تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     08-02-2018

نئے نظام کا نقشہ کہاں ہے؟

پاکستان میں ہر کوئی تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ شاعر، ادیب اور دانشور سب نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ تبدیلی کی بات کرنے کی دوڑ میں سب سے آگے سیاست دان ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر میں ہیں۔ مگر ان سے کسی تفصیلی نشست میں اگر یہ پوچھا جائے کہ نظام بدلنے سے ان کی کیا مراد ہے؟ یا نظام آخر کیسے بدلے گا؟ جو نیا نظام اس موجودہ نظام کی جگہ لے گا، وہ کیسا ہو گا؟ نئے نظام کا خاکہ کیا ہے؟ نقشہ کیا ہے، نظریہ کیا ہے اور سمت کیا ہے؟ جواب میں وہ کوئی نقشہ نہیں دیتے‘ مگر یہ یقین دلاتے ہیں کہ نظام بدلے گا، اور ضرور بدلے گا‘ اور اگر اس نظام کے بدلنے میں کوئی دیر ہے، تو وہ ان کے اقتدار میں آنے کی دیر ہے۔
بسا اوقات وہ اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس نظام کا بدلنا ناگزیر ہے۔ یہ نظام بوسیدہ ہے۔ فرسودہ ہے۔ ناکام ہے۔ اگر یہ نظام نہ بدلا گیا تو اس ملک میں انقلاب آ سکتا ہے۔ گویا ہمارے سیاست کار انقلاب اور تبدیلی کو ایک چیز نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک یہ دو متضاد یا متبادل چیزیں ہیں۔ گویا ان کے نزدیک تبدیلی ایک اچھا اور خوشگوار تصور ہے‘ اور انقلاب ایک ڈرائونا اور خوفناک عمل ہے۔ کبھی کبھی اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے وہ انقلاب کے ساتھ خونیں کا لفظ جوڑ دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر اس ملک میں تبدیلی نہ آئی تو خونیں انقلاب آ سکتا ہے۔
نظام بدلنے کے لیے دو باتیں جاننا ضروری ہیں۔ پہلی یہ کہ اس نظام میں کیا خرابی ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ نیا نظام کس طرح اس خرابی سے پاک ہو گا۔ جس نظام میں ہم رہتے ہیں اس کی سب سے بڑی خرابی معاشی اور سماجی ناہمواری ہے‘ عدم مساوات ہے۔ غربت اور امارت کے درمیان ایک عظیم فرق ہے۔ عدم مساوات اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں۔ اس وقت یہ مسئلہ تقریباً دنیا کے ہر ملک کو درپیش ہے۔ اس میں ترقی یافتہ ملک بھی ہیں اور تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک بھی۔ ترقی یافتہ دنیا میں یہ مسئلہ ہر جگہ زیر بحث ہے۔ اس پر ہر جگہ گفتگو ہو رہی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم سے لے کر پارلیمنٹ تک اور ورلڈ اکنامک فورم تک یہ مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، اس پر گفتگو ہوتی ہے، اس کی وجوہ پر غور کیا جاتا ہے۔ حل پر بحث مباحثہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مگر اس مسئلے پر اس سنجیدگی سے گفتگو نہیں ہوتی جس کا یہ متقاضی ہے۔ مرکزی دھارے کی کوئی سیاسی پارٹی کبھی اس مسئلے پر کوئی باقاعدہ دستاویز سامنے نہیں لائی۔ نہ ان کے منشور میں اس مسئلے کی اتنی شدت سے موجودگی ہے اور نہ ہی اس کے حل کے لیے کوئی رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں۔ مرکزی دھارے کے مقبول لیڈر اگر کبھی اس مسئلے پر بات کرتے بھی ہیں تو عوامی جلسوں میں کرتے ہیں‘ جہاں ان کا انداز واعظ اور ناصح کا ہوتا ہے۔ ان کا مقصد اس پر سنجیدہ بات کے بجائے جذبات کا اظہار اور اپنی جماعت کے لیے غریب اور کم خوش نصیب طبقے کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہاں انقلابی شعرا کا کلام پیش کیا جاتا ہے۔ خونیں انقلاب سے ڈرایا جاتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس ملک میں عدم مساوات کے اسباب کیا ہیں؟ حل کیا ہے؟ بائیں بازو کی کچھ چھوٹی سیاسی جماعتوں اور گروہوں میں ان پر بحث ہوتی ہے، اور بڑی تفصیل سے ہوتی ہے، مگر یہ ایک عالمانہ یا تعلیمی بحث ہی رہ جاتی ہے، اور مرکزی دھارے تک نہیں پہنچ پاتی۔ کچھ مذہبی گروہ بھی اس پر بات کرتے ہیں، مگر یہ اپنے جوہر میں وعظ و نصیحت ہی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے صرف عذابِ قبر کا خوف مراعات یافتہ طبقات کو اپنی مراعات کم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا، اور نہ ہی صرف کچھ لوگوں کی خیرات اور سخاوت سے غریب کے دن بدلے جا سکتے ہیں۔ 
سماجی اور معاشی ناہمواریوں پر مغرب میں اکیڈیمیا میں بہت مباحث ہوتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اس پر بات ہوتی ہے۔ مقالے لکھے جاتے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔ تحقیقاتی ادارے اور تھنک ٹینک اس پر کام کرتے ہیں۔ اس موضوع پر کوئی قابل ذکر کام سامنے آتا ہے تو مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسے نمایاں جگہ پر چھاپتے اور اس پر تبصرے کرتے ہیں۔
معاشی و سماجی پسماندگی یا نا ہمواری ہمارے ہاں ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے۔ جیسے اس پر کھل کر بات کرنا حرام ہو‘ یا اس کی ممانعت ہو۔ مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ اس پر بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔ بات کی بھی جاتی ہے تو بہت زیادہ انسانی ہمدردی کے جذبات میں ڈوبی ہوئی‘ یا پھر مذہبی اور خیراتی نقطہ نظر سے۔ اس طرح معاشی اور سماجی نا ہمواریوں کے اسباب پر سائنس اور فلسفے کی روشنی میں گفتگو نہیں ہوتی۔ اس معاملے میں ہمارے رویّے ایسے ہیں جیسے ہم کوئی راز چھپا رہے ہوں۔ کسی بہت بڑے جرم کی پردہ پوشی کر رہے ہوں۔ حالانکہ دنیا بھر میں سیاسی اور معاشی سائنس اور فلسفے کی روشنی میں اس پر سب سے زیادہ گفتگو ہوتی ہے۔ جان جیک روسو نے کوئی دو صدیاں پہلے اس پر تفصیلی تھیسس لکھ دیا تھا۔ اس مقالے کے تعارف میں ہی روسو لکھتا ہے کہ انسانی نسل میں دو قسم کی عدم مساوات ہے۔ ایک جسے میں فطری کہتا ہوں، کیونکہ یہ فطرت کی طرف سے ہوتی ہے‘ جیسے صحت، جسمانی طاقت، دماغی اور روحانی خصوصیات وغیرہ۔ دوسری وہ ہے جسے اخلاقی یا سیاسی عدم مساوات کہا جاتا ہے۔ یہ ناہمواری انسان کی بنائی ہوئی ہے یا اس کی مرضی سے ہے۔ اس نا ہمواری میں کچھ مراعات ہوتی ہیں جو کچھ لوگ دوسروں کی قیمت پر حاصل کرتے ہیں۔ ان مراعات میں دوسروں سے زیادہ امیر ہونا، زیادہ عزت دار ہونا اور زیادہ طاقت ور ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی آج کی زبان میں روسو کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ایک عدم مساوات فطری ہے جو خدا نے بنائی ہے، اور ایک غیر فطری ہے جو انسان نے بنائی ہے۔ روسو نے تو اپنی طرف سے یہ مقالہ مضمون نویسی کے مقابلے میں شرکت کے لیے لکھا تھا، لیکن انسانی نشوونما اور عدم مساوات کے بڑھوتی پر یہ ایک تاریخی دستاویز بن گیا۔ اس مقالے سے کروڑوں لوگوں نے استفادہ کیا۔ روسو نے یہ سب اتنی وضاحت سے 1754 کے لگ بھگ لکھ دیا تھا۔ ہم لوگ آج بھی اس پر یا تو بحث کرنے سے گھبراتے ہیں، یا پھر اس کی دو ہوم میڈ یعنی خانہ ساز قسم کی تھیوریاں پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ سماج میں عدم مساوات یا ناہمواری فطری ہے۔ خدا کی مرضی ہے۔ یعنی غربت غریب کا مقدر ہے۔ دوسری یہ کہ اس عدم مساوات، نا ہمواری یا غربت کا ذمہ دار خود غریب ہے۔ غریب کا یہ اپنا قصور ہے۔ اس لیے کہ غریب سست ہے، کام چور ہے، بے وقوف ہے، سمارٹ نہیں ہے، محنت سے جی چراتا ہے۔ چنانچہ ہم یہ کہنے اور ماننے سے ڈرتے ہیں کہ غریب کی غربت، معاشرے کی نا ہمواری اور عدم مساوات کی ذمہ دار ریاستیں ہیں، حکومتیں ہیں۔ عدم مساوات اور ناہمواری کی وجہ کسی بھی معاشرے میں وسائل اور مواقع کی غیر مساوی تقسیم ہوتی ہے۔ اس غیر مساوی تقسیم سے کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ وسائل کے مالک بن جاتے ہیں، اور کچھ لوگ بنیادی ضروریات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ مساوی مواقع کی عدم موجودگی عدم مساوات کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہے اور اس کو بڑھاوا دیتی رہتی ہے۔ تعلیم، روزگار، کاروبار سمیت زندگی کے ہر شعبے میں مساوی مواقع کی عدم موجودگی معاشرے میں عدم مساوات کا باعث بنتی ہے۔ جان جیک روسو نے اپنی معرکۃالآراتصنیف 'سوشل کنٹریکٹ‘ میں لکھا تھا کہ جس وقت پہلے آدمی نے زمین کا ایک ٹکڑا لیا اور سادہ لوگوں کو باور کرایا کہ وہ سول سوسائٹی کا بانی ہے، اس وقت اگر کوئی لوگوں کو بتا دیتا کہ اس مکار پر مت یقین کرو تو دنیا کو کتنے جرائم، جنگوں، قتل وغارت، مصائب اور ہولناکیوں سے بچایا جا سکتا تھا۔ زمین کے وسائل سب کی ملکیت ہیں، زمین کسی کی ملکیت نہیں۔ یہ بات شائد روسو کے دور تک درست تھی۔ مگر اب ہماری یہ زمین کسی نہ کسی کی ملکیت ہے، اس کے وسائل پر بھی کوئی نہ کوئی قابض ہے۔ عدم مساوات میں کمی کے لیے اس زمین پر موجود وسائل کی منصفانہ تقسیم کی کوئی رہ نکالنا ہو گی۔ اس کے بغیر تبدیلی کی بات محض نعرہ ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved