تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-02-2018

ابھی الیکشن نہیں آیا

دنوں اور برسوں میں جتنا وقت گزرتا ہے‘سیاست چند لمحوں کی لکیریں باندھ لیتی ہے۔ ابھی انتخابات شروع نہیں ہوئے۔ سیاست کے کھیل میں حصہ لینے والے ابھی سے اپنے پر پھڑپھڑا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی چونچیں‘ مقابل کے بدن میں گاڑی جا رہی ہیں۔
ابھی الیکشن نہیں آیا۔
ابھی جمہوریت کو نئے پیوند لگائے جا رہے ہیں۔ جمہوریت کی ساری چادر ابھی پھیلی نہیں۔ چھریاں تیز ہو رہی ہیں۔ قینچیاں درست کی جا رہی ہیں۔ گلے صاف کئے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو غصیلی نگاہوں سے دیکھنے والی آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔
ابھی الیکشن نہیں آیا۔
لیڈر گلیوں میں دربدر پھرتے ہیں۔ اپنی غریب پروری کے واقعات سناتے ہیں۔ ان گلیوں میں رہنے والوں پر اپنے خاندان کے احسانات جتاتے ہیں۔ آپس میں جب ملتے ہیں تو بڑے پیار اور محبت سے اصول پرستی کے دعوے کرتے ہیں۔ ''میرے بزرگوں نے تمہارے بزرگوں کے ساتھ مل کر سیاسی کلچر کے نمونے پیش کئے تھے‘‘۔ الیکشن لڑنے والے ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوئے باہمی رواداری کی روایات کو یاد کرتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ہم انتخابی مقابلوں میں ذرا بھی تلخی نہیں آنے دیتے۔ جلسوں میں ایک دوسرے کے کردار پر کیچڑ نہیں اچھالتے۔ عوام کو جمہوری کلچر کے آداب سمجھایا کرتے۔ سیاست میں ایمانداری کی کہانیاں سناتے۔ اپنے خاندان کی غریب پروری کے چرچے کرتے۔ مائوں بہنوں کو احترام سے مخاطب کرتے ہوئے بھائی چارے کی پرانی روایات کو دہراتے۔ اپنی اپنی برادریوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے پرانے رشتوں کو جوڑتے۔ برادریوں کو یکجا کر کے مانجھے تیار کرتے۔ چھتوں پہ چڑھ کر پتنگیں اڑاتے۔ جب دوسروں کی پتنگ کاٹی جاتی تو منڈیروں پر چڑھے ہوئے لونڈے لپاڑے نعرے لگاتے۔ یہ نعرے سیاسی نہیں ہوتے تھے۔ صرف بو کاٹا ہوتا۔
ابھی الیکشن نہیں آیا۔
گزشتہ انتخابات میں جیسے مقابلے ہوتے‘ ان کی کہانیاں دہرائی جاتیں۔ کس نے کون سی پارٹی 
چھوڑی؟ اور کون سی پارٹی میں شامل ہوا؟ وزارتوں کے وعدے کرنے میں کون سی پارٹی سب سے زیادہ مہربان ہے؟ کس نے اینکرز کے ساتھ تعلقات بنائے؟ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں دعوتیں کیں؟ کون مولوی صاحبان کی خدمت میں حاضر ہوا؟ کس نے پیر صاحبان کے درباروں میں حاضریاں دیں؟ کس نے اخبار نویسوں کی دعوتیں کرکے دور دراز کے ملکوں سے آئی ہوئی غذائیں پیش کیں؟ کس نے جھرمٹوں کو یکجاکر کے‘ پیر صاحب کی طرف سے آئے ہوئے تحائف اپنے امکانی ووٹروں کو پیش کئے؟ کس نے برادری کی روایات کو تازہ کرنے کے لئے بھولے بسرے چچائوں‘ تایوں اوران کے ناراض بیٹوں کو منایا؟ کس نے ایک دوسرے کے گھر میں تیار شدہ رشتوں کے بندھن باندھ کر اپنی سیاست کو پروان چڑھایا؟ کس نے برادران اور ہمشیرگان کے درمیان‘ قریبی اور گہرے تعلقات رکھنے والے خاندانوں کے مابین سیاسی طاقتوں‘ رتبہ بہ رتبہ اقتدار میں پوزیشنیں طے کیں؟ کون ایم پی اے بنے گا؟ کون قومی اسمبلی میں جائے گا؟ کون سینیٹر بنے گا؟ دو دو‘ تین تین نشستوں پر الیکشن لڑنے والے پہلے سے طے کریں گے کہ کامیاب ہونے والا اقتدار کی چھوٹی بڑی پلیٹیں صلح صفائی سے خاندان کے اندر ہی کیسے بانٹے گا؟ کس کو وفاقی وزارت کے لئے تیار کرکے اپنے حلقۂ اثر کا دبائو استعمال کرے گا؟ کون وزارتیں حاصل کرنے کے لئے‘ صوبائی یا قومی اسمبلی کے اراکین کو جمع کرے گا؟ اور اپنے اپنے حامیوں کے گروپ بنا کر چیوندی چیوندی وزارتیں حاصل کرے گا؟
ابھی الیکشن نہیں آیا۔
وہ بڑے بڑے خاندان جن کے گھروں میں نسلوں سے خواتین پردے کرتی آ رہی تھیں، بہو‘جیٹھ کے سامنے منہ ڈھانپ لیتی، وہ پردہ دار گھرانے‘ جن کے ہاں صدیوں سے مستورات‘ گھر کی دہلیز کے باہر قدم نہیں رکھتی تھیں‘ اب انہیں اسمبلیوں میں نہ صرف بھیجا جاتا ہے بلکہ ان کے پردے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ مولانا حضرات جو پردے داری کے شدید حامی ہوا کرتے تھے‘ بے پردہ گھرانوں کو بے حیائی کے طعنے دیا کرتے تھے‘ اب ان کی مستورات بھی اسمبلیوں میں دکھائی دیتی ہیں۔
ابھی الیکشن نہیں آیا۔
زبان‘ رنگ‘ نسل اور کلچر کے اعتبار سے سیاست کرنے والوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ‘ جو طبقاتی سیاست کا حصہ بن کر اپنی اپنی جماعتیں بناتے۔ آپس کے ووٹ‘ آپس میں بانٹتے۔ پہلے سے طے کر لیتے کہ کون ان کی پارٹی کا لیڈر بنے گا؟ کون سینیٹ میں جائے گا؟ کون قومی اسمبلی میں داخل ہو گا؟ اور کون صوبائی اسمبلی کی نشست سنبھالے گا؟ منتخب ہونے والے ممبر‘ اپنا ایک رہنما بنا کر اسمبلیوں اور میٹنگوں میں داخل کرا دیتے۔ جیسے ایک مرغا کئی مرغیوں کی قیادت کرتے ہوئے‘ خصوصی میٹنگوں میں جاتا۔ ایسے گروہوں کے باہمی بندھن بڑے مضبوط ہوتے ہیں لیکن اب سیاست میں نظریاتی وابستگیاں پرانی باتیں ہوتی جا رہی ہیں۔ اب ہمیں ماضی جیسی متحد جماعتیں دکھائی دینا بند ہو جائیں گی۔ ہر بڑی جماعت کے ٹکڑے ہوں گے۔ ہر درمیانی جماعت کے مزید چھوٹے ٹکڑے ہوں گے۔ سیاسی اتحاد کی بجائے خونی رشتے زیادہ مستحکم ہوں گے۔ بڑے لیڈر اپنے پورے پورے خاندانوں کو حکمرانی کے ڈھانچے میں داخل کریں گے۔ مرکزی حکومت اگر بڑے بھائی کے سپرد ہو گی تو صوبائی حکومت پر چھوٹے بھائی کا قبضہ ہو گا اور ان کے بچوں کے بچے‘ خاندانوں کو مالی طاقت مہیا کرنے کے لئے بااختیار چچائوں کے دفتروں میں جا کر ''کام‘‘کراتے اور کیک رس کھاتے دکھائی دیںگے۔
ابھی الیکشن نہیں آیا۔
ایک بزرگ سیاست دان نے اپنی نواسی کو گود میں لے کر‘ چپ کراتے ہوئے کہا ''رو مت بیٹی! رو مت۔ ابھی الیکشن نہیں آیا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved