تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-02-2018

ماما قدیر کے رکھوالے

افغانستان میں کابل کی این ڈی ایس اور بھارت کی را کی مشترکہ میزبانی کا لطف اٹھانے والے بلوچستان کے خود ساختہ جلا وطن لیڈر عبد القدیر بلوچ عرف ماما قدیر نے 18 جنوری کو سی این این نیوز کے بھارتی تعامل سے نشر ہونے والے پروگرام کے خاص حصے میں گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ بھارتی نیوی کے کمانڈر اور راء کے سٹیشن چیف کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے نہیں بلکہ پاکستان کی آئی ایس آئی نے ایران کی چاہ بہار سے اغوا کیاہے۔ کوئی زیا دہ دیر نہیں ہوئی پاکستانی میڈیا کے ان مخصوص لبرل اور خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن کہلوانے والے میڈیا کی آزادی کا بڑھ چڑھ کر پرچار کرنے والوں نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ وہ لاپتہ افراد کے نام سے '' ماما قدیر کے شروع کئے گئے لانگ مارچ کا اسلام آباد پہنچنے پر شاندار استقبال کریں گے‘‘ ۔ عبد القدیر بلوچ عرف ما ما قدیر کا اسلام آباد کی جانب بڑھنے والا '' لانگ مارچ‘‘ ابھی کوئٹہ ہی میں تھا کہ پاکستان کے اس مخصوص میڈیا کے کرتا دھرتائوں نے اپنے اخبارات اور ٹی وی پروگراموں میں ماما قدیر کے نام سے پکارے جانے والے اس بلوچ انتہا پسند کی شان کا اس طرح ذکر کرنا شروع کیا جیسے وہ کوئی مائوزے تنگ یا فیڈرل کاسترو کا ہم پلہ لیڈر ہے؟ ماما قدیر کو ٹی وی چینلز پر بلاتے ہوئے ان کے انٹر ویو اور پروگرام کراتے ہوئے اپنے ہی ملک کی فوج ا ور سکیورٹی فورسز پر اس قدر گند اچھالا گیا‘ ان کے خلاف ما ما قدیر کی زبان سے اس قدر رکیک قسم کے جملے ادا کرائے گئے کہ خدا کی پناہ اور جس وقت اسلام آباد کے '' کیپیٹل‘‘ میں ما ما قدیر ان کے سر کا تاج بنا ہوا تھا اسی دن کوئٹہ میں ایف سی کے ٹرک پر حملہ کرتے ہوئے 6 جوانوں کو شہید کیا گیا‘ اس سے اگلے روز بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہوئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو ایک قطار میں کھڑا کرتے ہوئے کلاشنکوفوں کے برسٹ برساتے ہوئے شہید کر دیا جس پرمیں نے ماما قدیر اور اس کے حاشیہ برداروں سے اپنے کالم میں یہ سوال پوچھا تھا کہ ہمارے ان بیٹوں کو زندگی بھر کیلئے ان کے ماں باپ‘ ان کے بیوی بچوں اور ان کے بہن بھائیوں سے کس نے لاپتہ کیا ہے؟وہ کون ہے جو بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں؟۔ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لاپتہ ہو جانے والے ان غریب والدین کے بیٹوں کو اب کون واپس لائے گا؟۔ ان بیٹوں کو واپس لانے کیلئے کیا اس ادارے کے سامنے کیمپ لگایا جائے جس نے پنجاب کے ان بے گناہ مزدور بیٹوں کو لاپتہ کرنے والوں کو اپنا مہمان خصوصی بنا رکھا ہے؟۔ کیا ان کے سر پرست ما ما قدیر اور اس کے حواری بتائیں گے کہ سینکڑوں میل دور سے روزی روٹی کی تلاش میں کوئٹہ آئے ہوئے ان غریب پنجابی مزدوروں نے ان کا اور ما ما قدیر کا کیا قصور کیا تھا؟۔ 
یہ وہ ما ما قدیر ہے جس کے بارے میں ملک کے اداروں کو یقین تھا کہ اس کے ملک سے باہر بیٹھے ہوئے دہشت گردوں سے رابطے ہیں اور یہ ان کی ہدایات پر کام کر رہا تھا لیکن اس کے با وجود اس کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جاتا رہا، ایک آدھ بار جب اس کی سازشیں حد سے بڑھ گئیں تو اسے کچھ دنوں کیلئے گرفتار کیا گیا لیکن جلد ہی رہا کر دیا گیا شائد اس لئے کہ وہ پھر سے پاکستان بھر میں جہاں اس کا دل چاہے کھڑے ہو کر اداروں کے خلاف دشنام ترازیاں کرتارہے۔ کراچی، کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد میں عبد القدیر بلوچ کے نام سے جانے جانے والے اس شدت پسند کو پاکستان میں جہاں اس کا جی چاہے ریا ست نے گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی دے رکھی تھی لیکن اس نے اس آزادی کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے لبرل اور ترقی پسندی کے دعوے کرنے والے اور بھارتی سفارت خانوں میں آئے دن خصوصی دعوتوں اور تقریبات میں رات گئے شرکت کرنے والے اینکرز کے ٹی وی پروگراموں میں دہائیاں دیتا نہیں تھکتا تھا کہ بلوچستان میں آپریشن کرتے ہوئے بہت ظلم کیا جا رہا ہے جبکہ ان اینکرز کو بخوبی علم تھا کہ بلوچستان میں کسی قسم کا فوجی آپریشن کا پلان نہیں تھا بلکہ صرف پولیس اور ایف سی براہمداغ بگٹی کی بلوچ لبریشن آرمی اور بھارتی فوج کے سپیشل سروسز گروپ کی مشترکہ دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے۔افسوس کہ ما ما قدیر کو بڑے احترام سے اپنے سامنے بٹھانے والے ان ''پاکستانی اینکرز‘‘ میں سے کسی نے بھی اس سے پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ ما ما جی آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج بلوچستان میں ظلم کر رہی ہے لیکن روزانہ سریاب روڈ پر اور بلوچستان کے مختلف علا قوں میں پولیس، فوج ،وکلاء اور ایف سی کے قافلوں پر حملے کون کر رہا ہے؟۔ پنجاب سے روزگار کیلئے آئے ہوئے دھوبی، ویلڈر، الیکٹریشن، درزی، نائی اور چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے سڑک پر بیٹھے ہوئے ان غریب موچیوں کو کون چن چن کر قتل کرارہا ہے ؟۔ لیکن اینکرز کے نام سے بیٹھے ہوئے ماما قدیر کے ان پجاریوں نے اس کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملانے والوں نے تربت میں مارے گئے ان بیس مزدوروں کیلئے آواز اٹھا نا گوارا نہیں کیا؟۔یہ کیسے انسانی حقوق کے دعویدار بنتے ہیں جنہوں نے کبھی قطاروں میں کھڑے کر کے کلاشنکوفوں کے برسٹ سے قتل کئے گئے ان بے گناہوں کے حق میں آواز ہی نہیں نکالی؟۔شائد اس لئے کہ ان کی ہمدردیاں امریکہ اور بھارت کے مامے قدیر کے ساتھ ہیں، ان مزدوروں کے ساتھ نہیں جو دور دراز سے روزگار کی تلاش میں کبھی گوادر تو کبھی تربت میں مارے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اپنے ماما قدیر کے یہ بھانجے پنجاب کے ان لاچار بیٹوں کے کچھ بھی نہیں لگتے؟
ماما قدیر جو بھارت اور افغانستان کیلئے تیار کی گئی اس کی خفیہ تنظیم این ڈی ایس کی پناہ میں ہے اس کی زبان سے کلبھوشن یادیو کے متعلق یہ انکشافات کہ اسے بلوچستان کی حدود سے نہیں بلکہ ایران کی چاہ بہار بند رگاہ سے آئی ایس آئی نے اغوا کیا ہے‘ اسے اتنی دیر بعد ہی کیوں یاد آئے؟۔کیا ایک سال سے وہ کہیں سویا ہوا تھا؟۔ اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ عالمی عدالت انصاف میں بھارت نے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو جس نے بلوچستان ا ور کراچی میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی کا بازار گرم کرتے ہوئے پاکستان کی سکیورٹی فورسزسمیت سات سو سے زائد شہریوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے اور اس جرم میں پاکستان کی ملٹری کورٹ نے اسے پھانسی کی جو سزا دے رکھی ہے اس کے خلاف کئے گئے دعویٰ کی سماعت کا وقت کہیں قریب تو نہیں آ پہنچا؟۔بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں سمیت ان سب کے سرپرست اجیت ڈوول عالمی عدالت میں کلبھوشن کی اپیل کی سماعت شروع ہونے سے پہلے عالمی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟۔ بھارتی حکومت نے جب دیکھ لیا کہ عالمی عدالت میںاس کا مقدمہ کمزور ہو چلا ہے تو اس نے اپنے ہی اداروں کے تعامل سے سی این این نیوز کے اس خصوصی پروگرام کو اپنے پراپیگنڈا کیلئے استعمال کرتے ہوئے ما ما قدیر کے انٹرویو کا سہارا لیتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ حقائق کے پہاڑسامنے ریت کا ڈھیر ثابت ہو گی ۔۔!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved