تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     10-02-2018

’پیغامِ پاکستان‘ اور مردان کے ’غازی‘

مذہبی جماعتوںکی طرف سے مشال خان مقدمے کے 'غازیوں‘ کا استقبال اس بات کاعلامتی اظہار ہے کہ انتہا پسندی کس طرح معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔ 'پیغامِ پاکستان‘ بھی، اندازہ ہوتا کہ ایک ایسی بارش تھی جس کے بعد بھی دلوں کی زمین، پہلے کی طرح خشک و بنجر ہی رہی۔
میں ایوانِ صدر کی اس تقریب میں شریک تھا جہاں تمام مکاتبِ فکر کی نمائندہ شخصیات نے آگے بڑھ کر پیغامِ پاکستان کا خیر مقدم کیا۔ معلوم یہ ہوتا تھا کہ تمام مسالک اور مذہبی جماعتیں پیغامِ پاکستان کی پشت پر کھڑی ہو گئی ہیں۔ اب مذہبی انتہا پسندی کے آخری دن آ گئے۔ مولانا فضل الرحمن کا خطاب سب سے ولولہ انگیز تھا۔ 'غازیوں‘ کا استقبال کرنے والوں کا ہراول دستہ بھی حضرت کی جماعت کے کارکنوں پر مشتمل تھا۔ ان کا ساتھ دینے کی سعادت جماعت اسلامی کے حصے میں آئی‘ جس کی قیادت اُن مدارس کی تنظیم کے مرکزی راہنما کر رہے تھے جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ کیا 'پیغامِ پاکستان‘ سے وابستگی کا اعلان نمائشی تھا؟ کیا کاغذ کا یہ ٹکڑا انتہا پسندی کے خاتمے کی ضمانت بن سکتا ہے؟
8 فروری کو اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین جمع ہوئے تو 'پیغامِ پاکستان‘ ایک بار پھر موضوعِ بحث بنا۔ سب اس پر متفق تھے کہ کاغذ کی یہ دستاویز نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی جب تک ریاست و حکومت اور معاشرہ کے ذمہ دار اور ذی شعور لوگ اس کی پشت پر کھڑے نہ ہوں۔ اس پیغام کی روشنی میں، جب تک قومی مزاج کی تشکیلِ نو نہ ہو، یہ کوشش مساعی ِ لاحاصل کی فہرست میں ایک اضافے کے سوا کچھ نہیں۔ کونسل کے ارکان چند نکات پر متفق تھے۔ افادہِ عامہ کے لیے میں یہاں ان کا اعادہ کر رہا ہوں۔
1۔ پیغامِ پاکستان کو ایک قومی اور اجتماعی دستاویز کی حیثیت اسی وقت حاصل ہو گی جب اسے پارلیمان کی تائید میسر آئے گی۔ لازم ہے کہ اسے پارلیمان میں پیش کیا جائے اور وہاں سے اس کی قبولیت کا اعلانِ عام ہو۔ قوم کی اجتماعی نمائندگی کا آئینی اور اخلاقی حق پارلیمان ہی کو حاصل ہے۔ پارلیمان کی منظوری سے یہ صحیح معنوں میں ایک قومی بیانیہ بن پا ئے گا۔
2۔ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیغامِ پاکستان کو عوامی بیداری کی ایک مہم کا عنوان بنائے۔ میڈیا نے اسے ایک دن کی خبر سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اگر یہ دستاویز معاشرے کی عمومی سوچ کا حصہ نہ بنی تو سماج میں انتہا پسندی کے خلاف وہ حساسیت پیدا نہیں ہو گی جو اس کی روک تھا م کے لیے لازم ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اس کے مختلف نکات پر بات ہو، اُن کی شرح و وضاحت ہو اور معاشرے کو انتہا پسندی کی نقصانات سے پوری طرح آگاہی ہو۔
3۔ پیغامِ پاکستان کو دینی اور جدید تعلیمی اداروں کے نصاب اور ماحول کا حصہ بنایا جا ئے۔ میرے خیال میں انتہا پسندی کا بیانیہ اصلاً مذہبی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دلائل دینی ماخذات سے کشید کیے جاتے ہیں۔ اس مقدمے کے ابطال کے لیے لازم ہے کہ اس کی دینی غلطی واضح کی جائے۔ یہ بتایا جائے کہ قرآن و سنت سے یہ استنباط غلط ہے اور ساتھ ہی دینی مآخذ کی درست تعبیر سامنے لائی جائے۔گویا نصاب میں جوہری تبدیلی لائی جائے۔ یہی نہیں، مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی ورکشاپس ہونی چاہئیں۔ انہیں بتانا چاہیے کہ ذہن سازی کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کیا ہے۔
