نواز شریف نے اس داخلی دباؤ کا بھی سامنا کیا اور اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے گئے۔
نواز شریف نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب اگر ان کے ساتھ نفرت و محبت کے جذبات سے بلند تر ہو کر، محض انسانی نفسیات اور سماجی و سیاسی حرکیات کی روشنی میں تلاش کیا جائے تو شاید معاملہ قابلِ فہم ہو جائے۔ میرا احساس یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہیں دیوار سے لگا دیا گیا تھا اور ان کے لیے بقا کے سب راستے بند کر دیے گئے تھے۔ مزاحمت ہی میں ان کے لیے بقا کا امکان پوشیدہ تھا۔ ان کے لئے جو الفاظ استعمال کئے گئے، انہوں نے ان کے نفسیاتی وجود پر ذلت اور توہین کے گہرے گھاؤ لگائے۔ انسانی نفسیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسے زخموں کے ساتھ جینا آسان نہیں ہوتا۔ ان سے مسلسل لہو رستا رہتا ہے۔ اگر صرف قانونی لہجہ اختیار کیا جاتا تو شاید نواز شریف کے موقف میں وہ شدت نہ آتی جس کا مظاہرہ ہم ان دنوں دیکھ رہے ہیں۔ ذلت کے اس احساس نے ان میں اُس مزاحمت کو جنم دیا جو ان نے مخالفین کے لیے غیر متوقع تھی۔ ان کی غیر معمولی عوامی پزیرائی سے اب یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس احساس میں وہ تنہا نہیں۔ وہ غمِ جاناں کو غمِ دوراں بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔
ان کے مخالفین نے ایک اور سماجی حقیقت کو بھی نظر انداز کیا۔ یہ وہی عصبیت ہے جس کی طرف میں ایک عرصے سے توجہ دلا رہا ہوں۔ میں اس نقار خانے میں مدت سے آواز بلند کر رہا ہوں کہ جب کسی فرد کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے خلاف قانون اس طرح متحرک نہیں ہو سکتا‘ جیسے عام آدمی کے خلاف ہوتا ہے۔ میں عبداللہ ابن ابی سے لے کر جی ایم سید تک، تاریخ سے بہت سی مثالیں دے چکا ہوں کہ ایسے لوگوں کے خلاف قانون کو متحرک نہیں کیا جاتا‘ بلکہ ان کی سیاسی عصبیت کو ختم کر نے کی کوشش یا انتظار کیا جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا معاملہ ہے جن کے خلاف مقدمات ثابت ہوتے ہیں۔ اگر معاملات مشتبہ ہوں تو پھر مزید احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
کچھ لوگ اس پزیرائی کے اعتراف کے باوجود، اسے ایک سراب قرار دے رہے ہیں۔ یہ ایک مزید غلطی ہو گی۔ حقائق سے لڑا نہیں جا سکتا۔ اگر حقیقت ہماری مرضی کے خلاف ہو تو اسے بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نواز شریف صاحب کا سیاسی کردار ختم ہونا چاہیے، انہیں اس حقیقت کے اعتراف کے ساتھ اپنی حکمتِ عملی بنانا ہو گی کہ ان کی سیاسی عصبیت امرِ واقعہ ہے۔ ان کے سیاسی کردار کے خاتمے کے لیے اس عصبیت کاختم یا کمزور ہونا ضروری ہے۔
کسی عصبیت کے خاتمے کی ایک ہی صورت ہے کہ اس سے مضبوط تر عصبیت کو جنم دیا جائے۔ عمران خان یہ کام کر سکتے تھے مگر انہوں نے عجلت کا مظاہرہ کیا اور غیر سیاسی طریقے اختیار کیے۔ غیر سیاسی قوتوں پر تکیہ کیا۔ پہلے امپائر سے ساز باز کی اور اب ہر مخالف کو عدالت سے سزا دلوا کر اسے سیاست سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ سیاسی حرکیات کو سمجھتے تو خود کو سیاسی طور پر توانا بناتے۔ اپنے قوتِ بازو پر بھروسہ کرتے اور اگر کہیں غیر سیاسی مداخلت دکھائی دیتی تو اس کی مزاحمت کرتے۔ 
سیاسی عمل سے ان کی نا واقفیت کی تازہ ترین شہادت یہ ہے کہ جو آدمی ان کے سیاسی جلسوں میں سب سے زیادہ گلا پھاڑ کر نعرے لگواتا تھا، اسے انہوں نے سینیٹ کا ٹکٹ جاری کر دیا۔ اب اس سے سینیٹ جیسے ادارے میں تحریکِ انصاف کی جو کارکردگی ہو گی، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ ایسی سیاست کے مظاہر ہمیں نواز شریف صاحب کے ہاں بھی دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ معاملات چلانے کے لیے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال جیسے لوگ بھی ضرور موجود رہنے چاہئیں۔ یوں کسی حد تک ایک توازن پیدا ہو جاتا‘ اگرچہ ان کے ہاں بھی پلڑا کرمانیوں ہی کی طرف جھکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
نواز شریف صاحب کی سیاسی پزیرائی کا ایک مظہر مشاہد حسین سید کا ن لیگ میں شامل ہونا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی دلچسپی سینیٹ کی سیٹ سے ہے‘ لیکن یہ ادھورا سچ ہے۔ وہ داخلی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے آدمی ہیں۔ وہ CPEC کے منصوبے میں بہت متحرک ہیں۔ چین کی قیادت سے ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ ان کا اس مرحلے پر ن لیگ میں شامل ہونا یہ بتا رہا ہے کہ سیاست کی ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ ان جیسا زیرک آدمی کسی ڈوبتی کشتی میں سوار نہیں ہوتا۔
آج اگر نواز شریف صاحب کا راستہ کسی غیر سیاسی طریقے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو یہ بہت خطرناک ہو گا۔ نظام الدین سیالوی کے تازہ ترین انکشافات تشویشناک ہیں۔ میری درخواست یہ ہے کہ 'گاڈ فادر‘ کے ساتھ 'مقدمہ ابن خلدون‘ سے بھی استفادہ کیا جانا چاہیے۔ اگر سیاسی امور کے فیصلے اہلِ سیاست پر چھوڑ دیے جائیں تو کسی کی مجال نہیں ہو گی کہ وہ کسی پر تنقید کر سکے۔
نواز شریف صاحب کے حالیہ جلسوں پر ''دنیا‘‘ ٹی وی کے کامران خان صاحب کا تبصرہ یہ تھا کہ بھٹو صاحب کے بعد ایسے جلسے دیکھنے میں نہیں آئے۔ بھٹو صاحب کی عوامی پزیرائی سے خوف زدہ ہو کر ضیاالحق صاحب نے جو قدم اٹھایا‘ وہ ملک کے لیے بہت مہلک ثابت ہوا۔ ہمیں اگر آگے بڑھنا ہے تو پھر تاریخ سے عبرت پکڑنا ہو گی۔

 







 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved