تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-02-2018

’’میں کہاں بولتا ہوں!‘‘

ایک شوق ہے کہ جس نے لوگوں کو اپنے دام میں قید کرلیا ہے۔ ایک نشہ ہے جو قوم کے دل و دماغ پر چھاگیا ہے۔ ایک بیماری ہے جو پھیلتی ہی چلی جارہی ہے۔ ایک ہَوکا ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ فیض احمد فیضؔ سے ایک غلطی سرزد ہوئی۔ انہوں نے پتا نہیں کہ لہر میں بہتے ہوئے کہہ دیا ع 
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے 
بس، اتنی دعوت کافی تھی۔ قوم نے یہ بات جڑ سے پکڑلی اور پھر جو بولنا شروع کیا ہے جو اب تک رکنے کا نام نہیں لیا۔ اب عالم یہ ہے کہ سانس لینا زندگی کے لیے ناگزیر ہو یا نہ ہو، بولنا ضرور ناگزیر ہے! ایسا لگتا ہے کہ سبھی نے طے کرلیا ہے کہ بولنے کو اپنے زندہ ہونے کے واحد مستند ثبوت کے طور پر بروئے کارلائیں گے۔ 
صرف ڈیڑھ عشرے میں جدید ترین ذرائع ابلاغ کی مہربانی سے لوگ ایسے بھرگئے ہیں کہ خالی نہیں ہو پارہے! کسی سے رسمی سی سلام دعا کے بعد کسی بھی معاملے پر محض ایک جملہ منہ سے نکال کر دیکھ لیجیے، ''جوابی کارروائی‘‘ کے طور پر اتنا کچھ سننے کو ملے گا کہ چودہ کے دگنے یعنی اٹھائیس طبق روشن ہوجائیں گے! 
پہلے مین اسٹریم میڈیا اور اس کے بعد اب سوشل میڈیا کی مہربانی ہے کہ لوگ ضرورت سے کہیں زیادہ ''باشعور‘‘ ہوگئے ہیں۔ یہ شعور خاصا نوکیلا ہے، دوسروں کو چُبھنے لگا ہے۔ بلاگز پڑھ پڑھ کر لوگ شعور کی ''زیادتی‘‘ سے ادھ مُوئے سے ہو جاتے ہیں۔ اگر دماغ تیز چل رہا ہو تو بہت کچھ الٹا سیدھا سوچتا رہتا ہے۔ جب دماغ میں سوچیں بھر جائیں تو اُن کے اخراج کی راہ تلاش کی جاتی ہے۔ اور اس کے لیے بولنے سے اچھا طریقہ کبھی کوئی ہوا ہے نہ ہوگا۔ 
اب سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ بولنے کی حد کیا ہے، یا کیا ہوسکتی ہے؟ اور کوئی حد ہوتی بھی ہے یا نہیں؟ حق تو یہ ہے کہ بولنے کی حد کے بارے میں جتنا بھی سوچیے ذہن اتنا ہی الجھتا چلا جاتا ہے۔ جب سے خاموش نہ رہنے کا فیشن چلا ہے، لوگ بولتے رہنے ہی کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ دن رات الا بلا سُن اور پڑھ کر لوگ اپنے ذہن یوں بھر لیتے ہیں کہ پھر اُنہیں خالی کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ ذہن کا مسئلہ یہ ہے کہ اِس میں کوئی خیال پیدا ہوجائے تو اس بات کے لیے کوشاں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طور نکل کر دنیا کے سامنے پہنچے اور اپنے آپ کو منوائے۔ بس، ذہن میں پنپنے والے خیالات کی اِسی خصلت نے پوری قوم کو خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 
بولنا ایسی صفت ہے جس سے انسان پہچانا جاتا ہے۔ گفتگو ہی تو بتاتی ہے کہ کوئی کیا ہے، کیسا ہے۔ گفتگو کی پرتیں کھلتی ہیں تو انسان کی پرتیں کھلتی ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ رات دن گفتگو کی پرتیں کھلتی رہتی ہیں اور ذہن یہی سوچ سوچ کر الجھتا رہتا ہے کہ ابھی اور کتنی پرتیں کھلیں گی اور کوئی کس منزل پر رکے گا، سانس لے گا۔ 