4۔ جدید تعلیم کے اداروں کو بھی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ اس بارے میں تو کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ جدید اداروں میں مذہبی کے ساتھ سماجی انتہا پسندی بھی ہے۔ تشدد کی ایک سے زیادہ صورتیں یہاں پائی جاتی ہیں اور اس پر مستزاد اخلاقی بے راہ روی۔ یہاں ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جس کی کوئی تربیت نہیں ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ بہتر کیریئر کی تمنا اور بس۔ نہ والدین کو تربیت کا احساس ہے اور نہ تعلیمی اداروں کو۔ نظریاتی کونسل کی رائے ہے کہ اس ضمن میں صوبائی حکومتوں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف رجوع کیا جائے کہ وہ اس حوالے سے ایک حکمتِ عملی ترتیب دیں۔
5۔ عوامی تربیت کے لیے لازم ہے کہ محراب و منبر کے موضوعات بھی تبدیل ہوں۔ جب تک یہ نہیں ہو گا، دینی اعتبار سے معاشرے کی سمت درست نہیں ہو گی۔ آج بھی لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے مسجد کے امام اور خطیب کی طرف، اس امید کے ساتھ رجوع کرتے ہیں کہ انہیں صحیح مشورہ ملے گا۔ اعتماد کے اس رشتے کو اس طرح مضبوط بنایا جا سکتا ہے کہ مسجد سماجی ہم آہنگی کا فورم بن جائے۔
6۔ پیغامِ پاکستان میں اقلیتوں اور خواتین کی نمائندگی نہیں ہے۔ یہ قومی بیانیہ اسی وقت بن پائے گا جب پاکستانی قوم کا ہر طبقہ اس دستاویز کو اپنا بیانیہ سمجھے۔ محترمہ سمیحہ راحیل قاضی نے اس جانب متوجہ کیا اور کونسل کے اراکین نے اس کی تائید کی۔ انہوں نے 'دخترانِ اسلام‘ کے فورم سے خواتین میں آگاہی کی ایک مہم بھی شروع کی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان ان سب کاموں کے لیے متفق ہیں۔ میں اس میں ایک اور پہلو کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ مذہبی سیاست ہے۔ مردان میں جو 'غازیوں‘ کا استقبال ہوا، میرے خیال میں اس میں یہی سیاست اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے۔ مذہبی جماعتوں نے ووٹ لینے ہیں۔ ان کے پاس قومی مسائل کا کوئی حل، کوئی بیانیہ نہیں۔لے دے کے لوگوں کے جذبات کا استحصال ہے۔ کے پی میں مجلس عمل کو زندہ کیا جا رہا ہے۔ مردان میں 'غازیوں‘ کا استقبال انتخابی مہم کی تمہید ہے۔
مذہبی جذبات کا استحصال اب اتنا عام ہو گیا ہے کہ سیکولر اور میانہ رو کہلانے والی جماعتیں بھی اس سے حسبِ توفیق استفادہ کر رہی ہیں۔ مردان میں غازیوں کے استقبال میں اے این پی بھی شامل تھی۔ میرا مؤقف ہے کہ اس جماعت کے لوگ پہلے دن سے اس معرکہ آرائی میں مذہبی جماعتوں کے حلیف ہیں۔پنجاب میں شہباز شریف صاحب نے لاہور کے ایک ہسپتال کے بلاک کو غازی علم دین سے منسوب کردیا ہے ۔ 
یہ واقعات ناطق ہیں کہ انتہا پسندی کس درجے میں سرایت کر چکی ہے۔ 'پیغامِ پاکستان‘ اس باب میں واضح ہے کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ یہ کام عدالت کا ہے۔ اس کے باوجود مذہبی جماعتیں اگر ان لوگوں کو ہیرو بنانے میں مصروف ہیں جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بیانیہ کسی کے حلق سے نیچے نہیں اترا۔ ایوانِ صدر میں ہم نے جو کچھ دیکھا، کیا وہ آنکھوں کا دھوکہ تھا؟
لازم ہے کہ مذکورہ جماعتوں کی قیادت اس معاملے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرے۔ برادرم امیر العظیم کی یہ وضاحت کافی نہیں کہ متعلقہ آدمی کو تنبیہ کر دی گئی ہے۔ جناب سراج الحق، مولانا فضل الرحمن اور مو لانا سمیع الحق کو آگے بڑھ کر پیغامِ پاکستان کے ساتھ عملی وابستگی کا ثبوت دینا ہو گا۔ یہ لوگ جس طرح سیاسی مسائل پر لانگ مارچ وغیرہ کرتے ہیں، اسی طرز پر انہیں پیغامِ پاکستان کے حق میں بھی مہم چلانی چاہیے۔ یہ معاملہ سیاست سے زیادہ اہم ہے، جس کا تعلق قومی بقا کے ساتھ ہے۔
حکومت اس سارے معاملے میں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ ایوانِ صدر کی تقریب میں وزرا کی علامتی شمولیت کے علاوہ، ابھی تک کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا، جس سے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ ہوتا ہو۔ نیکٹا کا غیر مؤثر ہونا خود ایک المیے سے کم نہیں۔ اگر ریاست و حکومت کو رسمی اقدامات کرنے ہیں اور دوسری طرف مدارس و مذہبی جماعتیں اس کے ساتھ کسی سنجیدہ وابستگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں تو پھر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved