تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     10-02-2018

عمران جھوٹوں کا آئی جی… اور آپ؟

خادمِ اعلیٰ فرماتے ہیں کہ عمران جھوٹوں کا آئی جی ہے۔ کہہ سکتے ہیں‘ کیونکہ خود حق اور صداقت کے سب سے بڑے چیمپئن ہیں۔ صرف وہی نہیں بلکہ خاندان کے تمام افراد صداقت کے میدان میں اپنی مثال آپ ہیں۔ 
عزیزم مریم کا وہ ثنا بُچہ والا انٹرویو تو بچے بچے کو یاد ہو گا‘ جس میں اُنہوں نے فرمایا تھا کہ میں حیران ہوں‘ لوگ میری جائیدادیں پتہ نہیں کہاں سے نکال لاتے ہیں‘ بیرون ملک تو دُور کی بات ہے میرے نام تو پاکستان میںکوئی جائیداد نہیں۔ پانامہ پیپرز کا ستیاناس ہو کہ سب کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا۔ پانامہ پیپرز پہ بننے والی جے آئی ٹی کو برٹش ورجن آئی لینڈز (British Virgin Islands) کے حکام سے خط ملا کہ لندن جائیدادوں کی ملکیت مریم نواز کی ہے۔ جے آئی ٹی اس بات تک بھی پہنچی کہ ایک اہم دستاویز‘ جو شریف خاندان نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی‘ وہ جعلی نوعیت کی تھی۔ 
بہرحال پانامہ کے سارے قضیے میں پہلا انعام قطری شہزادے کے خطوط کو جاتا ہے‘ جو شریف خاندان کی پارسائی ثابت کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں پیش کئے گئے۔ لُبِ لباب یہ تھا کہ ہمارے بڑوں کے میاں محمد شریف مرحوم سے گہرے مراسم تھے، اتنے گہرے کہ نہ کبھی کسی کاغذ کی ضرورت پڑی نہ کسی دستخط کی۔ یہ پڑھ کے جہاں سپریم کورٹ کے جج صاحبان حیران رہ گئے‘ وہاں قوم کی ہنسی نہ رُک سکی۔
بحیثیت وزیر اعظم‘ نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا اور پانامہ پیپرز کے بارے میں ایسی گول مول باتیں کیں کہ کسی کے پَلے کچھ نہ پڑا۔ پھر قومی اسمبلی میں خطاب فرمایا اور وہاں بھی گول مول باتوں کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ جناب والا‘ یہ ہیں وہ ثبوت اور یہ ہے وہ منی ٹریل جس کے بارے میں ہم سے پوچھا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے کیس مہینوں چلتا رہا‘ لیکن شریف خاندان اپنے حق میں ایک ٹھوس بات بھی پیش نہ کر سکا۔ خاندان کے فرد میڈیا سے بات کرتے تو ہر ایک کا بیان دوسرے سے مختلف ہوتا۔ 
کہانیاں تو پہلے بھی بہت تھیں لیکن قسمت کے دَھنی تھے‘ ہر بات سے بچتے گئے۔ حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے منی لانڈرنگ کا قصہ بہت پرانا ہے۔ پرویز مشرف کے قبضہِ اقتدار کے فوراً بعد اسحاق ڈار وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہو گئے تھے۔ اب کہتے ہیں‘ مجھ سے زبردستی کروایا گیا‘ لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہ تھا۔ جو کچھ کہا‘ اپنی مرضی سے کہا۔ اعترافی بیان میں سب چیزیں اُگل دیں کہ کیسے قاضی خاندان کے پاسپورٹ استعمال کرتے ہوئے جعلی فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولے گئے‘ جن کے ذریعے بھاری رقوم اِدھر اُدھر کی گئیں۔ جب شریف خاندان معاہدہ کرکے پاکستان سے سعودی عرب گیا‘ تو حدیبیہ اور دیگر کیسز سرد خانے میں چلے گئے۔ واپس آئے تو سیاسی موسم بدل چکا تھا اور خاندان کے خلاف تمام کیسز کو ختم ہونے دیا گیا۔ 
اگر آج پارسائی کا دعویٰ کرتے ہیں تو حق بجانب ہیں کیونکہ اِن کے خلاف سوائے پانامہ کے اور کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آصف علی زرداری کے خلاف نہ کچھ ثابت ہوا نہ کوئی فیصلہ آیا ہے۔ قانون کی نظر میں وہ بالکل بے گناہ ہیں اور کرپشن کے تمام الزامات قانون کی حد تک اُن پہ تہمتیں ہیں۔ یہی پاکستان کی نرالی چیز ہے کہ قانون کی حد تک بڑے سے بڑا مگرمچھ خطاکار نہیں کیونکہ کسی بڑے کے خلاف کبھی فیصلہ آیا ہی نہیں۔ پانامہ کی آسمانی بجلی شریفوں پہ نہ گرتی تو نہ معاملے نے سپریم کورٹ جانا تھا‘ اور نہ ہی نواز شریف نااہل ٹھہرتے۔
کمال یہ ہے کہ جب مشرف کی بغاوت کے بعد سعودی عرب گئے تو پوچھنے پہ کبھی نہ مانے کہ معاہدے کے تحت جلا وطن ہوئے ہیں۔ 2007ء میں جب نواز شریف نے پاکستان واپس آنے کی زبردستی کوشش کی تب بھی انکاری تھے کہ کوئی معاہدہ ہوا تھا۔ سعودی عرب کے شہزادہ مقرن کو اسلام آباد آنا پڑا‘ جہاں پریس کے سامنے اُنہیں کاغذ لہرا کے کہنا پڑا کہ یہ معاہدہ ہے جس کے تحت نواز شریف پاکستان سے باہر گئے تھے۔ بغیر ماتھے پہ شکن ڈالے کمال سادگی سے شریف خاندان نے کہا کہ معاہدہ پانچ سال کیلئے تھا‘ نہ کہ دس سال کیلئے۔ مدت کا سوال کسی نے چھیڑا ہی نہ تھا لیکن جب سعودیوں نے کاغذ لہرایا تو شریف فیملی نے مسئلے کا رُخ یکدم بدل دیا۔ 
1990ء کے انتخابات میں صدر غلام اسحاق خان اور فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے فیصلہ کیا کہ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا ہے اور اسلامی جمہوری اتحاد کی فتح یقینی بنانی ہے۔ اُس وقت کے نئے اٹھنے والے مہران بینک کے مالک یونس حبیب ایک دلچسپ کردار تھے۔ کئی حوالوں سے اُونچے فوجی افسروں سے قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ مہران بینک سے چودہ کروڑ‘ جو اُس زمانے میں خطیر رقم تھی‘ کا ڈونیشن مانگا گیا۔ آدھے پیسے خفیہ ایجنسی نے پاس رکھ لیے اور آدھے (ن) لیگ اور اُن کے حمایتی سیاستدانوں میں تقسیم کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی۔ بوساطت لیفٹیننٹ جنرل اسد دُرانی‘ جو 1990ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ تھے‘ وہ لسٹ کچھ سال بعد منظر عام پہ آئی۔ نام اُگلوانے میں ہمارے دوست اور مہربان رحمان ملک صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔ اور ناموروں کے علاوہ اُس لسٹ میں جناب خادمِ اعلیٰ اور نواز شریف صاحب کے نام بھی نمایاں تھے۔ خادمِ اعلیٰ کو مبینہ طور پر بائیس لاکھ بذریعہ ٹی ٹی ارسال ہوئے اور نواز شریف صاحب کو تینتیس لاکھ روپے کا تحفہ دیا گیا۔ خادمِ اعلیٰ نے اس بارے کبھی کچھ نہیں کہا، نہ ہاں نہ ناں۔ نواز شریف نے البتہ اس بار وزیر اعظم ہوتے ہوئے ایف آئی اے کو ایک تحریری بیان دیا‘ جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ انتخابات کے موسم میں بہت لوگ ملتے ہیں، سب کا یاد نہیں رہتا۔ کسی نے اُنہیں 1990ء کی انتخابی مہم میں تینتیس لاکھ روپے دئیے‘ بالکل یاد نہیں‘ لیکن اگر ایسا کچھ ہوا تھا تو مع سُود پیسہ واپس کرنے کو تیار ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت کے بارے میں شاعر نے کہا تھا، '' اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔
یونس حبیب صاحب نے بھی ایف آئی اے کو ایک نیا بیان دیا کہ پیسے تو دئیے گئے‘ لیکن ایک اور شریف صاحب کو جو سرائے عالمگیر کے قریب دریائے جہلم پر واقع ایک ہوٹل کے مالک ہیں۔ ان شریف صاحب نے اس کہانی کے بارے میں ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ 
ماڈل ٹاؤن واقعے کے متعلق خادمِ اعلیٰ کا ارشاد کسی عجائب گھر میں نمایاں آویزاں ہونے کے قابل ہے۔ چودہ بندے پولیس گولیوں سے مر چکے‘ جن میں دو خواتین شامل تھیں اور ستر اَسّی کے لگ بھگ اشخاص کو گولیاں لگیں۔ آپریشن کہیں رات کے اندھیرے میں شروع ہوا اور لاہور پولیس کی بھاری نفری اِس میں شامل تھی۔ ٹی وی چینل مسلسل کوریج دے رہے تھے اور ہر منٹ کی کارروائی پوری قوم دیکھ رہی تھی۔ پولیس کی جانب سے فائرنگ کہیں صبح جا کے شروع ہوئی۔ جب سارا کچھ ہو گیا اور خون بہہ چکا تو خادمِ اعلیٰ نے کہا کہ مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا اور صبح ساڑھے نو بجے ٹی وی پہ واقعے کی خبر سُنی۔ اسے کوئی سادگی سمجھے یا دیدہ دلیری۔ 
پھر خادمِ اعلیٰ نے انگلی ہلاتے ہوئے بڑے دردناک لہجے میں کہا کہ میں ایک جوڈیشل کمیشن بنانے جا رہا ہوں‘ جو اس واقعے کی تہہ تک جائے گا اور مجھ پہ ایک حرف بھی آیا تو میں اس کُرسی پہ ایک سیکنڈ نہیں بیٹھوں گا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی پہ مشتمل کمیشن بنا۔ رپورٹ لکھی گئی تو تھڑتھلی مچ گئی کیونکہ واقعے کی ساری ذمہ داری پنجاب حکومت کے بڑوں پہ آتی تھی۔ رپورٹ دبا دی گئی اور دو سال سے زائد عرصہ منظر عام پہ نہ آئی جب تک کہ لاہور ہائی کورٹ نے آرڈر نہ دیا۔ 
دُروغ گوئی سیاست کا حصہ ہے۔ برسرِ اقتدار لوگ گول مول باتیں کرتے ہیں‘ اور اپنی کارگزاریوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ لیکن جس دیدہ دلیری سے شریف ایک لمبے عرصے سے مختلف حقیقتوں سے انکاری دکھائی دیتے ہیں‘ اُس کی مثال شاید ہماری تاریخ میں نہ ملے۔ لہٰذا جھوٹوں کے آئی جی کون؟ یہ فیصلہ عوام بہتر کر سکتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved