شاعرہ رفعت ناہید نے بتایا ہے کہ آپ نے شبیر نازش کی کتاب پر جو تبصرہ کیا تھا‘ فیس بک پر اس کے بارے میں بہت شور مچایا جا رہا ہے کہ آپ نے ایک اچھے شاعر کے بارے مثبت رائے نہیں دی‘ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رفیق خیال کی شاعری کے حوالے سے آپ کا کالم پڑھ کر شاعر کو فالج ہو گیا تھا‘ بلکہ کچھ عرصہ پہلے قمر رضا شہزاد کا جو موٹر بائیک ایکسیڈنٹ ہوا تھا وہ بھی آپ کے کالم ہی کا شاخسانہ تھا۔ اب خدا کرے شبیر نازش کے بارے کوئی بُری خبر نہ آ جائے!
بات یہ ہے کہ میں جن شاعروں کی تعریف کرتا ہوں وہ میرے ہرگز کوئی رشتے دار نہیں ہوتے اور جن کی تعریف نہیں کر سکتا‘ اُن سے میری کوئی دشمنی نہیں ہوتی۔ اکثر کو تو میں جانتا ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ میری کمٹمنٹ شاعری کیساتھ ہوتی ہے۔ شاعر کے ساتھ نہیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کمزور دل شعراء مجھے اپنی شاعری نہ بھجوایا کریں اور اگر رائے دہی کے لیے بھیجتے ہیں تو اس کی تاب لانا بھی سیکھیں۔ میں بے جا تعریف کرتا ہوں نہ بے جا تنقید و تنقیص۔ بے جا تعریف کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ شاعر مطمئن ہو کر وہیں رُک جاتا ہے اور اپنی اصلاح یا بہتری کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ میں فیس بک پر نہیں جاتا کیونکہ اگر ایسا کروں تو اور کسی کام کا نہیں رہ جائوں گا۔ سو‘ رفعت ناہید میرے مخبر کا فریضہ ادا کرتی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی والی رائے بھی انہی نے بتائی تھی۔ دیر سویر کے عنوان سے ایک خوبصورت مجموعہ ان کے کریڈٹ پر ہے۔ ملتان میں مقیم ہیں۔ ہمارے اصرار پر انہوں نے اپنی کچھ شاعری بھی بھجوائی ہے۔ ملاحظہ ہو :
جو بات تم نے کہیں اور بھی کہی ہوئی ہے
وہ بات میں نے کسی اور سے سُنی ہوئی ہے
مرے فسانے کا انجام تو یہ ہونا تھا
تمہارے خواب کی تعبیر بھی یہی ہوئی ہے
پڑائو راہ میں خوشبو نے کر لیا ہو گا
صبا تو خیر بڑی دیر سے چلی ہوئی ہے
ابھی جو راہ سے گزرے‘ کمال گزرے ہو
وہ روشنی جو کبھی تھی نہیں‘ ابھی ہوئی ہے
اندھیرا آپ میں خود سے ہی جھلملاتا ہے
دیئے کی لو تو یونہی طاق پر دھری ہوئی ہے
پتنگ بیچ میں جانے کہاں سے لُوٹی گئی
کٹی تھی ڈور کہیں پر‘ کہیں پڑی ہوئی ہے
اب کے مکان پر یہ نیا رنگ جو ہُوا
دیوار سے اُتر گئیں یادوں کی تختیاں
گُلابی اور نارنجی (نثری)
یہ تب کی بات ہے
جب بڑا دریا یہاں سے گزرتا تھا
اور دریا کے کنارے رس کے بھرے‘ ملائم اور چکنے تھے
درختوں پر ہوائیں عام تھیں
اور جنوبی چٹانیں ابھی سمندر میں نہیں ڈوبی تھیں
تب تم نے دریا میں بہتے ہوئے پھولوں میں سے
ایک گلابی اور نارنجی پھول اُٹھا کر میری ہتھیلی پر رکھ دیا تھا
اور‘ میرے ماتھے پر ویسا ہی
(گلابی اور نارنجی) بوسہ دیا تھا
اب جبکہ بڑا دریا اپنا رستہ بدل چکا ہے
ہوائوں نے رہنے کے لیے
کوئی اور درخت منتخب کر لیے ہیں
اور دریا کے کناروں پر بڑی بڑی دراڑوں میں
زہریلی جڑی بُوٹیاں اُگ آئی ہیں
جنوبی چٹانیں بھی سمندر میں ڈوب گئی ہیں
صرف سُورج ہے جو ابھی بھی مغرب میں ڈوبتا ہے
یا یہ پھول جو میری ہتھیلی پر مہک رہا ہے
اور یہ بوسہ جو میری پیشانی پر تپش دے رہا ہے
آخری ستون کے ساتھ
رات کے نو بجے‘ یہاں سے تین سو کوس دُور
تم جس ریلوے پلیٹ فارم پر اُتر رہے ہو
یہاں سے وہاں تک‘ میں تمہیں دیکھ سکتی ہُوں
تمہارے گھنگھریالے بالوں سے لے کر
تمہارے جُوتوں کے تسموں تک
تمہاری تھکی ہوئی گلابی آنکھیں بتا رہی ہیں
تُم کو بھی میں نظر آ رہی ہوں
ایک نیم تاریک اور نم آلود
پرانے ورانڈے کے آخری سُتون کے ساتھ
(جہاں سلائی مشین رکھی ہے)
تمہاری قمیض کے گریبان پر بٹن ٹانکتی ہوئی
جو کل میرے بالوں سے اُلجھ کر ٹوٹ گیا تھا
...............
آج کا مقطع
کسی کے دل میں جگہ مل گئی ہے تھوڑی سی
سو‘ کچھ دنوں سے ظفر گوشہ گیر ہو گئے ہیں