دن رات اور بے حساب بولنے کا بازار گرم ہے۔ ذہن بھرا ہوا ہو تو اُسے خالی کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان دوسروں کو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور دیتا ہے جو کسی نہ کسی درجے میں کام کا ہو۔ ذہن میں خوب پنپنے والے خیالات جب راہ پاتے ہیں یعنی زبان پر آتے ہیں تو کچھ نہ کچھ نتائج بھی پیدا کرتے ہیں مگر ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ اُس وقت بھی بولتے رہنے کو لازم سمجھتے ہیں جب ذہن یکسر خالی ہو! مزید افسوس کا پہلو یہ ہے کہ ذہن میں کچھ نہ ہو تو زبان کو زیادہ تیزی سے بروئے کار لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں تو انسان خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کیا اور کیوں بول رہا ہے۔ پھر بھلا کسی اور کو کیا اندازہ ہوسکتا ہے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے اس کا مقصد منشاء کیا ہے۔ یہ تو بس نصیب کی بات ہے کہ ایسی حالت میں کسی کی کہی ہوئی کوئی بات پوری طرح سمجھ میں آجائے، کوئی سِرا ہاتھ آجائے۔ 
اینکرز اور تجزیہ کاروں کی مہربانی ہے کہ قوم نے ضرورت کے تحت اور بلا ضرورت ہر دو صورت میں سوچنا، بلکہ سوچتے رہنا سیکھ لیا ہے۔ ایڈیٹ باکس کے اسپیکر پر بڑی بڑی باتیں سن کر عوام کی دماغ کی پتیلی کا پانی ابلتا رہتا ہے۔ اور پھر جب یہ ابلتا ہوا پانی چھلکتا ہے تو کیفیت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ کئی گھنٹوں تک الا بلا سُن کر ذہن کے پیالے میں جو طوفان اٹھایا جاتا ہے وہ معرضِ اظہار کی منزل سے گزر کر قیامت ڈھانے پر تُل جاتا ہے۔ طے کرلیا جاتا ہے کہ بولتے وقت ذہن کو بروئے کار لانے پر ذرا بھی توجہ نہیں دینی ہے۔ اب آپ ہی سوچیے کہ ایسی حالات میں جو کچھ بیان ہوگا وہ فہم و خرد کے کس درجے میں ہوگا۔ 
یہاں تک تو بیان ہوئی یہ حقیقت کہ لوگ بولنے پر یُوں تلے ہیں کہ رکنے، سانس لینے کا نام نہیں لیتے۔ ایک زمانہ تھا کہ ذہن میں یہ گرہ پڑی ہوئی تھی کہ خواتین بہت بولتی ہیں۔ اب خیر سے اس معاملے میں مرد و زن کا فرق مٹتا ہوا سا دکھائی دیتا ہے! بولنے کے میدان میں سبھی لمبی لمبی چھلانگیں لگانے پر بضد ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ کوئی جب بولنے پر آئے تو ڈیڑھ دو گھنٹے تک بلا تکلّف دماغ چاٹنے کے بعد نہایت معصوم چہرہ بناکر خاصی بے چارگی بھرے لہجے میں کہتا ہے ''میں کہاں بولتا ہوں!‘‘ اور یہ سن کر آپ کے پاس (اپنا) سر تھامنے کے سوا چارہ نہیں رہتا! اگر کوئی آپ کے دل و دماغ کی اچھی خاصی کھنچائی کرنے کے بعد بھی ''واردات‘‘ سے یکسر مکر جائے تو مزید بے حواس ہوکر اپنا ہی سر پیٹنے کے سوا بھلا اور کیا کیا جاسکتا ہے! یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی آپ کے سامنے بیٹھ کر خوب کھائے یعنی پیٹ بھر جانے پر نیت کے بھرجانے تک ہاتھ نہ روکے، آپ کو شدید ''احساسِ محرومی‘‘ سے دوچار کرتے ہوئے دستر خوان پر چُنی ہوئی ہر چیز چٹ کر جائے اور پھر بھرپور ڈکار لیتے ہوئے حد درجہ سادگی سے کہے ''میں کھانے پینے کا زیادہ شوقین نہیں ہوں، بس یونہی ذرا چکھ لیا کرتا ہوں!‘‘ ایسے میں آپ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ تیرے چکھنے پر قربان جائیے۔ ع 
جب رات ہے ایسی متوالی، پھر صبح کا عالم کیا ہوگا! 
بولنا ایک فن ہے۔ لوگوں نے اس فن کو fun میں تبدیل کر لیا ہے اور وہ بھی از خود نوٹس کے تحت! ایک زمانہ تھا کہ لوگ باضابطہ کلاسز اٹینڈ کرکے بولنے کا ہنر سیکھا کرتے تھے۔ اب معاملہ پلٹ گیا ہے۔ فی زمانہ آپ کو ماہرین سے رجوع کرکے یہ سیکھنا پڑے گا کہ کوئی اگر آمادہ بہ جنگ ہو یعنی گفتگو پر تلا ہوا ہو تو اُس سے کیونکر محفوظ رہا جائے! زبان کو بروئے کار لاتے رہنا اچھی بات سہی مگر اِسے بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم بولنے کے ہر شوقین سے بس اتنی گزارش کریں گے ع 
... کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved